الوداع سردار عاطف مزاری آپ بہت خوبصورت, ملنسار اور
پیارے دوست تھے جو اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں گولی لگنے سے موت کی وادی میں
جاسوئے عاطف مزاری یاروں کا یار تھا اور دشمنوں کو بھی دوست بنانے کی مہارت
رکھتا تھا کسی کے گھر جاکر حملہ کرنے کو بہت برا سمجھتے تھے مگر اپنے ہی
گھر میں اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوگئے سردار عاطف مزاری 18 فروری 1972 کو
روجھان میں پیدا ہوئے انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اسکے بعد سیاست کے
میدان میں قدم رکھ دیا ان سے ملنے کے بعد اندازہ ہوتا تھا کہ عاطف اعلی
تعلیم یافتہ ہے لہجہ انتہائی شائستہ اور انداز بیان دل پر اثر کرنے والا
تھا وہ ترقی پسند سیاسی ذہن کے مالک تھے وہ اپنے دوستوں کو اپنے خرچہ پر
ویگن میں بٹھاتا اور پھر سیون شریف لعل شہباز قلندر جا پہنچتا اکثر ویگن
بھی خود چلالیا کرتا دوستوں کو لیکر جانے سے واپسی تک کا سارا خرچہ خود ہی
برداشت کرتا تھا لاہور سے دوستوں کو بلوا کرانکی خوب خاطر مدارت کرتا رات
کو محفل جمتی اور پھر خوب رنگ جمتا عاطف بلوچ کی سیاسی زندگی اور اس سے
پہلے کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا غصہ کرنے میں انکا کوئی ثانی نہیں
تھا مگر جیسے ہی میدان سیاست میں قدم رکھا اپنے آپ کو یکسر تبدیل کرلیا اگر
کسی نے بدتمیزی بھی کردی تو اسے پیار سے گلے لگایا ہر کسی کی سنتے اور جس
حد تک ہوتا اسکی مدد بھی کرتے عاطف مزاری نے 2009 کے ضمنی الیکشن میں PP250
سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور آزاد امیدوار زاہد خان
مزاری کو شکست دی اس الیکشن میں عاطف مزاری نے 31209 ووٹ لیے اور ان چار
سال میں انہوں نے بہت سے ترقیاتی کام کرواکر علاقے میں مقبولیت بڑھائی۔
2013 کے عام انتخابات میں پھر سے PP250 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر حصہ لیا
اور جیت گئے اور انہیں فارمل ایجوکیشن کا پارلیمانی سیکریٹری بنایادیا گیا
سردار عاطف مزاری سادہ منش ، روایتی پاس لحاظ اور علاقائی رسم و رواج سے ہم
آہنگ انسان تھے۔ ان پر جرائم پیشہ افراد سے تعلقات اور غیر قانونی قبضوں کے
الزامات لگتے رہے لیکن جب چھوٹو گینگ کا معاملہ اٹھا تو وہ واحد سیاست دان
تھے جو ان ڈاکوؤں کے گروہوں سے لڑنے اپنے مسلح ساتھیوں سمیت کچے کے علاقہ
میں پولیس کے ساتھ لڑنے نکلے تھے وہ وعدے کا پاس رکھنے والے ، دلیر اور
جرآت مند شخص کے طور پر جانے جاتے تھے انہوں نے اپنے قد اور احترام میں اس
وقت بہت اضافہ کیا جب 2018 کے الیکشن میں ن لیگ کا ناطقہ بند تھا اور لوگ
راتوں رات پارٹی چھوڑ کر طعن و طشنیع کا شکار تھے راجن پور کے واحد
سیاستدان تھے جنہوں نے پارٹی سے وفا کی اور لوگوں کی نظر میں ان کی اس جرات
کو خوب سراہا گیا اور میاں شہباز شریف ان کی الیکشن کمپین کے لیے راجن پو
رجا پہنچے مگر اس الیکشن میں انہوں نے کامیابی تو حاصل نہ کی لیکن عوام میں
اپنی مقبولیت بڑھا لی اسی دوران وہ عمرہ پر تشریف لے گئے اور واپس آ کرتمام
برے کاموں سے توبہ تائب ہو کر دینی زندگی اور فلاح انسانیت پر کام شروع
کردیا اپنے علاقہ کی ایک مسجد میں کبھی کبھار امامت بھی کرواتے تھے ہر کسی
