اَرمغانِ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تعالیٰ - قسط۱

حجة الاسلام ،سرآمد علمائے محققین ،حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے خاندان کے شجرہ طوبیٰ کی ایک شاخ ہیں۔شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے نامور پوتے، شاہ عبدالغنی صاحبؒ کے یگانہ روزگار فرزند،شاہ عبدالعزیز صاحبؒ و شاہ عبدالقادر صاحبؒ و شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے محبوب و عزیز بھتیجے اور مایہ ناز شاگرد تھے۔مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ اِسلام کے اُن اولوالعزم ،عالی ہمت ،ذکی ،جری اور غیر معمولی اَفراد میں ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔آپ نے ایک مثالی مجمع علم واَخلاق گھرانے میں آنکھ کھولی۔بچپن سے ہی کانوں میں ”قال اللہ جل وعلااور قال الرسول ﷺ“کی معطراور ایمان افروز آواز نے گھر کر لیا۔بہترین علمی وادبی ماحول میں تربیت ہوئی اور آپ اپنے فطری اوصاف وکمالات کے سبب شاہ ولی اللہ صاحب کے خاندان میں بہت جلد ممتاز ہوگئے۔اس وقت اعلیٰ تعلیم جو کسی کو میسر آسکتی تھی آپ نے حاصل کی ،ہندوستان کے فاضل ترین اساتذہ جن کے پاس سمرقند وبخارا ،ایران و افغانستان کے طلبہ سخت محنت مشقت برداشت کرکے تحصیل علم کیلیے حاضر ہوتے اور ایک سبق پڑھ لینا حاصل سفر سمجھتے ،آپ کے گھر ہی کے تھے اور کون تھے؟باپ ،یا باپ سے بڑھ کر شفیق چچا جن کی تعلیم وتربیت نے آپ کو کندن بنا دیا۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے تحریر فرمایا ہے: ”آپ مجتہدانہ دماغ کے آدمی تھے،اور اس میں ذرا مبالغہ نہیں کہ بہت سی درسی کتابوں کے مصنفین وشرّاح سے زیادہ ذکاوت اور علمی مناسبت رکھتے تھے ۔اگر آپ کو اشتغال (علمی) اور تصنیف وتالیف ودرس وتدریس کا موقع ملتا تو آپ اپنے بہت سے پیش رو اور معاصر علماء سے آگے ہوتے اور بہت سے فنون میں امام یا مجدد کا منصب آپ کو دیا جاتا۔“

حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید کاعلم وتحقیق اور معارف وحقائق میں کتنا بلند پایہ تھا؟ اس کا سب سے بہترین جواب آپ کی وہ تصانیف ہیں جو آپ کے فضل وکمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں حالانکہ یہ تصانیف وتحریرات ہنگامی ہیں ۔آپ کو دعوت وجہاد کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس موضوع پر مستقل کام کرنے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔سطور ذیل میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کے علمی مقام رفیع کو خود ان کی اپنی تحریرات کے آئینے میں اجاگر کیا جارہا ہے تا کہ آپ کے علوم وکمالات کا اصل رُخ خود آپ کی تصانیف وتحریرات سے عیاں ہوجائے اور مختلف موضوعات پر آپ کا مسلک و مزاج خود آپ کی تحریرات سے عیاں ہوجائے ۔یہ تما م علمی وتحقیقی تحریرات حضرت شہید کی تین کتب”تقویة الایمان، مطبوعہ مجلس نشریات اسلام کراچی ۔ منصبِ امامت ،مطبوعہ طیب پبلشرز لاہور اور عبقات، مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور“سے ماخوذ ومنتخب ہیں، اور قارئین کے لیے علمی سوغات کے طور پر پیش خدمت ہیں ۔اسی لیے اس تحریر کا عنوان ”اَرمغانِ شاہ اسماعیل شہید“ مقرر کیا گیا ۔یاد رہے کہ ان تحریرات میں جو عبارت قوسین کے درمیان ہے وہ توضیح وتسہیل کے لیے ہماری طرف سے اضافہ کردہ ہے ۔

