مہاراج! تھوڑی سی دھیرج تو دکھائیے

دُشمن ممالک کے خفیہ ادارے جادو کی چھڑی کی طرح ہوتے ہیں۔ جس پر یہ مہربانی ہو جائیں اُسے راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچاکر دم لیتے ہیں۔ بھلے ہی اُسے خاندان والے نہ جانتے ہوں، ایک دنیا جان جاتی ہے! بات صرف شہرت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ممدوح کو یہ ادارے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو قومی ہیرو یا جینیس میں بھی تبدیل کر ڈالتے ہیں!

بھارت کا خفیہ ادارہ ”را“ بہت سے معاملات میں واقعی ابھی خاصا raw یعنی کچّا ہے۔ مثلاً اِسی بات کو لیجیے کہ جس طرح امریکہ اُسامہ فوبیا کے دائرے سے باہر نہیں آسکا بالکل اُسی طرح بھارت اب تک داؤد فوبیا کو چت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اِشو چاہے کچھ ہو، بھارتی انٹیلی جنس کی تان ٹوٹتی ہے تو داؤد ابراہیم کے نام پر! ایسا لگتا ہے کہ بھارتی قیادت کی ساری ذہانت داؤد فوبیا کے اتھاہ ساگر میں ڈوب گئی ہے!

ایبٹ آباد آپریشن کی خبر بریک ہوئی تو بھارتی انٹیلی جنس کے پیٹ میں بھی مروڑ اُٹھا اور پاکستان میں سرجیکل اسٹرائکس کی خواہش کا برملا اظہار کیا جانے لگا۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ سمجھدار آدمی ہیں۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ میڈیا کے ہاتھوں پوری قوم کے بارہ بج رہے ہیں تو میدان میں کودے اور پاکستان میں سرجیکل اسٹرائکس سے متعلق بیانات کا راستہ روکا۔ یہ مقام شکر ہے کیونکہ اپنا اور ہمارا یعنی مشترکہ بھلا سوچنے والا وزیر اعظم بھارت میں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے!

دو تین دن میں جب جوش کی گرد بیٹھی تو ایبٹ آباد آپریشن کی طرز پر بھارت کی جانب سے کسی ممکنہ کاروائی کے بارے میں بڑھکیں مارنے والے بھارتی میڈیا نے بھی حکام کے حوالے سے تسلیم کرلیا کہ جو کچھ امریکہ نے ایبٹ آباد میں کیا وہی کچھ اگر بھارت میں بھی ہوتا تو ریسپانس تقریباً وہی رہتا جو پاکستان کا تھا! لیجیے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے!

ہم بھی کیسے عجیب خطے میں واقع ہوئے ہیں۔ اِس میں صورت حال پلک جھپکتے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہمارے خلاف سرجیکل اسٹرائکس کی باتیں کرنے والوں کو اب اپنی سرجری کی فکر لاحق ہوئی ہے۔

بات ہو رہی تھی داؤد بھائی یعنی داؤد ابراہیم کی۔ نام کی تھوڑی سی مماثلت نے ہمیں اکثر خاصی خوشگوار مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ ایک بار کیبل والا ہم سے ماہانہ فیس وصول کرنے آیا تو ہم نے ڈھائی سو روپے نکال کر اُسے دے دیئے۔ ہمارے پڑوسی بھی وہیں کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ جب کیبل والا چلا گیا تو اُنہوں نے حیرت سے کہا ”یہ کیا؟“ ہم نے کہا بھائی صاحب! کیبل والا فیس لینے آیا تھا، ہم نے فیس دے دی۔ وہ بولے ”آپ نے فیس کیوں دی؟“ ہم نے احترام کے ساتھ استفسار کیا کیوں نہ دیتے؟ وہ کہنے لگے ”بھئی آپ سے وہ فیس کیسے وصول کرسکتا ہے، آپ تو جرنلسٹ ہیں!“ ہم نے مؤدبانہ عرض کیا کہ جناب ہم ابراہیم ہیں، داؤد ابراہیم نہیں!

ایبٹ آباد آپریشن کے بعد بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کی سارنگی پر مطلوب افراد کی راگنی چھیڑی۔ روزنامہ بھاسکر نے خفیہ اداروں کے حوالے سے بتایا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد یعنی پیر 2 مئی کی شب داؤد ابراہیم نے حفظِ ماتقدم کے طور پر پاکستان چھوڑ دیا۔ اخبار کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ شاید بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائک کا خطرہ تھا! ویسے تو خیر پوری خبر ہی ہنسانے والی تھی مگر اِس اخبار نے جو رُوٹ بتایا اُس نے قارئین کو یقیناً زیادہ ہنسایا ہوگا۔ خبر کی صورت میں دعویٰ یہ تھا کہ داؤد ابراہیم کو مبینہ طور پر پہلے کابل پہنچایا گیا اور وہاں سے وہ سعودی عرب گئے! امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ اُسامہ بن لادن کی لاش کو ایبٹ آباد سے بگرام ایئر بیس لے جایا گیا تھا۔ بھارت نے بھی امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے داؤد ابراہیم کا یہی رُوٹ ترتیب دیا! فرماں برداری ہو تو ایسی ہو! یعنی کسی اور کے لئے حاشیہ برداری کی گنجائش نہیں چھوڑی!

