اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدید منظر
نامہ میں زبیرالحسن غافلؔ ایک اہم شاعر ہیں۔ زبیرالحسن غافلؔ پیدائشی شاعر
ہیں۔ بچپن سے ہی ان کو شعر و شاعری کا ذوق و شوق رہا ہے۔شعرو شاعری ان کو
وراثت میں ملی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ددہال اور ننہال میں
شعر و شاعری کا ماحول سر گرم تھا۔ ان کے نانا فرزند علی شیداؔ ردو اور
فارسی میں ظریفانہ شاعری کرتے تھے۔ زبیرالحسن کی پیدائش ۲۷ جنوری ۱۹۴۴ء میں
ایک متوسط زمیندار گھرانے میں ہوئی۔۱۹۴۴ء میں بی۔ایس۔سی کی تعلیم حاصل کرنے
کے بعد والد کے حاکم سے قانون میں داخلہ لے لیا۔ ۱۹۴۸ء میں بی۔ایل کرنے کے
بعد ۱۹۴۹ء میں سول کورٹ ارریا میں وکالت شروع کی۔ ۱۹۷۵ء میں منصف کے مقابلہ
جاتی امتحان میں شریک ہوئے اور ان کو کامیابی نصیب ہوئی۔ جس بعد وہ بہار کے
مختلف ضلع میں بطور منصف کے عہدے پر فائز رہے۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں بہار کے
مظفر پور سے ایڈیشنل ڈسٹرسکٹ جج کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ ان کے والد
جناب ظہورالحسن صاحب کہنہ مشق شاعر تھے اور حسن ؔ تخلص رکھتے تھے۔جناب ظہور
الحسن حسنؔصاحب کے چند غزلیہ اشعار نمونے کے طور پر ملاحظہ فرمائیں:
آج نکلا ہے حوصلہ دل کا
لے لیا بوسہ پائے قاتل کا
دیکھ کر میری رفعتِ پرواز
منہ ہوا زرد ماہ کامل کا
زبیرالحسن غافلؔ کو شعر و شاعری کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ وہ
اکثر دل بہلانے کے لیے شعر و شاعری کر لیتے تھے لیکن وہ ان کو شائع نہیں
کراتے تھے۔ دوستوں کے اصرار پر انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ’’اجنبی شہر‘‘
۲۰۰۷ء میں شائع کرایا۔ جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔اس شعری
مجموعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس شعر ی مجوعہ
کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا۔اس شعری مجموعہ میں شاعر نے غزلیں
،نظمیں، قطعات اور ماہیوں کی تخلیق کی ہے اور فیض احمد فیضؔ کے مشہور نظم
کی پیروڈی بھی انھوں نے بڑے ہی پر لطف انداز میں بیان کی ہے۔ زبیر الحسن کے
اس شعری مجموعہ میں سیاسی،سماجی اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا شعور روشن
و منور ہے۔ زبیر الحسن غافل بڑی صاف گوئی سے اور بیباکی کے ساتھ اپنی شاعری
کے ابتدائی دور کے سلسلے میں اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اس
کتاب میں ’’کچھ اپنے بارے میں‘‘رقمطراز ہیں:۔
’’اس طرح میرے اندر شاعری، وکالت کے جراثیم وراثتاً منتقل ہوئے لیکن میں نہ
تو کامیاب شاعر بن سکا اور نہ میں ایک کامیاب وکیل ۔ ویسے میرے دوستوں و
کرم فرماؤں کی بیجا تعریف نے مجھے اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ میں
اچھے اشعار کہہ سکتا ہوں لیکن اس غلط فہمی کے باوجود میں کبھی اپنی بے تکی
غزلیں و نظمیں کسی معیاری رسالہ میں اشاعت کی غرض سے بھیجنے کی ہمت نہ کر
سکا۔ میری پہلی نظم
