دل اور دماغ پر وائرس اور اسکے اثرات کا غلبہ ہے۔ترقی
یافتہ اور مالدار ممالک کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے سامنے خود
کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔ لوگ گھروں میں قید ہو کر نفسیاتی مریض بنتے جا
رہے ہیں۔ کاروبار زندگی تقریباً ٹھپ ہو چکا ہے۔ بازار اور گلیاں سنسان۔
دفاتر اور فیکٹریاں ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہر طرف گھبراہت اور خوف
کا غلبہ ہے۔ ایک ہی چھت تلے ایک ہی خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے اجنبی ہوتے
جارہے ہیں۔ ہماری سقافتی، تمدنی اور مذہبی اقدار پر کورونا نا ایسا کاری
وار کیا ہے کہ بچے، بزرگ، ماں باپ، وزیز و اقارب دوست ملنے سے اجتناب کر
رہے ہیں اور محبتیں اور نفرتیں بھی اپنے اصول بدلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اوقات کار تبدیل ہو چکے ہیں گویا کہ
ہر چیز تلپت ھو چکی ہے مگر ہم ہیں کی اپنی ریشہ داوانیوں چھوڑنے پر راضی
نہیں ہیں۔جب ہم خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو بھی لوگوں سے خالی دیکھتے ہیں
اور خانہ کعبہ میں بھی ظواف کو موقوف دیکھتے ہیں تو فطرت کی ستم ظریفیاں
ہمیں فطرت کا پتہ دیتی ہیں۔ کہیں جبری پابندیاں اور کہیں رضاکارانہ طور پر
جبر سے موافقت جو بھی ہیسب کچھ دل کو دہلا کر رکھ رہا ہے۔ بے کسی اور
مجبوری کے ڈیرے ہیں۔صبر کے سوا چارہ نہیں۔ فطرت نے سب کو زیر نگیں کر لیا
بچے گا وہی جس نے آنے والے وقت کیلئے سامان کر رکھا ہے۔ وہ قومیں تباہ ھو
جایا کرتی ہیں جو غافل ہوتی ہیں اور دولت کے نشے میں مخمور خواب خرگوش کے
مزے لے رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کورونا وائرس کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی
اثرات تیزی سے افراد اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔اس وقت نہ صرف
پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی تمام تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن
پاکستان کے علاوہ دوسرے تمام ممالک میں تعلیمی سلسلہ غائب نہیں ہوا بلکہ آن
لائن کلاسز کے اجرا کے ذریعہ استاد اور طالب علم کے درمیان تعلق برقرار ہے
جب کہ پاکستان جہاں پہلے ہی شرح خواندگی نہایت کم ہے، کرونا نے اس کے
تعلیمی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور تعلیم کی یہ تباہی جس سے ہم
ہمکنار ہو رہے ہیں ہماری اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔ جو قومیں خود کو تعلیم سے
دور رکھتی ہیں وہ ترقی کی منازل طے نہیں کیا کرتیں وہ معمولی سی لغزش اور
قدرتی ٖافات کا شکار ہو کر مٹ جایا کرتی ہیں۔ فطرت انہیں کی دوست ہوا کرتی
ہے جو قومیں سوچ بچار اور آفات سے لڑنے کیلئے تیاری کیا کرتی ہیں۔ قانون
قدرت کسی کو معاف نہیں کیاکرتا اسکے یہاں غفلت اور سستی کی سزا موت ہوا
کرتی ہے۔
ایسے نامساعد حالات میں جب دور دور تک اسکول کھلنے کی کوئی صورت دکھائی نہ
دے تو مایوس انسان یہی فیصلہ کرے گا کہ وقت کا انتظار کیا جائے وقت کسی کا
انتظار نہین کیا کرتا وہ چیزوں کو کھدیڑتا ہوا آگے کی جانب گزر جاتا ہے اور
سست اور نکمی قومیں پیچھے بچ جاے والی بچی کھچی چیزوں سے گزر بسر کیا کرتی
ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو کرونا اور لاک ڈاؤن نے پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کو بہت
نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں گورنمنٹ اسکول ٹیچرز کو گھر بیٹھے تنخواہ مل رہی ہے۔
وہاں پرائیویٹ ادارے بد حالی کا شکار ہو رہے ہیں۔اسکول بند ہیں تو ٹیوشن
سینٹرز بھی بند ہیں۔ وہ لوگ جن کا ذریعہ معاش محض ٹیوشن پر منحصر تھا۔ اس
وقت معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ جب کہ تعلیم ایک ایسی تجارت رہی جس نے ہر
دور میں لاکھوں انسانوں کو باعزت روزگار فراہم کیا لیکن یہ وقت ہر استاد کے
لئے لمحہ فکریہ یوں ہے کہ اس وقت چار ماہ سے جو شعبہ مکمل طور پر بند ہے۔
وہ اسکول اور کالجوں کا تعلیمی شعبے ہیں، جس کے مزید کئی ماہ تک کھلنے کے
کوئی امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ ایسے میں پرائیویٹ اسکول
تقریباً ختم ہوجائیں گے اور بے روزگار استاد معاشی بد حالی سے تنگ آ کر
کوئی دوسرا پیشہ اپنانے پر مجبور ہوجائیں گے اور تعلیم تقریباً نا پید ہو
جائیگی۔
کرونا سے پیدا شدہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا پہلا احساس تو خلا سے زمینی
تصاویر میں نظر آنا شروع ہوا اور جیسے جیسے بیماری اور لاک ڈاؤن بڑھتا گیا
ویسے ہی آسمان کی نیلاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا، انسان نے پھیپھڑوں میں اس کو
آلودگی سے پاک اوکسیجن کی صورت محسوس کیا، آنکھوں نے اپنے اطراف تیزی سے
بڑھتے سبزے اور کانوں نے پرندوں کی آسودگی دیتی چہچہاہٹ اور انسان کی پیدا
کردہ آوازوں کی خاموشی کو محسوس کیا۔ کسی بھی ماہر معاشیات کے بس میں نہیں
کہ انسانی تاریخ کے اس سب سے بڑے اور خطرناک بحران کا مقابلہ کرے۔ کورونا
وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کا سب سے زیادہ اثر ان غریب ملکوں کو
برداشت کرنا پڑے گا جن کے وسائل کم اور آبادیاں زیادہ ہیں۔ یہ ممالک کثیر
غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے بھی دبے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی
ممالک میں ہوتا ہے۔ کرونا ایک وارننگ ہے۔ اب یہ ہم موقوف ہے کہ کوئی لائحہ
عمل بناتے ہیں یا پھر دوسروں کے در پر کتوں کیطرح پڑے رہ کر اپنہ زندگی
انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گرارتے ہیں۔ |