میرا ایک دوست کہتا ہے " کراچی شہر اس محبوبہ کی طرح ہے
جو نہ کبھی بےوفائی کرتی ہے اور نہ کسی کو بھوکا سونے دیتی ہے " ۔اس بات کی
سچائی کو صرف وہی شخص سمجھ سکتاہے جس نے اپنی زندگی کا کچھ عرصہ اس بے مثال
شہر میں گزارا ہو ، یہ شہر اور یہاں کے باسی دونوں اعلی ظرف اور کشادہ دل
ہیں،یہاں کچھ عرصہ رہ کر آپ کہیں بھی چلے جائیں واپس یہیں لوٹنے کو دل ضرور
کرتا ہے ۔
2000ء کی بات ہے غالبا" جب میرا پہلی بار کراچی جانا ہوا، میرا ننھیال اور
دودھیال اس وقت دونوں وہیں تھے ، گلستان جوہر سے ذرا آگے ائرپورٹ کے ساتھ
ہی پی آئی اے ہاوسنگ سوسائٹی میں ہمارے گھر تھے ۔
ہمارے ایک قریبی عزیز کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بڑا کاروبار تھا ، حاجی صاحب
ہر مہینے گیارہویں شریف کی ایک بڑی محفل کا انعقاد کیا کرتے تھے، جہاں کئی
بڑی شخصیات تشریف لاتی تھیں وہیں میری عالمی شہرت یافتہ قاری سید صداقت علی
صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی ۔
اور وہیں میری سب سے پہلی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جو آگے چل کر
ناصرف کراچی کے اردو ادب میں بہت بڑا نام بنے بلکہ کینیڈا میں بھی انہوں نے
اردو شاعری کی بہت خدمت کی ، کرتا شلوار میں ملبوس دھیمے سے مزاج کے ایک
نفیس انسان ہر ماہ باقاعدگی سے اس محفل میں حمد و نعت پڑھتے تھے ، میں جو
تازہ تازہ مدارس کے ماحول سے نکلا تھا مجھے یہ شخص مولوی تو کہیں سے نہیں
لگا ، پھر کسی نے بتایا کہ موصوف کی عنقریب حمد و نعت اور نوحوں پہ مشتمل
کتاب چھپنے والی ہے ، فطری بات ہے شاعری کے دلدادہ کسی نوجوان کے لئے ایک
شاعر کی محبت سے بچ کر رہنا مشکل کام ہے سو یہ شخص میرے دل کے کسی کونے میں
ہمیشہ کے لئے بس گیا ، یہ شاعر جناب ظفر عباس ظفر تھے جو سندھ کے کسی
دورافتادہ علاقے سے کراچی آبسے تھےاور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے ۔
پھر شائد دوہزار چار یا پانچ تک مسلسل ان سے ملاقات ہوتی رہی ، ان کا
پسندیدہ لباس شائد شلوار کرتا تھا وہ ہمیشہ اسی پیرہن میں ہوتے اکثر ہاتھ
میں ڈائری تھامے ہوتی، کراچی سے سیالکوٹ آنے کے بعد ایک عرصے تک ان سے کوئی
رابطہ نہیں ہوا ، پھر 2007 کے روزنامہ جنگ میں ان پہ لکھا ایک آرٹیکل پڑھا
تھا جو ان کی کتب پہ کسی ناقد کا شاندار تبصرہ تھا ۔
ظفر عباس ظفر آج کل کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور ماشا ء اللہ بارہ کتابوں
کے مصنف ہیں ، ساری دنیا میں ان کے قاری موجود ہیں ، دنیا بھر میں مشاعرے
پڑھ چکے ہیں، ان کی شاعری حب اہل بیت و عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
پیغام ہے یہ شخص سر تا پیر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار
ہے ان کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کیجئے
" ظفر یہ ہوتا ہے یاد نبی میں حال اپنا
کہ خود مجھے بھی کچھ اپناپتہ نہیں ہوتا"
عہد حاضر کا یہ شاعر بڑے سلیقے سے نوجوان نسل کو اپنی تہذیب اور مذہب سے
جوڑنے کا ہنر رکھتا ہے ایک جگہ کیا خوب لکھتے ہیں
"بغیر عشق نبی اس طرح سے ہے ایمان
کسی کا دل ہی نکل جائے جیسے سینے سے
شراب عشق نبی کی بھی ہے عجب تاثیر
کہ بڑھتا جاتا ہے ایمان اس کے پینےسے"
نعت لکھنا ایک ایسا مشکل اور کٹھن کام ہے کہ اس فن میں بڑے بڑے مہارت رکھنے
والے شعراء کا قلم بھی کانپ جاتاہے یہ وہ نازک علمی فریضہ ہے جس کی سعادت
ہر شاعر کے مقدر میں کہاں؟
بقول ظفرعباس ظفر
"میں گنہگار کہاں مدحت سرکار کہاں
مرحلہ نعت کا آسان بنادے مولا "
اور پھر لکھتے ہیں
"ہو عطا مجھ کو بلال حبشی کا لہجہ
اور کردار کا سلمان بنا دے مولا
کب کہا میں نے بنا مجھ کوفقیہہ ومفتی
بس مجھے صاحب ایمان بنادے مولا "
ظفر عباس ظفر عہد حاضر کے ایک بڑے نامور شاعر ہیں جو فرقہ ورانہ کشیدگی اور
مسلکی تعصب کو اپنے قلم کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ہنر جانتے ہیں،
ایسے عالی دماغ روز پیدا نہیں ہوتے ۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ یہ ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے
کہ ہم ہر اس شخص کو اس ملک سے بھاگ جانے پہ مجبور کردیتے ہیں جو کسی بھی
شعبے میں بے مثال مہارت رکھتا ہو ، ہم اپنی کھیتی کی اچھی اور نایاب فصل کو
کاٹ کاٹ کر اپنی زمین بنجر کررہے ہیں ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا بصورت دیگر
کچھ ہاتھ نہیں آئےگا ۔
بہادر شاہ ظفر سے ظفر عباس ظفر تک کتنے عالی قدر شعراء کا نوحہ لکھوں ،
سارے بڑے شعراء ناقدری کا شکار ہی تو ہوئے ، ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ
شاعری پڑھتے اور داد دیتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ادیبوں اور شاعروں کے
ساتھ جیسا سلوک ہوتا ہے وہ اور کہیں کسی اور ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔
|