خیر، ابھی داؤد ابراہیم کو سعودی عرب پہنچاکر بھارتی خفیہ اداروں اور میڈیا نے اُنہیں سُکون کا سانس لینے اور عمرہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیا تھا کہ ایک جھٹکے میں واپس کراچی پہنچا دیا! اپنے ”مہا“ خفیہ اداروں کی ”تحقیق“ پر گنگا کا پَوتر جَل پھیرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے دعویٰ کردیا کہ داؤد ابراہیم کراچی میں ہیں۔ لیجیے صاحب
ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق
پھر آگئے وہیں پہ چلے جہاں سے ہم

اب سوال یہ ہے کہ محض ایک ڈفلی بجا بجاکر سازینہ کس طور ترتیب دیا جاسکتا ہے، پوری کی پوری موسیقی محض ایک راگ الاپتے رہنے سے کس طور پنپ سکتی ہے؟ ”را“ کے سپر مائنڈز اپنی ناکامیوں کو کب تک داؤد بھائی کے کھاتے میں ڈالتے رہیں گے؟

ممبئی کے آبرائے ہوٹل میں جو کچھ ہوا اُس کی چھان بین کر کے بھارت نے دعویٰ کیا کہ یہ سب پاکستان کے چند سر پھروں کا کارنامہ تھا۔ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر بھارتی خفیہ ادارے اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کیا گھاس کھودنے پر مامور ہیں۔۔ یا بولی وڈ کی شوٹنگز دیکھنے میں مصروف رہنا انہیں زیادہ پسند ہے؟ اگر دس بارہ سر پھرے پاکستانی نوجوان بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ ۔۔۔

خیر، جانے دیجیے۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت نے کئی مواقع پر علاقائی سپر پاور بننے کی اپنی سی کوشش کی ہے اور منہ کی کھائی ہے؟ مگر کون سمجھائے کہ یہ راہ آسان نہیں؟
اِس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں!

برتری کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں کبھی کبھی قومی وجود بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ دو عالمگیر جنگیں اِس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں۔ کہاں پورے جنوبی ایشیا کے مُستقبل کو مُٹھی میں لینے کی خواہش اور کہاں پاکستان کے معاملے میں صرف ماضی کی طرف منہ کئے رہنا! آگے بڑھنے کے لئے بہت کچھ بھولنا پڑتا ہے۔ اور یہاں یہ حالت ہے کہ بھارت کے حکمران پاکستان کے معاملے میں حافظے کے دانت تیز کرتے رہتے ہیں!
میر انیس کہہ گئے ہیں
جو صاحب جوہر ہیں جھکے رہتے ہیں اکثر

اہل جہاں کو جھکانے کے لئے پہلے جھکنا پڑتا ہے، تعظیمی انداز اختیار کرنا پڑتا ہے، دوسروں کو احترام کی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے۔ علاقے کا چودھری بننے کی خواہش نے بھارت سے وہ لچک چھین لی ہے جس کی اُس سے سبھی آس لگائے بیٹھے ہیں! بھارتی حکمرانوں نے تاریخ سے اِتنا سبق بھی نہیں دیکھا کہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے!

یہ کیا تضاد ہے کہ دعویٰ تو جگمگاہٹ کا ہے اور باطن کی ظُلمت ختم نہیں ہو پارہی؟ دنیا روشنی کی رفتار ناپ رہی ہے اور بھارت اب تک اندھیرے کی رفتار بڑھانے پر کمر بستہ ہے!

دستر خوان پر طرح طرح کے پکوان دھرے ہوتے ہیں مگر ذوق اور ضرورت کے مطابق ہی کھایا جاتا ہے۔ دستر خوان پر دھری ہوئی اشیاء کو بے سوچے سمجھے حلق میں ٹھونس کر معدے میں پہنچانا بسا اوقات نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات بھارتی قیادت کو بھی سمجھنی چاہیے۔ سفارتی اور اسٹریٹجک دستر خوان پر بسیار خوری سے بدہضمی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے! بڑا بننا ہے تو بھارتی قیادت کو بڑپّن اپناکر چھوٹی حرکتوں سے گریز کرنا اور فوبیا کے فوبیا سے بچنا ہوگا۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524879 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More