ڈاکٹر ہیرو یا ولن؟

پہلا منظر:
چاچا رفیق کا بڑا لڑکا چھت پر سفید پرچم لہرا کر نیچے اترا کیونکہ آج کا دن ڈاکٹروں کی کرونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں خدمات کیلئے وقف کیا گیا تھا۔۔اور یہ بات باقی لوگوں کی طرح وہ بھی جانتا تھا کہ آج جب سب لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ گھروں میں قید ہیں،عدالتیں اپنے دروازے بند کر چکی ہیں،منسٹر،ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔اے حضرات لوگوں سے رابطہ ختم کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں تو ان حالات میں یہ ڈاکٹر ہی ہیں جو اپنے پیاروں سے دور،بغیر کسی حفاظتی سامان کے ہسپتالوں میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔۔صرف وہی نہیں اس کے گھر کے باقی لوگ بھی ڈاکٹروں کی خدمات کا اعتراف کر رہے تھے۔۔
دوسرا منظر:
عام لوگوں کی طرح "خاص" لوگ بھی،جن میں عدالت عظمٰی کے جج،فوج کے سربراہ،منسٹر حضرات اور کچھ مولوی حضرات بھی ڈاکٹروں کی خدمات کے اعتراف کی خبریں سن،پڑھ اور دیکھ رہے تھے۔۔۔
اب شاید یہ پروفیشنل جیلیسی تھی یا اپنے "سپریم"ہونے کا احساس کہ ان "خاص"لوگوں کو ڈاکٹروں کی یہ تعریف اور حوصلہ افزائی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔۔۔
تیسرا منظر:
چاچا رفیق کا لڑکا مسجد سے لوٹا تو بہت غصے میں تھا۔۔۔کہنے لگا آج مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ یہ کرونا وغیرہ کچھ نہیں ہے،ڈاکٹروں کی سازش ہے سب۔۔ان کو اس چیز کے بہت پیسے ملتے ہیں۔۔اور تو اور اگر ماسک پہن کر مسجد میں نماز پڑھی جائے تو نماز بھی قبول نہیں ہوتے۔۔بھلا ہو مولوی صاحب کا جنہوں نے ان ڈاکٹروں کی حقیقت کھول دی ورنہ ان کی وجہ سے پتہ نہیں ہم کتنی نمازیں خراب کر چکے تھے۔۔
اس نے ٹی-وی آن کیا اور خبریں سننے لگا جہاں عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس صاحب ڈاکٹروں پر یہ الزام لگا کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتے دکھائی دیے کہ وہ صرف چائے پینے کیلئے ہسپتال جاتے ہیں نہ کہ مریضوں کیلئے۔۔۔
منسٹر حضرات یہ کہتے دکھائی دیے کہ ہسپتالوں میں تمام سہولیات موجود اور ڈاکٹروں کی جانب سے حفاظتی سامان نہ ملنے اور سہولیات کے فقدان کا دعوٰی بلکل جھوٹا ہے۔۔
اور فوجی حضرات یہ کہتے کہ "سب کچھ کنٹرول میں ہے"اور محض اس لیے حفاظتی سامان دنیا کے دوسرے کونوں میں بھجواتے نظر آئے۔۔
یہ سب دیکھ کر اسکا مولوی صاحب کی باتوں پر یقین اور بھی پختہ ہوگیا کہ کرونا کی آڑ میں ڈاکٹر لوگوں کو مار کر پیسے وصول کر رہے ہیں۔۔۔
چوتھا منظر:
چاچا رفیق کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔۔۔بقول ڈاکٹر کے ان کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ چکے تھے اور انہیں وینٹیلیٹر کی اشد ضرورت تھی جو کہ ہسپتال میں میسر نہیں تھا ۔۔۔دو گھنٹے تک ڈاکٹروں کو اپنے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ لینے اور ان کا یہ موقف سنے بغیر کہ وینٹیلیٹر اور دوسرا سامان مہیا کرنا حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری اور اختیار میں ہے،ڈاکٹروں کے اختیار میں نہیں ۔۔وہ اپنے ساتھیوں سمیت ڈاکٹروں پر حملہ کر چکا تھا۔۔کچھ لمحوں میں ججوں،سیاست دانوں،سپریم اداروں اور میڈیا کی لگائی گئی آگ کے نتیجے میں وہاں زمین پر ڈاکٹروں کا خون پڑا نظر آرہا تھا۔۔اس کے باوجود باقی ڈاکٹر اس کے والد کے علاج میں مصروف تھے۔۔
پانچواں منظر:
چاچا رفیق کو آج ہسپتال میں پانچواں دن تھا۔۔اس کا بیٹا روزانہ ڈاکٹروں کو اس کے والد کا علاج کرتے اور اپنی بھوک پیاس کی پرواہ کیے بغیر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے نظر آتے۔۔۔اسے اپنے رویے پر جتنی ندامت تھی اس کا بس نہیں چلتا تھس کی زمین کھلے اور وہ اس میں دھنس جائے۔۔
اپنے ضمیر کی عدالت میں جب اپنے والد کے علاج کیلئے اس نے عدالت عظمٰی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اسے انصاف کیلئے ایک لمبی لائن میں لگنے کا کہا گیا۔۔
اپنے حکمرانوں،منسٹرز کی طرف رخ کیا کہ اس کے نعروں،سیاسی خدمات اور ووٹ دینے کے صلے میں اس کے والد کو علاج مہیا کیا جائے تو اس کو دھتکار کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔۔
سپریم ادارے کا رخ کیا تو سی۔ایم۔ایچ کا دروازہ بلڈی سویلین کہ کر اس کے منہ پر بند کردیا گیا.....
مولوی صاحب کی طرف رخ کیا جن کے بقول کرونا کا کہ کر ڈاکٹر مریضوں سے پیسا بٹور رہے تھے،تو انہوں نے اپنے حجرے کا دروازہ کھولنا بھی مناسب نہ سمجھا کہ پتہ نہیں چاچا رفیق کیسی کیسی بیماریاں لیے پھر رہا ہے جو انہیں منتقل نہ ہو جائیں۔۔
ہر طرف سے دھتکار سہنے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ زندگی اور موت کی اس جنگ میں محض ڈاکٹر حضرات تھے جو اس کے والد اور اس کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔۔۔۔
پاکستانی اداروں،بشمول میڈیا نے میڈیکل کے پروفیشن اور ڈاکٹر حضرات کے خلاف اس قدر زہر لوگوں کے دماغ میں بھر دیا ہے جو کہ روزانہ ہسپتالوں میں ہونے
والے لڑائی جھگڑے اور فساد کی صورت میں نظر آتا ہے۔۔۔
بڑی آسانی سے ڈاکٹروں کو قصائی کہا جاتا ہے۔ میڈیا پہ خبر چلتی ہے کہ ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے یہ کام ہو گیا۔ کبھی ان چیزوں کا سوچا ہے جو یہ ڈاکٹر لوگوں کی بھلائی کے لیے کرتے ہیں۔ جو دن رات اللہ ان کو ہزاروں زندگیاں بچانے کا ذریعہ بناتے ہیں کبھی ان کو میڈیا پہ خبر بنایا ہے؟ جب تک ہم کسی دوسرے کی جگہ پر کھڑے ہو کر نہیں سوچتے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے دوسروں کی زندگی کو، ان کی قربانیوں کو۔