جو کسی رسالہ میں شائع ہوئی وہ ’’اجنبی شہر‘‘ تھی۔ جب وہ نظم میں نے پہلی
بار ارریا کے ایک مقامی مشاعرے میں پڑھی تھی، جس کی صدارت اس وقت ارریا کے
سول ایس۔ڈی۔او (جن کانام مجھے ابھی یاد نہیں) کر رہے تھے۔سامعین نے میری
کافی ہمت افزائی کی۔ ایس۔ڈی۔او صاحب کو بھی وہ نظم پسند آئی اور انھوں نے
مجھ سے وہ نظم لے کر ماہنامہ ’’پاسبان‘‘ کو بغرض اشاعت بھیج دی اور اتفاق
سے شائع بھی ہو گئی۔ اس کے بعد تو مقامی شاعروں کے درمیان مجھے استاد سخن
سمجھا جانے لگا۔‘‘
(اجنبی شہر: ص ۱۱)
زبیرالحسن غافلؔکا شمار اردو کے کلاسک شعرا میں ہوتا ہے۔ان کے ذہن میں بھی
کلاسیکی شعرا کی طرح جنون اور دیوانگی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ دل کے درد و
کرب ، رنج و غم اور دکھ و الم کا اظہار ان کی ظریفانہ شاعری میں جا بجا نظر
آتا ہے۔ جہاں سامعین اور قارئین کو نشاط کی کیفیت بھی ملتی ہے اور درد و
کرب بھی ملتا ہے۔ یہی زندگی کا اصل جوہر ہے۔ انھوں نے سماج میں اپنی کھلی
آنکھوں سے جو دیکھا ہے، محسوس کیا ہے اور بھوگا ہے، اس کو انھوں نے اپنی
شاعری میں بڑے ہی فنی لطافت کے ساتھ طنز و مزاح کو چاشنی میں گھول کر ہمارے
سامنے پیش کر دیا ہے۔ زبیرالحسن غافلؔ حساس دل کے مالک ہیں ۔ وہ سماجی
مسائل کو طنز و مزاح کی چاشنی میں برتنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔غافلؔ کی
شاعری پر اپنے پُر مغز اور معنی خیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے
حقانی القاسمی نے فرمایا ہے:
’’زبیر الحسن غافلؔ کی شاعری میں ’نشاطِ کرب‘ کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں۔
دراصل یہی نشاطِ غم ہے جو زندگی کا اصل فلسفہ ہے اور اسی فلسفہ سے انسانی
زندگی میں امید اور رجا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ تمام تر خطرات کے باوجود
امید و رجا کا شاعر زندگی کو نہایت آزادروی کے ساتھ گزار دیتا ہے۔ دیکھا
جائے تو کلاسیکی شاعروں کی طرح غافلؔ میں بھی ایک جنون اور دیوانگی کی
کیفیت ہے اور اسی مقدس دیوانگی میں ان کی زندگی کے زاویے اور حیات و کائنات
کے نظریے کو اثباتی رنگ عطا کیا ہے۔ حیات و کائنات کے تضادات میں انھوں نے
جو اُفق تلاش کیا ہے، وہ توافق ان کے اندرون اور ذہنی و فکری صحت مندی کا
اشاریہ ہے۔ ‘‘
(اجنبی شہر : ص ۳۱)
زبیرالحسن غافلؔ طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ شاعری بھی بڑی
ہنرمندی اور کامیابی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام ’’اجنبی شہر میں
’’چارہ گر‘‘، ’’رشوت‘‘ ، ’’بہار کی موجودہ حالت‘‘، ترک شاعری‘‘، ’’اینٹی
شوہر کانفرنس‘‘، ’’ایک لیڈر سے انٹرویو‘‘، ’’مسئلہ‘‘،’’یوم اردو‘‘، ’’صاحبِ
دیوان‘‘، ’’نیا الیکشن‘‘، منصف صاحب‘‘، ’’روزگار‘‘،’’نسخۂ لیڈری، ’’شاعر‘‘،
’’لیڈر‘‘، ’’پروفیسر‘‘،’’جشنِ جمہور‘‘،اور’’ہولی‘‘ وغیرہ طنز و مزاح کی
عمدہ مثالیں ہیں۔ غافلؔ حساس دل کے مالک ہیں۔ وہ سماجی اورعوامی مسائل کو
طنز و مزاح کی چاشنی میں برتنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ وہ اپنی مہذب
