بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضرت مولاناابوالبیان حماّد مد ظلہ العالی کے مجموعہ کلام”نغمات حمد و
نعت“ کے تعارف کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈالتے ہوئے،شاید یہ بات پیش
نظر ہو کہ بحیثیت ناشر اس کے معرضِ وجود میں آنے کی ایک حقیقت پسندانہ
روداد میں سامعین کے گوش گزار کر سکوں گا۔لیکن جن احباب نے کتاب دیکھی
ہے، انہوں نے عرضِ ناشر کے تحت لکھے گئے میرے مضمون بعنوان ”دعوتِ
اسلامی : پیراہنِ شعر میں“ سے یہ اندازہ ضرور لگایا ہوگا کہ میں نے
وہاں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔اب میں جو کچھ بھی عرض کروں گا وہ ایک
طرح سے رسم کی ادائیگی ہی ہو۔ اس لیے میں سامعین سے ملتمس ہوں کہ وہ
کتاب کے مطالعے کے دوران میرے اس مضمون کو دیکھنا نہ بھولیں ،
انشاءاللہ ، آپ محسوس کریں گے کہ گزشتہ تین رُبع صدیوں کے دوران مولانا
کا جو مقام میں نے متعین کیا ہے وہ کس قدر حیرت انگیز ہے اور کیسی عظیم
شخصیت ہمارے سروں پر آج بھی سایہ فگن ہے۔
جب کسی کتاب کے تعارف کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو چار و ناچار صاحبِ
کتاب کو بھی موضوع بحث بنانا پڑتا ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کسی کتاب کے
تعارف کا حق اُسی وقت ادا ہوگا جب صاحب کتاب کی شخصیت کا تعارف بھی
شامل کیا جائے۔پھر ایک ایسی شخصیت جس کی خدمات پچہتر سال کے ایک طویل
عرصے پر پھیلی ہوئی ہوں،اُس کے تعارف کا معاملہ سورج کو چراغ دکھانے کے
مترادف ہوگا۔آپ خود یہ بتائیں کہ کیا میں آپ سے یہ کہنے لگ جاﺅں کہ
حضرت مولانا حماد کون ہیں، کہاں پیدا ہوئے ، کہاں تعلیم حاصل کی، کہاں
مصروفِ کار ہیں؟ وغیرہ ، وغیرہ۔ یہ تو وہی بات ہوئی جیسے کوئی سورج کا
تعارف کرانے کو کھڑا ہوجائے کہ دیکھو یہ آسمان ہے، اس پر جو آگ کا گولہ
نظر آرہا ہے یہ سورج ہے، یہ دن کو نکلتا ہے تو چاروں طرف روشنی پھیل
جاتی ہے اور لوگ اس کی روشنی اور تپش سے اپنی زندگی اخذ کر تے ہیں،
وغیرہ وغیرہ ۔ آپ تو اس طرزِ گفتگو پر ضرور ہنسے گے۔ یہی کچھ معاملہ
حضرت مولانا کا بھی ہے۔ چنانچہ مولانا کے تعارف کے سلسلے میں میں صرف
اتنا کہنے پر اکتفاء کروں گا کہ جب کبھی کوئی مورخ عزیز بلگامی کے
تعارف کو قابلِ اعتناء سمجھے گا تو وہ ضرور یہ لکھے گا کہ یہ وہی عزیز
بلگامی ہیں جو قادر الکلام شاعر اور جید عالم دین حضرت مولانا ابولبیان
حماّد کے زمانے کے ایک طالب علم تھے۔یہ ہیں میرے احساسات حضرت مولانا
کے بارے میں۔
رہی ”نغماتِ حمد و نعت “ کی بات تو یہ وہ کتاب ہے جس کے ایک ایک لفظ کو
خود میں نے ڈی ٹی پی کیا ہے۔اس کی تزئین کاری کے ایک ایک نقش کی میں نے
صورت گری کی ہے۔ اس کے شعر پڑھتے ہوئے میں نے اپنی پلکوں کو بھیگتے
ہوئے محسوس کیا ہے۔یہ سعادت کی بات ہے فخر کی نہیں۔ مولانا اگر چاہتے
تو اس کی طباعت سعودی عرب کے کسی مشہور پریس سے کروا سکتے تھے، جس کے
وسائل بدرجہ اتم ان کے پاس موجود ہیں۔لیکن اُن کی متانت و سادگی نے
گوارا نہیں کیا۔ مجھ سے تعلقِ خاطر کا اِسے کمال ہی کہیے کہ انہوں نے
مجھ پر اعتماد کیا اور نہ صرف ایک بلکہ تین کتابوں کی ذمہ داری میرے
سپرد کی اور اب عنقریب ان کی غزلوں اور نظموں کے دو مجموعے بھی بہت جلد
زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ یا چاہتے ہیں۔ان کتابوں کی
تیاری و تزئین کے لیے حضرتِ موصوف کی نظرِ کرم آج بھی احقر پر ہی مرکوز
ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حمد و نعت مذہبی شاعری ہے جہاں عقیدتیں، فنکاری
کی راہ کا روڑا بن جاتی ہیں۔ممکن ہے کسی درجے میں اور بعض اصحاب ِ سخن
کے سلسلے میں اس دعویٰ میں کچھ صداقت نظر آ جائے۔لیکن حضرتِ حماد کو اس
زمرے میں کبھی نہیں شامل کر سکتے۔ اس لیے کہ اُن کے شعروں میں عقیدت و
فنکاری ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے محوِ سفر رہتے ہیں بعض شعر تو ایسے ہیں
کہ بس ان ہی کا حصہ ہیں۔یہ شعر بادل اور بارش کے باہمی تعلق کے حوالے
سے ملاحظہ کیا جائے کہ کس فنکاری کے ساتھ شاعر موصوف نے انہیں برتا ہے۔
کسی وقت رحمت کے بادل جو چھائے------------- مدینہ کی بارش بھی ہم دیکھ
آئے
فنکاری کے پورے جوہر دکھاتا ہوا یہ شعر:
پھر وہ یاد آئے کہ بھولا نہیں کہتے اس کو------------ صبح کا بھولا جو
واپس سرِ شام آتا ہے
ان شعروں کی شعریت کی دل کھول کر داد دیجیے:
ذراتِ بھی مدینے کے شذراتِ سیم و زر
میری نگاہ شوق میں ہیروں سے کم نہیں
خس پوش تھے اگرچہ بیوتِ نبی تمام
پھر بھی یہ واقعہ ہے کہ محلوں سے کم نہیں
قارئیں کتاب کا مطالعہ فرمائیں،اور خود دیکھیں کہ مولانا نے دینی شاعری
کو کس طرح فنِ شعر کی پاسداری کے ساتھ تخلیق کیا ہے، جو ان کی قادر
الکلامی کا ثبوت ہے۔ ”نغماتِ حمد و نعت“کے کچھ وہ شعر جو میری پلکوں کو
بھگونے کا باعث بنے ،انہیں نقل کرناضروری سمجھتا ہوں:
ہو گیا تازہ اگر ہجرِ نبی کا زخم کچھ ------------میں دلِ مضطر کو، دل
بھی مجھ کو سمجھاتا رہا
یاد آگئے بے ساختہ سرکارِ دوعالم------------ آیا جو کوئی درد کا مارا
مرے آگے
ضرورت ہے ہم کو کسی اہلِ دل کی ------------جو تڑپائے تڑپے، جو روئے
رُلائے
کس شان سے رہی ہے کبھی بزم دہر میں ------------کس حال میں ہے آج یہ
اُمت رسول کی
مجھے بلائیں گے دربارِ خاص میں بھی ضرور------------ بروزِ حشر وہ
فیضانِ لطف عام کے بعد
یہ اور ایسے شعر آپ کو” نعمات ِ حمد و نعت“ میں جا بجا ملیں گے اور آپ
کے جذبہ عشق رسول کو جلا بخشتے نظر آئیں گے۔بہر کیف یہ چند کلمات تعارف
بطور تبرک ہیں ورنہ میں نے اپنے مذکورہ مضمون میں اپنے احساسات کا
تفصیلی اظہاری کیا ہے۔
میں اپنے ان تعارفی کلمات کو ادارہ ماہنامہ ذکریٰ جدید ، رام پور ،
یوپی کے ان الفاظ پر ختم کر رہا ہوں: ”اس مجموعہ میں شامل حمد و نعت
توحید و رسالت کے تعلق سے صحیح اور متوازن طرزِ فکر کی غماز ہیں۔ اصلاح
قم و ملت اور غلبہ دین متین کی کوششوں اور جدوجہد میں ان کی بڑی
قربانیاں رہیں ہیں، ان کا یہ مجموعہ جہاں ان کے اخلاص و للّٰہیت اور
جذبہ صادق کا پتہ دیتا ہے وہیں زبان و ادب کے تعلق سے ان کی فکر رسا کا
مظہر بھی ہے۔۔۔۔۔بعض اہلِ قلم نے ان کو الطاف حسین حالی، ماہر القادری،
عامر عثمانی اور فضا ابن فیضی وغیر ہم کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔جس طرح
خود ان کی زندگی سادگی ومتانت اور خلوص و تقویٰ کی منہ بولتی تصویر ہے
اسی طرح ان کی شاعری بھی ان تمام اوصافِ حمیدہ کی امین و پاسدار ہے۔“ |