قرآن مجید کلام اللہ ہے۔بنی نوع انسان کے لئے خالق
کائنات کا آخری سرچشمہ ہدایت اپنے صوتی اعجاز وجمال کے اعتبار سے بھی ایک
نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہے۔یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کی تلاوت خشیت الٰہی
اور سوزدروں، قلبی سرور کا باعث اور ذوق سماعت کے لئے جمال آفریں ہے۔
قرآن مجید جلال وجمال کا عدیم النظیر اِمتزاج ہے۔ خداوندقدوس نے انسانوں
کے حواسِ خمسہ کے لئے مختلف لذات اور نعمتوں کوپیدا کیا ہے۔ ایک مسلمان کے
لئے قرآن مجید میں حواسِ خمسہ کی تسکین و طمانیت اور روحانی الطاف کا بے
بہا خزانہ موجود ہے۔ اس کو چھونے سے عجب تنزیہی اثرات و محسوسات سے واسطہ
پڑتا ہے۔
سورۂ زُمَر اس آیت ’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ‘‘ اوراس آیت ’’ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ‘‘ کے
علاوہ مکیہ ہے۔ (خازن، تفسیر سورۃ الزمر، ۴/۴۸)۔ اس سورت میں 8رکوع،
75آیتیں ،1172 کلمے اور 4908 حروف ہیں ۔( خازن، تفسیر سورۃ الزمر، ۴/۴۸)
وجہ تسمیہ:
زُمَر کا معنی ہے کئی گروہ اور کئی جماعتیں ،اور اس سورت کی آیت نمبر71میں
کفار کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکنے اور آیت نمبر73میں اپنے رب
عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلائے جانے کا ذکر
ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام’’ سورۂ زُمَر‘‘ رکھا گیا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : حضور پُر نور
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (اتنے تسلسل سے) روزہ
رکھتے حتّٰی کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ افطار نہیں فرمائیں گے اور کبھی
روزہ نہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے اور
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر رات سورۂ بنی
اسرائیل اور سورۂ زُمَر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( مسند امام احمد، مسند
السیّدۃ عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۹/۴۳۷، الحدیث: ۲۴۹۶۲)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی
وحدانیّت پر دلائل ذکر کئے گئے ہیں۔ اور قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کی وحی
ہونا بتایاگیا ہے اور اس میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ۔
(1) …اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور
اطاعت کرتے رہنے کا حکم دیا اور یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی
مشابہت سے پاک ہے اور مشرکین کے ان شُبہات کو زائل فرمایا ہے جن کی وجہ سے
وہ بتوں کو معبود اور شفاعت کرنے والا مانتے تھے اور ان کی عبادت کو اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتے تھے۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر زمین و آسمان کی تخلیق،رات اور دن کے
آنے جانے،سورج اور چاند کے مُسَخَّر ہونے اور مختلف مراحل میں انسان کی
تخلیق سے اِستدلال فرمایا گیا اور کفار کی اس عادت پر ان کی مذمت بیا ن کی
گئی کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کی
بارگاہ میں گریہ و زاری کرنے لگ جاتے ہیں اور جب انہیں آسانی ملتی ہے تو
وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ۔
(3) … مسلمانوں اور کفار کے مابین فرق بیان کیاگیا کہ مسلمان دنیا اور
آخرت دونوں میں سعادت مند ہوں گے اور کفار دونوں جہان میں بدبخت رہیں گے
اور عذاب دیکھ کر تمنا کریں کہ کاش فدیہ دے کر وہ اس عذاب سے بچ جائیں ۔
(4) …قرآنِ پاک کی عظمت و شان بیان کی گئی کہ جب مسلمان اس کی آیتیں سنتے
ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے دل
نرم پڑ جاتے ہیں جبکہ ا س کے برعکس اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے دلائل سن کر
کفار کے دل مزید سخت ہو جاتے ہیں ۔
(5) …گناہگاروں کو تسلی دی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں
اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
(6) … اس سورت کے آخر میں قیامت کے اَحوال بیان کئے گئے اور کافروں اور
مسلمانوں کی جزاء بیان کی گئی ۔
قارئین:
قرآن مجید چونکہ کلام الٰہی ہے اسی لئے یہ ایک فطری امرہے کہ اس کا الوہی
جلال اس کے صوتی جمال پر غالب ہے۔ مگر جس طرح خوف خدا ایک مومن کو حب الٰہی
سے باز نہیں رکھتابلکہ اہل تقویٰ ہی درحقیقت اللہ تعالیٰ سے حقیقی محبت
کرنے والے ہوتے ہیں، اسی طرح قرآن مجید کے جاہ و جلال سے مسحور و مرعوب
قلوب ہی اس کے صوتی اعجاز و جمال سے کماحقہ روحانی لطف حاصل کرسکتے
ہیں۔اللہ ہمیں فیضان قرآن سے بہرہ مند فرمائے ۔آمین
نوٹ:آئیں مل کر شعور و آگاہی کے لیے اپنے حصے کی کوشش کریں تلاش کریں رب
کے فضل کو اور پائیں دنیا و آخرت کی بھلائی کا خزانہ ۔آپ ہمارے پیارے ہیں
۔ہم سے کسی بھی مشاورت اور ذہنی تناو و اضطراب یا پھر مستقبل کی پیش بندی
کے لیے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ہمارا عزم آپ کی خدمت ۔۔ |