ظریفانہ اور مزاحیہ شاعری کے ذریعہ قارئین اور سامعین کو صرف ہنسنے اور
ہنسانے کا ہی کام نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ قارئین اور سامعین کو بہت کچھ
سوچنے ،سمجھنے اور محسوس کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں ۔ ۔ ان کی ظریفانہ
شاعری میں ہمدردی کے عناصر اور لوازمات جا بجا نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی نظمیہ
شاعری سے صرف دوسروں کو ہنسانے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کی
آنکھوں سے پردہ اُٹھاتے ہیں تاکہ قارئین اور سامعین اپنے ارد گرد کے ماحول
کو دیکھ سکیں اور ان کے مضحک پہلوؤں پر ہنسے اور قہقہ لگائیں۔ غافلؔ نے نظم
’’چارہ گر‘‘ میں بہار صوبہ کے چارہ گھوٹالے کی حقیقی اور سچی تصویر کو بڑی
بیباکی اور کامیابی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیاہے۔ نظم ’’چارہ گر‘‘کے
اشعار خاطر نشیں ہوں:
یہ مویشی کے مسیحا یہ طبیب جانور
کھا گئے چارہ انھیں کا جن کے تھے یہ چارہ گر
زور سے اپنے قلم کے پہلے پھیلائی وبا
پھر چکستا کے لیے مانگی حکومت سے دوا
جو دوائیں دی گئی تھیں جانور کے واسطے
ان کو بھی بازار میں یہ بیچ کر سب کھا گئے
پھر وبا مین مر گئے سارے کے سارے جانور
جن کو بانٹا تھا انھوں نے پہلے فرضی نام پر
ان غریبوؓ کو نیا اک جانور پھر سے ملے
اس لیے موٹی رقم بھیجی انھیں سرکار نے
پھر وہی ترکیب پہلے کی سی دہرائی گئی
یعنی فرضی نام پر ساری رقم کھائی گئی
پھر سروں پہ رکھے ان کے چند نیتاؤں نے ہاتھ
یوں طویلے میں بندھے خچر بھی اب گھوڑوں کے ساتھ
رات بھر میں سارا چارا ان کی سازش چر گئی
جو طویلے کی بلا تھی بندروں کے سر گئی
پھر تو کچھ ہی سال میں وارے نیارے ہو گئے
گائیں بھینسیں اور گھوڑے سب بیچارے ہو گئے
زبیرالحن غافلؔ کی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری اپنے عہد کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ
بڑی سے بڑی بات کو طنز و مزاح کے پیکر میں بڑی خوش اسلوبی اور فنیّ لطافت
کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بہار صوبہ کی موجودہ صورتِ حال کو انھوں
نے اپنی نظم ’’بہار کی موجودہ حالت‘‘ میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں:
ایسی حالت ہو گئی سڑکوں کی اس سرکار میں
بیل گاڑی کا مزہ آنے لگا ہے کار میں
کیوں اسے لے جا رہے ہو تم ابھی سے ہسپتال
جان بچنے کی ابھی امید ہے بیمار میں
سارے دھندوں میں تو اب گھاٹا ہی گھاٹا ہے یہاں
کچھ منافع ہے تو بس اغوا کے کاروبار میں
اسی طرح انھوں نے اپنے دلی جذبات،خیالات، احساسات اور محسوسات کو انھوں نے
اپنی نظم ’’مسئلہ‘‘ میں بھی بیان کیا ہے۔ دینا میں ہو رہی تبدیلی اور اس کی
آہٹ کو وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور قارئین و سامعین کو بھی
دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور سماج کو بیدار کرنے کی مستحسن کوشش کی
ہے۔ اس نظم کے چند اشعار خاطر نشان ہوں:
عورتوں کے ہاتھ میں جب اقتدار آ جائے گا
