آ ج سے دو سا ل قبل آ ج ہی کے دن عید سے دو دن پہلے
افطاری کے کچھ دیر بعد سارے اہل کشمیر اس انتظار میں تھے کہ عید کا چاند
نظر آیاکہ نہیں اسی دوران ایک خبر بجلی بن کر گری سری نگر شہر میں افطاری
کے لیے جانے والے معروف صحافی شجاعت بخاری کو شہید کر دیا گیااُسے مار دینا
چاہیے تھا ۔کیونکہ وہ سربلند کشمیر کا علمبردار جو تھا ۔میں شجاعت بخاری سے
کبھی نہ ملا تھا نہ ان کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات تھی لیکن شجاعت
بخاری نے جس طرح اپنے روزنامے کو سر بلند کشمیر اورانگریزی روزنامے کو
Rising Kashmirکے نام سے منظرعام پر لا رکھا تھا وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ
شجاعت بخاری میں کشمیریت بہت تھی شجاعت بخاری کی شہادت کی خبر کوئی نئی خبر
بھی نہ تھی اور نہ ہی کوئی انوکھی خبر تھی اس سے پہلے نا معلوم افراد کے
ہاتھوں سری نگر میں بابائے قوم محمد مقبول بٹ شہید کے بڑے بھائی غلام نبی
بٹ نامور صحافی شعبان وکیل قیصر مرزا،ڈاکٹر غلام قادر وانی، اور دھرتی کے
عظیم بیٹے جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے ہارٹ سپیشلسٹ عبدالاحد گرو ادریس خان
، میر واعظ قاضی نثا ر اور عبدالغنی لون جام شہادت نوش کر چکے تھے تو ایسے
ہی ایک سانحہ راولپنڈی میں عارف شاہد کے نا حق قتل کی صورت میں ہو چکا تھا
یہ نامعلوم کون ہیں اب سب کو معلوم ہیں لیکن پھر بھی نا معلوم ہی ہیں شجاعت
بخاری قریباََ دو سال قبل بہت دھڑالے سے منظر عام پر گنے جانے لگے ان کی
سوچ کیا تھی ان کے نظریات کیا تھے وہ سب پر واضح تھے ان کے ایسے کردار کے
باعث انہیں بھی ہائی جیک کرنے کی کوششیں کی گئیں ان کے ارد گرد ایسے عناصر
کو لایا گیا جن کاایجنڈا کچھ اور تھا اس سمجھ اورنا سمجھ کے امتزاج کے
باوجود شجاعت بخاری اپنے نظریات کو لیے آگے بڑھتا رہااُسے کچھ عرصہ پہلے
اغو ا بھی کیا گیا ۔ شاہد گئے سال کی بات ہے شجاعت بخاری کو دوبئی میں ہونے
والی ایک کانفرنس کے بعد نشانہ بنا لیا گیا عجیب بات تھی جو سمجھ سے بالا
تر تھی سب سے بڑے عسکری اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ دوبئی کانفرنس پر
الزامات کی بھر مار کر رہے تھے تو اس کانفرنس کی میزبانی اور لاجیسٹک سپورٹ
اسلام آباد کے ہی منظور نظر اور خاص الخاص امجد یوسف فیض محمد نقشبندی جیسے
لوگ کر رہے تھے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ جہاد کونسل امجد یوسف اور نقشبندی
کا ہی نہیں اب بخاری کی شہادت پر مگر مچھ کے جیسے آنسوں بہانے والوں کی
اکثریت کا ریموٹ کنٹرول بھی انہی کے ہاتھ ہے جن پر بخاری کی موت کا ذمہ
لگایا جا رہا ہے دوبئی میں جب ایک کانفرنس کا نعقاد ہوا آر پار روابط
بڑھانے کی بات کی گئی تو اس وقت جہاد کونسل کے سربراہ کا اعتراض کیوں اور
کس لیے ہوا خدا نا خواستہ یہ اعتراض صحیح تھا تو پھر کا منطق تھی کہ
عبدالرشید ترابی بھی اس کانفرنس اور اس ایجنڈے کا حصہ تھے یہ کیسے ہو سکتا
ہے کہ شجاعت بخاری کی لائن کلئیر نہیں تھی اور عبدالرشید ترابی درست تھے
اِسی عمل کا حصہ علی گیلانی کے داماد افتخار گیلانی بھی تھے اُن کے خلاف
کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوااور تو اور گیلانی کے بیٹے انڈیا کا پی ایس سی کر
کہ آفسیری لیے بیٹھے ہیں اور سید صلاح دین کا بیٹا اسی انڈیا کی سیٹ پر
ڈاکٹر بنا ہے لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں بخاری کا جرم یہ تھا کہ وہ
ہدایات لینے کے بجائے اپنی سوچ پر گامزن تھا ۔ پہاڑی زبان کا مقولا ہے جنج
کے ساتھ بھی اور ڈولی کے ساتھ بھی جب شجاعت بخاری کی قیادت میں جوانٹ میڈیا
فورم بنایا گیا تو اس میں شمالی کشمیر ( جی بی) کے نمائندگی نہ تھی اس پر
تو کسی نے اعتراض نہیں کیا جہاد کونسل کے سربراہ کے تحفظات کے بعد گاہے
بگاہے بخاری کو ٹارگٹ بنا کر الزامات لگائے جاتے رہے لیکن کہیں سے بھی اس
کی تردید نہ کی گئی کچھ ماہ سے رولا پڑا تھا کہ اقوام متحدہ کی کشمیر کے
متعلق کوئی رپورٹ سامنے آنے والی ہے عام طور پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
قابض غاصب اور قاتل بھارتی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر
رپورٹیں آتی ہیں ان پر ٹاک شو ہوتے ہیں رونا رویا جاتا ہے لیکن اب کی بار
پہلی دفعہ یہ ہوا کہ زید رعد الحسین کی اقوام متحدہ نے جو رپورٹ شائع کی اس
میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کے دیگر دو حصوں گلگت
بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی ظلم نا انصافی اور استحصال پر بھی کھل کر
تنقید کی گئی اور یہ عملی طور پر ثابت کیا گیا کہ یہ دو خطے بھی غلامی کی
بد ترین لعنت سے دو چار ہیں اس رپورٹ کو شجاعت بخاری نے موضوع بنایا اس کو
اپنا مرکزی نقطہ نظر بنایا جس کے بعد شجاعت بخاری بھی نا پسندیدہ ہو چلے
انہیں واضح طور پر پیغامات دیے گئے شجاعت بخاری کے ایک دوست ارشاد محمود جو
گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے منصوبے پر گامزن ہیں اور
دن رات اس کے لیے کوشاں ہیں سابق وزیر اعظم سکندر حیات جسٹس ریٹائرڈ منظور
گیلانی اورجماعت اسلامی ضلع پونچھ کے سابق امیر حلیم خان کے بعد تیسرے
کشمیری ہیں جو تقسیم کشمیر کے لیے کھل کر کام کر رہے ہیں راولاکوٹ میں
شجاعت بخاری کے غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پر ان ارشاد محمود کا کہنا تھا
کہ شجاعت بخاری نے اسلام آباد سے تین لوگ نامزد کیے تھے اور بقول
ارشادمحمود کے ان تین سے رابطہ بھی کیا کہ شجاعت بخاری کی جان کو خطرہ لاحق
ہے اس کی جان کا تحفظ کیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کو مار دیا گیااگر
کوئی قوم پرست یا خود مختار کشمیر کا علم بردار یہ موقف سامنے لاتا تو اسے
شائد ہندوستان کا ایجنٹ کہا جاتا لیکن یہ ایسے فرد کا اٖظہار تھا جو اسلام
آباد کا خاص الخاص ہے جو روابط کے نام پر ایک طرف آر پار کشمیر کو جوڑنے کی
بات کر کے بظاہر کشمیریوں کو مطمئن کر رہا ہے تو دوسری طرف ریاست کے دوسرے
بڑے حصے گلگت بلتستان کو کشمیر سے کاٹ کر پاکستانی مفادات پورے کر رہا ہے
اس کی یہ بات کہ شجاعت بخاری نے آخری دنوں اس سے اپنے ممکنہ قاتلوں کا
حوالہ دے دیا تھا وہ تین لوگ آخر کون ہو سکتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ان تین