کی خوشی غمی میں شریک ہونا عاطف مزاری کا محبوب مشغلہ بن گیا جنازے کو
کندھا دینا اور لواحقین کی ہر ممکن مدد کرنا وہ اپنا فرض عین سمجھتے تھے ان
پر ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کبھی بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم
سینکڑوں کلو میٹر دور بیٹھے ہر بار ایسے ہی لگتا تھا جیسے ہم ایک ہی میز کے
آر پار بیٹھے گپیں لگا رہے ہیں ان سے باتیں کرتے ہوئے وقت کتنی تیزی سے
گذرتا اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوتاجب فون بند کرنے کے بعد آنے والی مس
کالز کو چیک کرتا عاطف کے پاس تو فون کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا تھا
مگر اس انسان نے کبھی مجھے ہولڈ کروایا اور نہ ہی فون بند کیا جس بھی موضوع
پر بات شروع کرتے اسے مکمل کرنے کے بعد ہی دوسری بات کی طرف آتے مجھے
سرائیکی ویسب کے حوالہ سے جب بھی کوئی معلومات چاہیے ہوتی یا کوئی کام ہوتا
تو میں صرف عاطف سے ہی بات کرتا نہ جانے مجھے اس پر اندھا اعتماد کیوں تھا
مجھے اس سے بات کرکے اطمینان سا محسوس ہوتا تھا اور یقین ہوتا تھا کہ جو
معلومات یا باتیں ان سے ہوئی ہیں وہ کسی اور تک نہیں پہنچیں گی اور جو کچھ
انہوں نے مجھے بتایا ہے وہ بھی سو فیصد درست ہوگا مہمان اور بلخصوص مہمان
دوست کو وہ پلکوں پر بٹھالیتے تھے ایسا ہیرا تھا جسے ایک بار ملنے کے بعد
بار بار ملنے کو دل کرتا رہتا ان سے دل کی باتیں کرنے کے بعد کبھی بھی
احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ یہ باتیں آگے کسی کو بتا دینگے آنکھیں بند کرکے
انکی شخصیت پر اعتبار کیا جاسکتا تھااگر کسی جگہ انہیں تقریر کرنے کا موقعہ
مل جاتا تو وہ بلکل سیدھے سادھے انداز میں باتیں کرتا سننے والا محظوظ بھی
ہوتا سمجھ بھی جاتا اور دل ودماغ پراسکی باتوں کو محسوس بھی کرتا تھاانکی
ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ جب بھی کسی سے ملتے یا بات کرتے تو اگلا بندہ
یہی محسوس کرتا تھا کہ سب سے زیادہ توجہ اور پیار عاطف مجھے ہی کررہا
20افراد بھی سامنے ہوتے تو وہ سب کے سب یہی سمجھتے کہ عاطف سب سے زیادہ اسے
ہی توجہ دے رہا یاد داشت بھی اسکی کمال کی تھی ایک جسے مل لیا مدتوں بعد
بھی دوبارہ ملے تو پہلی ملاقات کا حال یاد ہوتا ان کا ایک ذہنی معذور
بیٹاعبدالباسط مزاری جس کا علاج بھی چل رہا تھا نے اس وقت اچانک آ کر ان کو
گولی ماری جب ان کے روحانی مرشد اور ان کے بیٹے ان کے ہاں کھانا کھا رہے
تھے کلاشنکوف کے برسٹ سے ان کا سینہ چاک ہوا انہیں ہسپتال لایا گیامگر وہ
اپنے خالق حقیقی سے مل چکے تھے عاطف مزاری نے اپنے اسی بیٹے کی شادی کرنے
کی کوشش بھی کی مگر عین موقعہ پر انکے بیٹے نے انکار کردیا سردار عاطف
مزاری کی اچھائی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ پورا روجھان شہر ان کے سوگ
میں بند تھا لوگوں کو دھاڑیں مار مار کر بین کرتے رہے حتی کہ ان سے غیر
وابستہ افراد بھی ان کے یوں چلے جانے پر غمگین نظر آئے میں ر اجن پور کے اس
نقصان پر ورثاء سے تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ اہل خانہ کے لیئے صبر عظیم کی
دعا کو خواستگار اور سردار مرحوم کی بخشش کیلیئے تہہ دل سے دعا گو ہوں ۔ |