گھر کے اندر قید پھر مردوں کو رکھا جائے گا
جا نہیں سکتی کچن میں کوئی بھی خاتون اب
پاس ہوگا دیش میں ایسا ہی اک قانون اب
بیویوں کے آگے اپنا سر اٹھا سکتا نہیں
حکم ان پر اب کوئی شوہر چلا سکتا نہیں
زبیرالحسن غافلؔ نے غالبؔ اور فیضؔ کی کی زمین میں پیروڈی بھی لکھی ہے۔
فیضؔ کی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ پر انھوں نے بڑی
عمدہ پیروڈی تخلیق کی ہے۔ یہ پیروڈی بھی ان کی عمدہ شعری تخلیق کا حصّہ ہے۔
انھوں نے اپنے دلی جذبات واحساسات کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈھال کرفیض ؔ
کے مصرعہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ میں بڑی کامیابی اور
چابکدستی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اس پیروڈی کے چند اشعار ملاحظہ
فرمائیں:
اے مری جانِ تمنا اے مری جانِ بہار
جب سے میکہ تیرا میرے لیے سسرال ہوا
کیا عجب بات ہوئی کیسی یہ کایا پلٹی
جیب پھولی تیرے ابا کی میں کنگال ہوا
فکر راشن کا لگا رہتا ہے تنہائی میں
کس طرح پیار کی باتیں کروں مہنگائی میں
مجھ سے پہلی سی محبّت مرے محبوب نہ مانگ
زبیرالحسن غافلؔ کی شعری کائنات میں دل کے درد و کرب ،رنج و غم، اور دکھ وو
الم کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ جو انھوں نے اپنوں کی موت پر بیان کیاہے۔
انھوں نے اپنی والدہ کے وفات پر، اپنے مرحوم بیٹے اشعر حسن (آشی) کی نذر
اور اپنے بھتیجے ’رومی‘ بن ظفر الحسن کی یاد میں شخصی مرثیے تخلیق کیے ہیں۔
ان مراثی میں انھوں نے دل کو درد و کرب اور رنج و غم کو بڑی المناکی اور
غمناکی کے ساتھ بیان کیاہے۔ ’’اپنے مرحوم بیٹے اشعر حسن (آشی) کی نذر‘‘ میں
اپبے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کیوں ہوئے اتنے بد گماں آشی؟
چھپ گئے مجھ سے تم کہاں آشی؟
جس کی لالچ میں چھوڑی یہ دنیا
کتنا پیارا ہے وہ جہاں آشی؟
کس کے سینے سے لگ کے سوتے ہو؟
کون دیتا ہے تھپکیاں آشی؟
تیرے جانے سے ہو گیا کتنا
سونا سونا تیرا مکان آشی
میری یادوں میں اب بھی تازہ ہے
تیری سانسوں کی گرمیاں آشی
اسی طرح شاعر نے اپنے دل کی المناکی اور غمناکی کا اظہار اپنے بھتیجے ’رومی
بن ظفر الحن کی یاد میں ‘ کیا ہے۔یہ دکھ درد اور رنج و غم ان کے اپنے ہیں۔
جس میں وہ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اس مرثیے کے درد انگیز اور فکر انگیز
اشعار خاطر نشیں ہوں:
اے مرے نورِ نظر، لختِ جگر، جانِ پدر
کس کیے روٹھے ہو مجھ سے کیوں گئے گھر چھوڑ کر
ساتھ اپنے مختصر سی زندگی لائے تھے کیوں؟
اتنی جلدی تھی اگر جانے کی تو آئے تھے کیوں؟
جانے کس لالچ نے گھیرا کس نے بہکایا تمہیں
کس جہاں کی آرزق میں گھر نہیں بھایا تمہیں
چند لمحوں کی خوشی دے کر یوں بہلانا غضب
بے رخی دکھلا کے تیرا اس طرح جانا غضب
گونجتے تھے کل تمہارے قہقہوں سے بام و در
آج لیکن کس قدر خاموش ہے وہ تیرا گھر
زبیرالحسن غافلؔ نے ہندوستانی تہوار اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کو بھی
اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے ہولی کے رنگ و پھہاراور ہنسی، مذاق
