عید کا دوسرا دن تھا آج بھی بہت مہمان آ رہے تھے گھر کے
کاموں نے تھکا دیا تھا
شام کا وقت ہوا تو میں نے سوچا اب کوہی نہیں آئے گا میں نے چائے بنا لی اور
صحن میں بیٹھ کر پینے لگی...
اتنے میں کسی نے آواز دی,,,باجی گھر پر ہیں آپ؟ میں نے سوچا اس وقت کون آ
گیا...شام کا وقت ہے اور گاؤں میں تو اس وقت لوگ اپنے ہی کاموں میں مصروف
ہوتے ہیں...خیر میں نے بے دلی سے جواب دیا تو وہ چھے سال کی بچی میرے سامنے
آ گئ..وہ تو ہمارے پڑوسی کی بیٹی تھی...اسے دیکھ کر میں ٹھٹھک کر رہ گئ...
اس نے وہ پرانے کپڑے پہنے تھے...اور اتنی گرمی میں اس نے گرم کپڑے پہن رکھے
تھے...مجھے یاد آیا مما سے کہہ کہہ کر ہم نے تین تین سوٹ سلوائے ہیں اور
ادھر....میں نے اسے بیٹھنے کا کہا...وہ بیٹھ گئ تو میں اس کے لیے کھانے
پینے کی چیزیں لینے چلی گئ...میں یہی سوچتی رہی کہ انسان کتنا ناشکرا ہے...اتنی
نعمتیں ہونے کے باوجود ناشکری
خیر میں نے سب کچھ ایک ٹرے میں لگا کر اس کے سامنے رکھ دیا...مگر وہ شرما
رہی تھی مجھ سے...میں نے سوچا اس سے دوستی کر لوں تو شاہد اس کی ہچکچاہٹ
دور ہو جائے گی میں اس سے باتیں کرنے لگی...میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے
ابو جب راولپنڈی سے واپس آئے تو اس کے لیے کیا لائے...اس نے نہایت معصومیت
سے کہا میرے لیے تو کچھ نہیں لائے مگر بکریوں کی رسیاں لاہے ہیں..ان کے پاس
اتنے پیسے نہیں تھے نا...;( اس کے جواب نے مجھے لاجواب کر دیا
پھر مجھے نہیں معلوم میں نے کیا باتیں کی اس سے....کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر
چلی گئ...مگر اس کی وہ بات میرے دل و دماغ پر سوار رہی...
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر حال میں صبر کرتے ہیں...چاہے کھانے کو کچھ
ہو یا نہ ہو.. پہننے کو کچھ ہو یا نہ ہو...یہی اچھے اور سچے لوگ ہوتے ہیں...کفرانِ
نعمت تو بہت بڑا گناہ ہے.. جو انسان صبر کی رسی تھام لیتا ہے پھر اللہ اسے
تھام لیتا ہے
|