پیارے بچو !کوئی بھی شخص ہو اس کابچپن یادگارہوتاہے
اورکئی بچپن کی باتیں ہوتی ہیں جووہ بھول نہیں سکتاخاص طورپردادا،دادی
،نانا،نانی،اماں ،خالہ یہاں تک کہ بڑی بہن کی سنائی گئی کہانیاں جنہیں سنتے
سنتے اسی خیالی دنیامیں کھوجانا۔ہرانسان کی طرح میرے ساتھ بھی ایساہی ہے
مگرپیارے بچومیں نے اپنے بچپن میں کئی رسالے بچوں کے میگزین پڑھتاتھامگراب
اخباروں میں بھی بچوں کیلئے بہت کم جگہ بچی ہے کیونکہ آج کے ڈیجیٹل دورمیں
ہرکسی نے اپنے بچے کو موبائل اورکمپیوٹرکاعادی بنادیاہے ۔ پیارے بچومیں آج
آپکو ایک بہادراورسمجھدارلڑکی کی کہانی سنانے جارہاہوں جسے پڑھ کے آپ
کویقیناً خوشی ہوگی ۔
پیارے بچو ایک دفعہ کاذکرہے ایک گاؤں تھاجس میں سب لوگ ہنسی خوشی رہتے تھے
مگرکچھ وقت سے گاؤں کی خوشیوں کوکسی کی جیسے نظرلگ گئی ہوگاؤں تھاتوبہت
سرسبز تھاقدرت کی ہرنعمت تھی اس گاؤں میں ایک پانی کاتالاب تھا جس میں
میٹھاپانی ملتاتھامگرپانی حاصل کرنے کیلئے کسی انسان کی قربانی دینی پڑتی
تھی جی ہاں پیارے بچوقربانی کیونکہ اس تالاب پرایک دیو کاقبضہ تھا اوروہ
ہفتہ میں ایک انسان کی قربانی مانگتاتھا
اس گاؤں میں سہانہ نام کی ایک پیاری سی لڑکی بھی رہتی تھی جس کاایک بھائی
تھاجس کانام اسدتھادونوں بہن بھائی ایک دوسرے کاسہاراتھااس کے علاوہ دونوں
کادنیامیں کوئی نہ تھا سہانہ ہرکسی سے پیارسے ملتی اوربڑی باادب بچی تھی
بڑوں کی عزت کرناچھوٹوں سے پیارکرنااورہرمشکل کاحل اپنے دماغ سے نکال لیتی
تھی سوہانہ لوگوں کے گھرکام کاج کرکے اپنااورپنے بھائی کاپیٹ پالتی تھی
اوراسدچھوٹاہونے کی وجہ سے زمیندارکے گھرمالی کاکاکے ساتھ ہاتھ
بٹاتارہتاتھا۔ہرہفتے کے دن ساراگاؤں تالاب پرجاتااوراپنے ہاتھ سے کسی اپنے
کی قربانی دے کر ہفتے کیلئے پانی لے آتے ۔ہفتہ گزرنے کے بعد سہانہ کو کسی
کے گھرکام کرناتھا تواس نے مالی کاکاکوکہاکہ اسد کوساتھ لے جائیں اوراس
دومٹکے پانی کے دے دیجئے گاتومالی کاکانے اسدکوساتھ لے اورسارے گاؤں کے
پیچھے چل پڑے تالاب پرجاکرہمیشہ کی طرح تالاب کے جن کوآواز دی کہ’’ جن
بادشاہ ہماری قربانی لے کہ ہمیں پانی دے دو، جن بادشاہ ہماری قربانی لے کہ
ہمیں پانی دے دو‘‘کچھ دیربعددیو کی آواز آئی اورایک بدشکل کادیو سامنے
آیااورساراگاؤں ڈرسا گیا اورسکتہ طاری ہوگیاتوجن نے اسدکی قربانی مانگ لی
گاؤں کے وڈیرے نے کہا کہ اسدتوبچہ ہے اس نے ابھی دنیامیں کچھ دیکھاہی نہیں
کسی اورکی قربانی مانگ لو تودیو جلال میں آگیااورکہااسے تالاب میں بھیجو
نہیں تومیں سارے گاؤں کوکھاجاؤں گا مجبوراًوڈیرے اورگاؤں والوں نے
اسدکوتالاب میں بھیج دیاتالاب میں ریت ہی ریت تھی اسد ڈرسے آگے بھی
دیکھتاپیچھے سہمے ہوئے گاؤں والوں کوبھی دیکھتاکچھ دورجانے کے بعدپانی کی
ایک لہرآئی اوراسدکوبہاکے لے گئی اورتالاب پانی سے فل ہوگیا۔سب گاؤں والے