و مستی کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ اپنی نظم
’’ہولی‘‘ میں اپنے دلی جذبات و احساسات اور خیالات کا اظہارکا بڑے پُر کیف
انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہے شرم کی لالہ کہ شفق پھوٹ رہی ہے
یا رنگ کی پچکاری کوئی چھوٹ رہی ہے
دانتوں کی قطاریں ہیں کہ موتی کی لڑی ہے
یا کھیر سے چاول کے کوئی پیالی بھری ہے
زلفوں میں چھپی آج جواں رات ہے پیارے
یہ تیرا بدن ہولی کی سوغات ہے پیارے
ان کے شعری مجموعہ ’’اجنبی شہر‘‘ میں فسادات کے حوالے سے بھی کافی نظمیں
ملتی ہیں۔ جس میں انھوں نے اپنے دل کے درد و کرب اور رنج و غم کا اظہار بڑے
درد انگیز اور فکرانگیز طریقے سے قارئین اور سامعین کے سامنے بیان کیا ہے۔
ان کی تمام سنجیدہ نظمیہ شاعری قارئین اور سامعین کو غور و فکر کی دعوت
دیتی ہیں۔گجرات کے فساد ات کا المناک منظر انھوں نے اپنی نظم میں بڑے ہی
فنی لطافت اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایک چھوٹے سے بچے کی ماں کے
موت کے بعد اس سے لپٹ کر کھیلنے اور بچہ کا مری ہوئی ماں کی چھاتی کو چوسنے
کی درد انگیز تصویر کو شاعر نے اپنی نظم ’’گجرات کے حالیہ فساد سے متاثر ہو
کر‘‘ میں بڑی کامیابی اور ہنر مندی کے ساتھ بیانج کیا ہے۔ اس نظم کے چند
اشعار خاطر نشیں ہوں:
جل رہے تھے لیکن کھیلتا رہا بچہ
مردہ ماں کے سینے سے لگ کے سو گیا بچہ
رکھ دیا ہے یہ منظر کس نے میری آنکھوں میں
خون سے بھری چھاتی چوستا ہوا بچہ
آگ اور دھماکوں کے کھیل سے بہلتا ہے
آج کے زمانے کا آدمی ہوا بچہ
کھیلتا ہی رہتا ہے توڑتا ہی رہتا ہے
آدمی کھلونا ہے اور ہے خدا بچہ
اسی طرح فسادات حوالے سے ملک کی بد حالی اور پامالی کے منظر کوانھوں نے نظم
’’اجنبی شہر‘‘ میں بھی اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ اپنے
نظمیہ اشعار کے ذریعہ عصر حاضر کی تصویر کو بڑی عمدگی کے ساتھ ہمارے سامنے
پیش کرتے ہیں۔ ’’اجنبی شہر‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دن جو ہوتا ہے نیارات نئی ہوتی ہے
آج اس شہر مین ہر بات نئی ہوتی ہے
ہے زمیں بوس عمارت و شکستہ دیوار
جس طرف دیکھئے لاشوں کا لگا ہے انبار
چپ ہیں گو دام تو خاموش ہے مل کی دھڑکن
بہن بیوہ ہوئیں خالی ہوئے ماں کے آغوش
اہرمن ناچ رہا ہے مگر یزداں خاموش
ہر طرف پھیلی فضاؤں میں ہے بارود کی بو
آج پانی سے بھی ارزاں ہوا انسان کا لہو
سر تو کٹتے ہیں مگر وقت نہیں کٹتا ہے
آج کیوں اجنبی یہ شہر مجھے لگتا ہے
ان کے قطعات بھی طنز و مزاح کی چاشنی میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو پڑھنے
اور سننے والوں ذہنی سکون عطا کرتے ہیں۔ وہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں
اور بے رحم سچائیوں پر سے نقاب اُٹھانے کی پُر زور کوشش کی ہے۔ جس میں وہ
کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ذریعہ لوگوں کو
بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند قطعات خاطر نشیں ہوں:
شیخ جی جب سے میونسپلٹی کے ممبر ہو گئے