واللہ ولی التوفیق وبیدہ الخیر

(حمدِ باری تعالی ودرودِ مصطفی ﷺ): ”الہیٰ!ہزار ہزار شکر تیری ذات پاک کو،کہ ہم کوتم نے ہزاروں نعمتیں دیں،اور اپنا سچا دین بتایا، اور سیدھی راہ چلایا،اور اصل توحید سکھائی ،اور اپنے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت میں بنایا ،اور اُن کی راہ سیکھنے کا شوق دیا ، اور اُن کے نائبوں کی ،کہ جو اُن (حبیب محمد رسول اللہ ﷺ)کی راہ بتاتے ہیں ،اور اُن (حبیب محمد رسول اللہ ﷺ)کے طریقہ پر چلاتے ہیں ،اور(الہیٰ!ہزار ہزار شکر تیری ذات پاک کو،کہ ہم کوتم نے)اُن کی محبت دی۔

سو اے ہمارے پروردگار!تو اپنے حبیب پر اور اس کے آل واصحاب پر اور اس کے سب نائبوں پر ہزار ہزار درود وسلام بھیج اوراُس کی پیروی کرنے والوں کو رحمت کر(رحمت نصیب فرما)اور ہم کو اُن میں (نبی ﷺ کی پیروی کرنے والوں میں) شریک کر اور ہم کو اسی راہ پر جیتے اور موئے (زندہ اور مردہ)قائم رکھ اور اُسی کے تابعوں میں گِن رکھ۔آمین یا رب العالمین۔(خطبہ تقویة الایمان،ص۹۱)

(بعثت محمدی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے):

”اللہ تعالی نے سورہ جمعہ میں فرمایا ہے:

ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین(جمعہ۳)

”اور اللہ اکیلا ہے کہ جس نے کھڑا کیا نادانوں میں ایک رسول ،اُن میں سے کہ پڑھتا ہے اُن پر آیتیں اُس کی اور پاک کرتا ہے اُن کو اور سکھاتا ہے اُن کو کتاب اور عقل کی باتیں اور بیشک تھے وہ پہلے سے گمراہی صریح میں“۔

ف:یعنی یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ اس نے ایسارسول بھیجا کہ اس نے بے خبروں کو خبردار کیا اور ناپاکوں کو پاک ، اور جاہلوں کو عالم ،اور احمقوں کو عقل مند ، اور راہ بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ پر ۔سو جوکوئی یہ آیت سن کر پھر یہ کہنے لگے کہ پیغمبر کی بات سوائے عالموں کے کوئی سمجھ نہیں سکتا اور ان کی راہ پر سوائے بزرگوں کے کوئی چل نہیں سکتا ،سو اُس نے اس آیت کا انکار کیا اور اس نعمت کی قدر نہ سمجھی ،بلکہ یوں کہا جائے کہ جاہل لوگ اُن کا کلام سمجھ کر عالم ہوجاتے ہیں ،اور گمراہ لوگ ان کی راہ چل کر بزر گ بن جاتے ہیں “۔(تقویة الایمان ، ص۱۲)

(ہمارے پیغمبر ﷺ تمام انبیاءواولیا ءکے سردار ہیں):

”قال اللہ تعالیٰ:قل لااملک لنفسی نفعا ولاضرا، الا ماشاءاللہ، ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر ،وما مسنی السوء،ان انا الانذیر وبشیر لقوم یومنون۔(سورہ اَعراف ۸۸۱)

اور کہا اﷲ تعالیٰ نے یعنی سورہ اعراف میں:(اے محمدﷺ!) کہہ کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی جان کے کچھ نفع و نقصان کا، مگر جو کچھ کہ چاہے اﷲ، اور جو جانتا میں غیب ،تو بیشک بہت سی لے لیتا میں بھلائی، اور نہ چھوتی مجھ کو کچھ برائی ،میں تو فقط ڈرانے والا ہوں، اور خوشخبری سنانے والا ،اُن لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں۔