ہمیشہ کی طرح افسردہ آنکھیں اورافسردہ دل کے ساتھ پانی بھرکے گاؤں کوہولیے
گاؤں پہنچے توسہانااپنے بھائی کوڈھونڈتی رہی جس سے پوچھتی کوئی جواب نہ
ملاآخراسے مالی کاکامل گئے مالی کاکانے اسے پانی کے دومٹکے پکڑوائے اورآگے
جانے لگے توسہانانے مالی کاکاکوروک لیااورسوالیہ نظروں سے کہامالی
کاکامیرابھائی کہاہے مالی کاکا؟ اتنے میں مالی کاکارونے لگے اورکہاکہ اس
بارتالاب کے دیونے اسدکی قربانی مانگی ہے اوریہ پانی اسی قربانی کاپھل ہے ۔
بہن تھی اس سے برداشت نہ ہواوہ تالاب کی طرف بھاگنے لگی سب گاؤں والوں نے
روک لیادلاسے دیتے رہے مگراس کاتوصرف وہی سہاراتھاوہی دنیاتھی اس کی
تودنیاہی اجڑگئی تھی مگرگاؤں والوں نے اسے روک لیا ۔
سہاناساری رات روتی رہی بلکتی رہی اسے نیندنہ آئی رات کے آخری پہراس نے دل
کو چھوڑکردماغ سے سوچناشروع کیاآخراسے ایک ترکیب سوجھی اس نے ہفتے
کاانتظارکیاکہ اس نے آخرکرناکیاہے ۔
آخرہفتے کادن بھی آگیاگاؤں والو کے جاگنے سے پہلے وہ تالاب پرپہنچ گئی
اورکنارے پرکھڑے ہوکرآواز دی ’’ دیو بادشاہ ہماری قربانی لے کہ ہمیں پانی
دے دو، دیو بادشاہ ہماری قربانی لے کہ ہمیں پانی دے دو‘‘کچھ دیربعدتالاب
کاجن ظاہرہوااورکہاکہ اندرآجاؤمیں تجھے کھاؤں گاتبھی تواپنے اندرسے پانی
باہرنکال کے تالاب بھردوں گا۔سہانا سمجھدارلڑکی تھی اس نے کہاکہ دیوبادشاہ
میں توایک چھوٹی سی جان ہوں اگرآپ مجھے کھائیں گے توآپکی تھوڑی دیرکی بھوک
بھی نہیں مٹے گی مگرمیں آپکوایسی جگہ لے جاؤں گی جہاں ہزاروں لوگ ہوں گے
جنہیں آپ مہینوں کھاتے رہیں گے ۔دیوبادشاہ کوسہانہ کی ترکیب پسندآئی اوروہ
سہاناکے ساتھ جانے کوتیارہوگیاسوہانہ اسے ریگستان میں لے گئی دیونے بیسوں
بارپوچھااورکتنی دورسہاناکاایک ہی جواب ہوتابس تھوڑادوربس تھوڑادوریہاں تک
کہ سہانہ اسے ریگستان کے درمیان میں لے گئی دیوتھک کے چورچورہوگیابھوک سے
بلک رہاتھااورسوہاناسے کہاکہ میں اورمزیدنہیں چل سکتامجھے کھانے کی ضرورت
ہے توسوہانا نے کہامیرابھائی تمہارے پیٹ میں ہے پہلے اسے واپس کروں پھرمیں
تمہیں کھانے کودوں گی دیو اگرمگرپرآیاتوسوہانانے کہاپھریہیں پے مرو،میں
جارہی ہوں دیونے کہامجھے اکیلاچھوڑکے مت جاؤاتنی شدیدگرمی میں برداشت نہیں
کرسکتاتوسہانانے پھراپنے بھائی کی مانگ کی توجن نے منہ کھولااورساراپانی
باہرنکال دیاجس میں گاؤں کے سینکڑوں لوگ تھے اس میں سوہانہ کابھائی اسد بھی
تھااتنازیادہ پانی تھاکہ ریگستان تالاب بن گیا مگردیوکوپیاس نہیں بھوک لگی
تھی سب لوگ سمجھ گئے کہہ اگرہم اسے کھانے کونہ دیں تویہ اپنی موت آپ مرجائے
گاسب لوگ اونچی جگہ پرپہنچ کے دیوکاتماشہ دیکھنے لگے دیکھتے ہی دیکھتے
دیوبھوک کے مارے مرگیااورسوہاناکی سمجھداری نے نہ صرف اس کے بھائی بلکہ
پورے گاؤں کی جان بچالی اورپانی کی مشکل کوبھی دورکردیا۔
|