دیکھتے ہی دیکھتے ان کا مقدر پھر گیا
ایک بھی ننگا کہیں رہنے نہ پائے اس لیے
شہر میں جھاڑو پھرا داڑھی میں ریزر پھر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہہ رہا تھا چور یہ کل ایک تھا تھانیدار سے
مجھ سے کچھ بچ کر ہی رہنا ہیں بُرے پھیرے مرے
ایک ہی دن میں تجھے سسپنڈ کروا سکتا ہوں
ہیں منسٹر جتنے وہ بھائی ہیں موسیرے میرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل بھری محفل میں یہ اک دل جلا کہنے لگا
آ بتاؤں تیل کیوں مہنگا ہے ہندوستان میں
کچھ تو چمچے لے گئے ہیں ان کی مالش کے لیے
اور باقی ڈال کر بیٹھے ہیں نیتا کان میں
زبیر الحن غافلؔ نے ماہیے بھی تخلیق کیے ہیں۔ جو ان کی ذہنی فکرو نظر کو
پیش کرتا ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کے ذریعہ ماہیے کی
دنیا آباد کی ہے۔ ان کے تمام ماہئے لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
برگد کی چھاؤں میں
جھول گئی گوری
ساجن کی بانہوں میں
۔۔۔ ۔۔۔
یہ کھیل ہے سانسوں کا
جیون اک سپنا
یا جاگتی آنکھوں کا
۔۔۔۔۔
مسجد کی اذانوں میں
وحدت کا نغمہ
زبیرالحسن غافلؔ نے اپنی تمام غزلیہ شاعری کے ذریعہ عوام کو صرف ہنسانے اور
قہقہہ لگانے تک ہی محدود نہیں کیا ہے بلکہ اپنی تمام غزلیہ شاعری کے ذریعہ
لوگوں کو غور و فکر کرنے کے لیے بھی مجبور کیا ہے۔ انھوں نے زندگی میں ہو
رہی نَت نئی تبدیلی کی آہٹ کو محسوس کیا ہے اور انھیں نے اپنی فکریات
وخیالات اور تجربات و مشاہدات کو شعری پیکر میں ڈھال کر ہمارے قارئین اور
سامعین کے سامنے پیش کیا ہے۔ جس میں زندگی ہے، توانائی، اسعت اور بلندی ہے۔
جو ہمیں سلاتی نہیں ہے بلکہ جھکجھورتی بھی ہے اور بیدار بھی کرتی ہے۔ غافلؔ
کی غزلیہ شاعری کے چند اشعار خاطر نشیں ہوں:
قاتلوں کے شہر میں جائے گا وہ اس شان سے
خود ہی نیزے پہ سجا کے اپنا سر لے جائے گا
کچلا ہے اس وقت کو پہیوں نے اس طرح
آئینہ دیکھتے ہی اچانک وہ ڈر جائے گا
زرد پتّے بھی تھے رونقِ گلستاں
باد صر صر انھیں کیوں اُڑا لے گئی
زمانہ کروٹ بدل رہا ہے مزاج بھی عاشقی کا بدلا
تیری جبیں کے شکن نہ بدلے نہ تیرے ابرو کے بل گئے
گھروں سے اپنے جو نکلے تھے صبح میں یارو
بہت ہی کم تھے جو ان میں سے لوٹ کر آئے
روند ڈالے نہ کہیں انسان اسے
آسمان کو اور کچھ اونچا کرو
مجھ کو مفلس مت سمجھئے پاس میرے کیا نہیں
درد کی دولت نہیں کہ غم کا سرمایہ نہیں
دیواروں پہ جب بھی کچھ لکھا نظر آتا ہے
ہر شخص یہاں یارو سہما نظر آتا ہے
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ زبیرالحسن غافلؔ نے اپنے شعری آئینہ خانے میں
زندگی کے نت نئے تجربات اور مشاہدات اور زندگی کی رنگا رنگی کو شعری پیکر
میں ڈھال کر بڑی خوش اسلوبی اور ہنرمندی کے ساتھ قارئین اور سامعین کے
سامنے پیش کیا ہے۔ ان کے شعری آئینہ خانے میں طنزو مزاح کی چاشنی اور
سنجیدہ و فکر کی آمیزش بھی ہے۔مختصر یہ کہ ان کے تمام غزلیہ اور نظمیہ
اشعار اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں معنویت واہمیت کے حامل ہیں۔ |