سے شجاعت بخاری کو جان کا خطرہ تھا پاکستان میں بیٹھے آخر یہ تین لوگ اتنے
بااثر اور طاقتور کیسے ہیں جن کا نجی مجلسوں میں حوالہ دیا جارہا ہے لیکن
سامنے نہیں لائے جارہے اور منافقت یہ کی جارہی ہے کہ دنیا کے سامنے معلوم
ہونے کے باوجود کہا جارہا ہے کہ قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے صرف اس لیے کہ
تنخواہ داروں میں مگر مچھ کے آنسوں بہانے والے خود بھی شامل ہیں کیا وجہ ہے
کہ صلاح دین ،حافظ سعیداور مسعود اظہر اس قتل پر خاموش ہیں اور یہ کہ شجاعت
بخاری کو شہید کر کے کیا پیغا م دیا گیا اب ان سوالوں کے جواب بھی ضروری
ہیں ہندوستان کے خلاف بار بار رپورٹیں آتی ہیں آئے روز ہندوستان کے خلاف
قرار دادیں پیش ہوتی ہیں اب جو رعد کی رپورٹ آئی ہے اس سے ہندوستان کو کتنا
ایک نقصان تھا کہ ہندوستان نے شجاعت بخاری کو مارا حریت کانفرنس سے لے
کریسین ملک اور ہاشم قریشی تک سب کو اس کا ادارک کر کے شجاعت بخاری کا قتل
بے نقاب کرنا ہو گا اور ہندوستان کو بھی دو ٹوک واضح کرنا ہو گا کہ کٹھوعہ
جموں میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید کی جانے والی معصوم آصفہ کی شہادت کے
مرتکب افراد کو کٹہرے میں لانے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے شجاعت
بخاری کو کس نے قتل کیا؟ لیکن جب بات نا معلوم کی ہے اور ادریس خان ڈاکٹر
گرو غلام قادر وانی غلام نبی بٹ عبدالغنی لون ڈاکٹر قاضی نثار کی شہادتوں
کی طرح اگر انگلیاں کہیں اور اٹھ رہی ہیں تو اس کا ادارک بھی کرنا ہو
گامتحدہ جہاد کونسل کے سربراہ کو بھی کھل کر وضاحت کرنا ہو گی کہ دو بئی
کانفرنس پر ان کے کیا اعتراضات تھے اور اگر شجاعت بخاری اس کانفرنس کے باعث
کسی اور کی آلہ کاری کر رہے تھے تو پھر عبدالرشید ترابی بھی اس عمل کا حصہ
تھے وہ کیوں کر بے گناہ ٹھہرے اور انہی خطوط پر جب تسلسل سے امجد یوسف فیض
محمد نقشبندی مصروف عمل ہیں تو وہ کیسے حق پرستی ہے بہت سارے سوال اٹھ رہے
ہیں لیکن میرا صرف ایک سوال ہے کہ قربانیوں میں ایک اضافہ شجاعت بخاری کا
بھی ہو گیا وہ سربلند کشمیر چاہتا تھا اور شائد اسی جرم میں اس کو مار دیا
گیا ۔مگر اس کے نام پر ٹھیے وہ لگائے ہیں مگر مچھ کے آنسوں وہ بہا رہے ہیں
جو ریاست کی وحدت کی بحالی پر یقین نہیں رکھتے جن میں سے کہیں کے اخراجات
تنخواہیں اور حکم نامے اسلام آباد سے آ رہے ہیں تو کہیں کے بذریعہ دوبئی
یورپ اور سویزر لینڈ کے ہندوستان سے آ رہے ہیں اس قربانی پر بھی شب خون
مارا جا رہا ہے ۔ شجاعت بخاری کو تو اس بات کابھی صدمہ تھا کہ جموں و کشمیر
لبریشن فرنٹ کیونکر دھڑے بندی میں تقسیم ہے شجاعت بخاری ہم شرمندہ ہیں تیرے
قاتل زندہ ہیں۔ایک مرتبہ پھر ثابت ہو ا کہ مقبول بٹ کتنا دور اندیش اور
حقیقت پسند تھا جس نے برسوں پہلے کہا تھا۔
یا خدا مجھے میرے دوستوں سے بچا۔۔۔۔۔۔دشمن سے میں خود نمٹ لوں گا۔
آج اس کی دو سری بر سی پر میں سو چ رہا ہوں کہ کہاں گئے وہ لو گ جو اس کے
۔۔ہمسفر ۔۔۔تھے اس کو بھلا ہی گئے دو ستوں سے ایسے ہی ۔۔وفا دا ری ۔۔۔کی جا
تی ہے کیا ؟اگر دو ست بھلا دیں تو ۔۔،مشن ۔۔کی تکمیل کو ن کر ے گا ۔
|