خون عطیہ کرنے والے۔۔۔ہمارے ہیرو

تحریر: خالد بن مجید

’’کارِ خیر‘‘ بھی توجہ اور داد کا مستحق ہے اِس لیے کہ دوسرے بھی ترغیب پائیں اور خیر کی دولت بانٹیں ، آج خون عطیہ کرنے والوں کا دِن ہے۔ یہ دِن دنیا بھر میں 14 جون کو منایا جاتا ہے۔ آج کا دِن اِس بات کا متقاضی ہے کہ خون عطیہ کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ دوسروں کی زندگیاں بچانے والے ہمارے ہیروز ہیں اور ہیروز کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔ وطنِ عزیز رواں سال اِس حوالے مشکلات سے دوچار رہا اور یہ ابتر حالت اب بھی جوں کی توں ہے، کورونا وباء کی وجہ سے عطیہ خون جمع کرنے کے کیمپس کہیں بھی منعقد نہیں ہو سکے، انفرادی طور پر خون دینے والے بھی اِ س وباء نے محصور کررکھے ہیں اور خون جن کی ضرورت ہے وہ کسمپرسی کا شکار ہیں بہر صورت پھر بھی اِس قوم کا جذبہ خیر دیدنی ہے۔ یہاں ابتری کے باوجود مایوسی کہیں نہیں ۔ ڈونرز نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے اور آگاہی مہم کی بدولت کئی اور ڈونرز بھی سامنے آئے ہیں، زندگی سانسیں مانگتی ہے۔یہ مختصر ہے مگر خون کا عطیہ کسی کی بھی زندگی کو دوام بخشتا ہے، آج کا دِن اُن لوگوں کیلئے جو اپنے جسم کی زکوٰۃ خون کی صورت دوسروں کیلئے دیتے ہیں یہ فریضہ بہت کم لوگ انجام دے رہے ہیں یہ شرح بڑھانے کی ضرورت ہے، خون دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اگر بات نیکی کی ہو تو قیمتی انسانی جان بچانا سب سے بڑی نیکی ہے۔اگر بات روحانیت کی ہو تو عطیہ خون آپ کے جسم کی زکوٰۃ ہے، آپ کو جسمانی طور پر مطمئن رکھتا ہے، اگر بات جسمانی صحت کی ہو تو یہی عطیہ خون آپ کی جملہ فٹنس کو برقرار رکھتا ہے،بلند فشارِ خون اور عارضہ قلب سے محفوظ رکھتا ہے،خون میں کولیسٹرول کو کم کرتا ہے،سرخ خلیوں کی پیداوار بڑھاتا ہے،آپ کی عطیہ کردہ خون کی بوتل 3قیمتی جانیں بچا سکتی ہے،آپ کا مفت طبّی معائنہ بھی ہو جاتا ہے جس سے اِس بات کا بھی علم ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ آپ کو کوئی ایسی بیماری تو نہیں جس کا آپکو پہلے علم نہ تھا۔ یہ بات شک و شبہ سے بالا ہے کہ ہماری قوم ہر چیلنج سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہے اور ایسی ناگہانی صورتحال میں ہر قسم کی قربانی کیلئے بھی تیار رہتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’جس نے ایک جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘ اِس لیے کسی کی جان اگر ایک یونٹ خون عطیہ کرنے سے بچ سکتی ہے تو پھر دیر کیسی۔ ہمارے ہاں اِس ضمن میں شعور کی دولت بانٹنے کی اَشد ضرورت ہے۔ آج کا دِن اِس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ خون عطیہ کرنے کیلئے عوام کو آگاہی دی جائے، اِس بارے رغبت دِلائی جائے تاکہ ایمرجنسی کی صورتحال میں کسی قسم کی قلت کا سامنا نہ ہو۔نصابی کتب میں عطیہ خون کی اہمیت و افادیت پر مضمون شامل کیا جائے تاکہ طلبہ و طالبات اِس کارِ خیر سے متعلق آگاہی حاصل کرسکیں۔ سانحہ اے پی ایس ہو یا 2005ء کا بدترین زلزلہ قوم نے لبیک کہا اور ہر قسم کی مالی، اخلاقی مدد کو آگے بڑھی، خون دینے والوں کی قطاریں لگ گئیں ، ایثار و قربانی کا ایسا مظاہرہ دنیا میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ پاکستان کے بارے میں اقوام عالم کی یہ رائے ہے کہ یہ قوم ہر چیلنج میں سرخرو ہو کر نکلی ہے۔ آج کے دِن دنیا بھر میں خون کی فراہمی، خون کی منتقلی اور خون کی بیماریوں میں مبتلا افراد سے متعلق تنظیمیں، ادارے تقریبات منعقد کرتے ہیں، رواں سال کورونا وباء نے اہل عالم کو پریشانی سے دو چار کررکھا ہے۔ اِس صورتحال میں خون کے عطیات دینے والوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے انہیں یاد رکھنا اور بھی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ چہ جائیکہ ملک ڈاؤن کی سی صورتحال میں جہاں ٹریفک کم رہی وہاں حادثات میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی، انتہائی ایمرجنسی کے علاوہ روزمرہ کی بھیڑ بھی کہیں نظر نہ آئی اور اِس طرح روزانہ کی ضرورت بھی کم رہی ، خون صرف اِن کی ضرورت تھا جو اِس کے بغیر زندگی کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔ خون کے عارضہ میں مبتلا بچوں، ہیموفیلیا کے شکار افراد کیلئے اور خواتین کیلئے زَچگی کے دوران خون کی ضرورت بہرحال رہی اِس ضرورت کو ہلالِ احمر پاکستان کے ریجنل بلڈ ڈونر سنٹر نے کماحقہ پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی، انفرادی ڈونرز نے اپنا اپنا حصہ ڈالا، شعبہ یوتھ اینڈ والینٹئرز سے وابستہ رضاکاروں نے بھی کارِ خیر میں حصہ ڈالا۔موجودہ صورتحال میں انکا کردار ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ انسانیت کی خدمت میں مصروف یہ سپاہی بلا تنخواہ یہ عظیم فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔حال ہی میں ہلال احمر اور اوبر کے مابین باہمی اشتراک ہوا جس کے تحت راولپنڈی اسلام آباد اور لاہور کے شہری اوبر فری پروموکوڈـ کے ذریعے گاڑی کا مفت استعمال کر کے کسی بھی وقت ہلال احمر کے بلڈ ڈونر سنٹرز آ کر خون عطیہ کر سکتے ہیں، عطیہ خون دینت والوں کو واپس اس کی منزل تک بھی پہنچایا جائے گا ، یہ مہم بھی زور و شور سے جاری ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد مذکورہ سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عطیہ خون کے لیے آئے ۔ایک اور اہم بات یہ کہ کورونا وبا سے متاثر ہو کر شفا پانے والے اپنا پلازمہ دت کر دیگر افراد کی جان بچا سکتے ہیں۔ آج خون عطیہ کرنے والوں کا عالمی دن ہے آج کے دن کوڈو 19 کے متاثرہ نئی زندگی پانے والے پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے آگے بڑھیں یہ وقت ایثار و قربانی کا ہے۔ آج کا دِن ہر سال ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ خون عطیہ کرنے والوں کی پذیرائی کی جاتی ہے مگر اِس بار کورونا وباء نے یہ دِن بھی منانے نہ دیا سوشل ڈسٹینسنگ، ماسک، بار بار ہاتھ دھونے، ہجوم سے دور ی، گلے ملنے کی بجائے کوسوں دور سے علیک سلیک ہی بچاؤ کی بنیاد ٹھہرے ہیں لیکن اِس ناگہانی، مشکل ترین اور سنگین صورتحال میں عوام الناس میں خون عطیہ کرنے کی ہلال ِاحمر مہم جاری رہی ہے۔ دفتر کے باہر دیوہیکل بل بورڈز اِس بات کی اہمیت بتلاتا ہے کہ خون زندگی ہے اور عطیہ خون کارِ ثواب بھی ہے اور صحت کیلئے مفید بھی۔ ہلال ِاحمر نے اِس ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عہدہ جلیلہ سنبھالنے کے فوری بعد چیئر مین ہلال احمر پاکستان جناب ابرارالحق نے خون کے عطیات کو مقدم رکھتے ہوئے ملک گیر مہم کا آغاز پارلیمنٹ ہاؤس سے کیا تھا مگر کورونا وباء نے اِس مہم کو آگے نہ بڑھنے دیا آربی ڈی سی کے مختلف اداروں ، کمرشل مارکیٹوں، عوامی مقامات پر کیمپ بھی نہ لگائے جا سکے۔ہلال ِاحمر آج کے دِن اپنے اِس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ ضرورت مندوں کو خون کی بلا امتیاز، بلا تفریق فراہمی جاری رکھے گا اِس عہد کی پختگی کیلئے عوام کو آگے آنا ہوگا۔ خون عطیہ کرنا ہوگا، ہر صحت مند انسان ہر چار ماہ بعد خون عطیہ کرسکتا ہے۔ خون عطیہ کرنے والے ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، ہمارا اثاثہ ہیں ہمارا نشان ہیں۔ آج کے دِن اُن کے اِس طرزِ عمل کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ یقین مانئیے! آپ کا عطیہ کردہ خون کسی بھی ضرورت مند کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.