ف: یعنی سب انبیاء اولیاء کے سردار، پیغمبر خداﷺ تھے اور لوگوں نے اُنہیں کے بڑے بڑے معجزے دیکھے ،اُنہیں سے سب اَسرار (راز)کی باتیں سیکھیں، اور سب بزرگوں کو اُنہیں کی پیروی سے بزرگی حاصل ہوئی ۔ تو اسی لئے اُنہیں کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنا حال لوگوں کے آگے صاف بیان کر دیں۔ سب لوگوں کا حال معلوم ہو جاوے، سو اُنہیں نے بیان کر دیا کہ مجھ نہ کچھ قدرت ہے نہ کچھ غیب دانی،میری قدرت کا حال تو یہ ہے کہ اپنی جان تک کے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ،تو دوسرے کا کیا کر سکوں اور غیب دانی اگر میرے قابو میں ہوتی تو پہلے ہر کام کا اَنجام معلوم کر لیتا اور اگر بھلا معلوم ہوتا تو اس میں ہاتھ ڈالتا، اور اگر بُرا معلوم ہوتا تو کاہے کو اس میں قدم رکھتا۔ غرض کچھ قدرت اور غیب دانی مجھ میں نہیں ۔ اور کچھ خدائی کا دعویٰ نہیں رکھتا،فقط پیغمبری کا دعویٰ ہے اور پیغمبر کا اتنا ہی کام ہے کہ بُرے کام پر ڈراوے اور بھلے کام پر خوش خبری سنا دیوے،سو یہ بھی انہیں کو فائدہ کرتی ہے کہ جن کے دل میں یقین ہے اور دل میں یقین ڈال دینا میرا کام نہیں،وہ اﷲ ہی کے اختیار میں ہے“۔

(انبیاءو اولیا ءکی بڑائی ):

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاءو اولیا کو جو اﷲ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے ، سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ اﷲ کی راہ بتاتے ہیں اور برے بھلے کاموں سے واقف ہیں، سولوگوں کو سکھلاتے ہیں اور اﷲ اُن کے بتانے میں تاثیر دیتا ہے۔ بہت لوگ اس سے سیدھی راہ پر ہو جاتے ہیں ۔

(انبیاءواولیا ءمیں خدائی صفات ماننا اُن کی بڑائی نہیں):

اور اس بات کی ان میں کچھ بڑائی نہیں کہ اﷲ نے ان کو عالم میںتصرّف کرنے کی کچھ قدرت دی ہو کہ جس کو چاہیں مار ڈالیں، یا اولاد دیویں، یا مشکل کھول دیویں، یا مرادیں پوری کر دیں، یافتح و شکست دیویں،یا غنی و فقیر کر دیں، یا کسی کو بادشاہ کر دیویں یا کسی کو امیر وزیر ، یا کسی سے بادشاہت یا امارت چھین لیویں، یا کسی کے دل میں ایمان ڈال دیویں،یا کسی کا ایمان چھین لیویں، یا کسی بیمار کو تندرست کر دیویں، یا کسی سے تندرستی چھین لیویں، کہ اِن باتوں(خدائی صفات) میں سب بندے بڑے اور چھوٹے برابر ہیں، عاجز اور بے اختیار (یہ عجز اور بے اختیاری خدائی صفات کے حوالے سے ہے نہ کہ دیگر اوصاف وکمالات اس سے مراد ہیں)اور اسی طرح کچھ اس بات میں بھی ان کو بڑائی نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے غیب دانی ان کے اختیار میں دی ہو کہ جس کے دل کا اَحوال جب چاہیں معلوم کرلیں، یا جس غیب کا اَحوال جب چاہیں معلوم کر لیں کہ وہ جیتا ہے یا مر گیا، یا کس شہر میں ہے یا کس حال میں ہے یا جس آئندہ بات کو جب ارادہ کریں تو دریافت کر لیں کہ فلانے کے ہاں اولاد ہوگی یا اس سوداگری میں اس کو نفع ہو گایا نہ ہو گا، یا اس لڑائی میںفتح پاوے گا یا شکست کہ ان باتوں میں بھی سب بندے بڑے ہوںیا چھوٹے سب یکساں بے خبر ہیں اور نادان۔

(وحی اور اِلہام کااِعزاز):

سو جیسے سب لوگ کبھی کچھ بات عقل سے یا قرینہ سے کہہ دیتے ہیں پھر کبھی ان کی بات موافق پڑ جاتی ہے، اسی طرح یہ بڑے لوگ بھی جوبات عقل اورقرینہ سے کہتے ہیں سو اس میں کبھی درست ہوجاتی ہے کبھی چوک ، ہاں مگر جو اﷲ کی طرف سے وحی یا اِلہام ہو اس کی بات نرالی ہے، مگر وہ ان کے اختیار میں نہیں“۔(تقویة الایمان ،ص۷۵تا۹۵)
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343823 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.