ڈاکٹروں کو اللہ نے جو عزت دی ہے وہ شاید صرف ان غریب لوگوں کی دعائیں ہیں جو دنیا والوں کو نہیں پتا، بس اللہ جانتا ہے۔
ورنہ شاید یہ ڈاکٹر ہیرو نہیں بلکہ اس قوم کے ولن ہیں جسے خود کو بچانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔

ہیرو کبھی ہاتھ جوڑ کر اپیل نہیں کرتے، ہیرو کو بنیادی ساز و سامان مانگنے کے لیے دھرنے نہیں دینے پڑتے، بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھنا پڑتا، مظاہرے نہیں کرنے پڑتے، عدالتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا پڑتا، لاٹھیاں نہیں سہنی پڑتیں۔قوم کو لاک ڈاؤن کے لیے خدا رسول، اپنی اور اپنے خاندانوں کی جان کا واسطہ نہیں دینا پڑتا۔
مگر یہ جو بھی ہیں اس وقت انہیں سیلوٹ کی نہیں حفاظتی سوٹ کی ضرورت ہے۔ انہیں آستانے نہیں دستانے چاہیئیں۔انہیں دلنشیں خطاب نہیں حفاظتی نقاب درکار ہے۔ انہیں شوکاز لیٹر نہیں وینٹی لیٹر مہیا کریں۔ انہیں کوئی چمتکاری ڈھکوسلا نہیں حوصلہ چاہیے۔ انہیں ہمدردی کی نہیں درد مندی کی ضرورت ہے۔ یہ ہیرو نہیں شاید زیرو ہی ہیں۔

بس ذرا یہ سوچ لیں کہ اگر بائیس کروڑ میں سے زیرو نکل جائیں تو کیا رہے گا؟‘

Adil Mehmood
About the Author: Adil Mehmood Read More Articles by Adil Mehmood: 6 Articles with 5740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.