بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی شدت گیری اور انتہا پسندی
نے بھارت کے لئے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ ہندو راشٹریہ کی تشکیل کے
جنون میں وہ صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مہم جوئی میں مصروف
ہیں۔بظاہر اس جنون کے پیچھے مسلمانوں کو کچل کر مودی ازم کو فروغ دینا ہے،
مگر ایسا نا ممکن ہے۔ اس نفرت اور انتقام گیری سے مسلمانوں کو مٹایا نہیں
جا سکتا۔ مگر بھارت انتشار اور افراتفری کا شکار ہو گا۔ بھارت کی سیاست اور
سفارت پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ مودی ہندو ازم کی ڈھال
میں ہندو ازم پر پے در پے وار کر رہے ہیں۔ جس سے بھارت سے ہی نہیں بلکہ
دنیا سے ہندوازم مٹ جائے گا۔ بھارت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ مگر اس سے
پاکستان سمیت پڑوسی ممالک بھی متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔کیوں کہ اس
خطے کی ترقی اور خوشحالی کا راز یہاں کی سیاسی استحکام اور ریاستوں کے
باہمی اشتراک میں چھپا ہے۔جس پر مودی چوٹیں لگا رہے ہیں۔ہندو شدت پسند
پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کر پائے۔ مگر پاکستان کسی بھی طور پر ان
انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں ہے۔ مودی کی لالچ اور نفرت انگیزی کی
لہر میں ڈوباایک کمزور، منتشر اور خانہ جنگی کا شکار بھارت کیا پڑوسی ممالک
کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا یا نقصان دہ، اس پر غور وفکر کی گنجائش ہے۔چین،
بنگلہ دیش، نیپال، افغانستان ، پاکستان سمیت ہمسائیہ ممالک کے پالیسی ساز
اس پرسوچ و بچار کریں تو بہتر ہو گا۔
جب سے2019 میں لوک سبھا انتخابات جیتنے کے بعد مودی اور امیت شاہ نے گٹھ
جوڑ سے دوسری بار مسند اقتدار پر قبضہ جمایا ہے ، اس کے ایک سال مکمل ہونے
پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔بعض اسے آئندہ دور کے کسی ڈرامے کی طرح دیکھ
رہے ہیں۔ ہندوستان کی اقلیتوں کے خلاف نفرت اورانتقام کی نئی لہر میں سرتا
پا ڈوبا ہوا بھارت اس کی مثال ہے۔ جس طرح بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہو
رہا ہے۔ عدلیہ کو یرغمال بنا کر مودی اور اس کا گروہ من پسند فیصلے کرا کر
انصاف کا خون بہا رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بدنام زمانہ کالے قوانین
کا نفاذ، کشمیریوں کو آزدانہ رائے شماری کا ھق دینے کے بجائے انہیں دہلی کے
براہ راست کنٹرول میں کالونیاں بنا نا، مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے
اقدامات، کشمیریوں کی اراضی کو چھین کر اس پر صیہونی پالیسی طرز کی ہندو
بستیاں بسانا، عیسائیوں، بدھ ازم، جین مت، سکھ مذہب کے پیروکاروں کی نسل
کشی اور ان کے مذہبی مقامات پر قبضے اور نذر آتش کرنے کی حکمت عملی جیسے
منصوبوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مودی بھارت کو تباہی و بربادی کے پروانے پر
دستخط کر چکے ہیں۔ 30مئی بروز ہفتہ مودی نے دوبارہ انتخاب کے بعد سے ایک
سال کا عہدہ اور چھ سالہ بلا تعطل حکمرانی کی حیثیت ایک دور مکمل کیا ۔اقلیتوں
کی لاشوں پرہندو راشٹریہ کے خواب دکھا کر لوہے کی مٹھی سے اقتدار حاصل کرنے
کے بعد سے ان کی حکومت نے خود کو آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بدترین
حکمرانی دی۔
اقلیتی مخالف سیاست کو باضابطہ بناتے ہوئے مودی کی مہم ایک ایسا سیاسی
تجربہ تھا جسے 2014 میں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک ایسا عوامی مقبول
انداز شروع کیا جس کا مقصد ہندوستان کی مسلمانوں کی قیمت پر ہندو اکثریت کو
مستحکم کرنا تھا۔ہندوتوا کے ایک سخت گیر رہنما، مودی کے قابل اعتماد ساتھی
امیت شاہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر کی حیثیت سے یہ کام سونپا گیا
کہ وہ بھگوا جماعت کو واضح طور پر انتہا پسندی خطوط پر دوبارہ استوار
کرے۔ان دونوں نے انتخابی حلقوں کو پولرائز کیا اورایسی ثقافت پیدا کی کہ
اکثریت پسند فرقہ وارانہ زہر سڑکوں پر آگیا۔ بی جے پی قائدین نے گائے کے
گوشت کھانے کے خلاف قومی سطح پر مہم چلائی۔ ان کی حکومتوں نے گائے کے ذبیحہ
کے خلاف قوانین منظور کیے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دوسرے مذاہب کے قابل ذکر
طبقات مویشیوں کا گوشت کھاتے تھے، ان سب کا مقصد مسلمانوں کے خلاف تھا -معاملات،
ڈرامائی طور پر مئی 2019میں تبدیل ہوئے جب مودی نے لوک سبھا انتخابات میں
دوسری بار غیر معمولی اکثریت حاصل کی۔ تب سے، بھارت نے اس فرقہ وارانہ زہر
کواتنا پھیلایا کہ اس نے ہندوستانی ریاست کے ساتھ مسلمان شہریوں کے تعلقات
کو نمایاں طور پر تبدیل کردیا ہے۔ ایسی قانون سازی کی گئی جو مسلمانوں کی
یکساں شہری کی حیثیت کو مجروح کرتی ہیں۔پہلے، فوری تین طلاق پر چوٹ لگائی
گئی۔ مسلم تشخص اور شہریت پر اس براہ راست حملے نے مودی سرکار کو جان بوجھ
کر ایک بڑے شہری مدار کے ساتھ یکساں سول کوڈ پر عمل درآمد کے طویل المدتی
ایجنڈے کی طرف بڑھنے میں کامیاب کردیا۔اس کے بعد، آرٹیکل 370 کو حکومتی حکم
کے ذریعے ختم کردیا - یہ آئینی پامالی کا واضح معاملہ ہے۔ یہ آرڈر سنگھ
پریوار کی تاریخی نفرت سے براہ راست ایک مسلم اکثریتی ریاست کو حاصل نام
نہاد آئین کے تحت حاصل خودمختاری کو سلب کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔
|