امریکی اور مغربی میڈیا کی
پوری کوشش ہے کہ وہ اپنے عوام کو اس بات پر قائل کر لے کہ اسامہ واقعی
مارا جا چکا ہے۔ نیویارک میں مقیم ایک دوست نے فون پر بتایا کہ یہ ٹھیک
ہے کہ پوری امریکی عوام اسامہ اور القاعدہ کو خطرہ سمجھتے ہیں مگر جب
ان سے پوچھا جاتا ہے کہ امریکی حکومت نے کبھی عوام کے سامنے وہ ثبوت
پیش کئے جس سے القاعدہ کے وجود کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تو وہ نفی
میں سر ہلا دیتے ہیں۔ امریکہ میں اطلاعات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔
وہاں چھپنے والے اخبارات و رسائل کے ایڈیشن لاکھوں کی تعداد میں چھپتے
ہیں۔ جتنے ہمارے ہاں مجموعی چینل ہیں اتنے ان کے ایک شہر میں موجود ہیں۔
موبائل فون، انٹرنیٹ اور اس طرح کی جدید مواصلاتی سروسز کے استعمال میں
ان کا کوئی ثانی نہیں۔ مگر مواصلات کی اس بہتات اور فراوانی کے باوجود
امریکی عوام آج تک اپنی حکومت کی بین الاقوامی پالیسیوں کی اصلیت سے بے
خبر ہی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت نے انہیں اور ان کے ملک کو
’تحفظ ‘ دے رکھا ہے۔ امریکہ حکومت اپنے ملک کی ترقی ، خوشحالی اور’ نیک
نامی‘ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے ہے۔ امریکی عوام کی اپنی حکومت
کے کرتوتوں سے ایسی لاعلمی پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے۔
اپنے عوام کو بیوقوف بنانے میں امریکی میڈیا کی ’حب الوطنی‘ کا بھی اہم
رول ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ سر سے پاﺅں تک پراپیگنڈہ کی دلدل میں پھنسے
ہوئے ہیں۔ ان کی ہر اطلاع ، ہر خبر بلکہ ہر ڈرامے کے پیچھے ایک طے شدہ
مقصد ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے وہ کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ میرا
مطلب ہے وہ اپنے مفادات کی خاطر جھوٹ اور منافقت کی بلندیاں چڑھ سکتے
ہیں اور اتنی ہی تیزی سے عمیق گہرائیوں میں بھی اتر سکتے ہیں۔ 9/11کے
واقعے کو ہی لیجئے۔ آج تک امریکی عوام کو یہی بتایا گیا کہ یہ واردات
القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے کی تھی اور اسامہ ان کا
سرغنہ تھا۔ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے انہیں کوئی عقلی دلیل یا
ثبوت فراہم نہیں کیا جاتا۔ 9/11سے قبل امریکی عوام القاعدہ کے نام سے
بھی ناواقف تھی۔ پھر اچانک یہ بلا کہاں سے ٹپک پڑی۔بہرحال امریکی عوام
نے اتنے بڑے واقعے کے بعد سی آئی اے کے کردار کے حوالے سے بش انتظامیہ
سے وہی سوال کیا تھا جو آج کل اوبامہ انتظامیہ آئی ایس آئی کے بارے میں
پوچھ رہی ہے۔ یعنی 9/11کا واقعہ سی آئی اے کی مل بھگت تھی یا پھر مٹھی
بھر دہشت گردوں کے سامنے اس کی ناکامی۔ امریکی عوام آج بھی اپنے گردن
کو جھٹکا دے کر اور ہونٹوں کو بھینچ کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آخر
اس دن ہمارے ہوم سیکورٹی کے ادارے کہاں تھے جب دہشت گردوں نے بیک وقت
چار بڑے طیاروں کو نہ صرف آسانی سے اغوا کیا بلکہ انہیں ٹارگٹ پر بھی
دے مارا۔ دو ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جاکر لگے جبکہ تیسرا پینٹا گون میں گھس
گیا۔ اس واقعہ کے دس سال بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات اور
شکوک وشبہات گردش کر رہے ہیں۔ امریکہ میں 9/11ٹرتھ موومنٹ بھی موجود ہے
جس کے قیام کا مقصد یہی ہے کہ بش انتظامیہ کی 9/11کی سازش کو بے نقاب
کیا جائے۔ موومنٹ کے کارکنوں کو یقین ہے کہ 9/11کا واقعہ امریکی حکومت
اور سی آئی اے نے خود کرایا تاکہ افغانستان اور عراق پر حملے کا جواز
تلاش کیا جاسکے۔ اس تحریک نے 9/11کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ پر بھی یہ
کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ اس میں بہت سے سقم موجود ہیں یا پھر جان بوجھ
کر حقائق کو چھپایا گیا ہے۔ تاہم امریکی پراپیگنڈہ کے سونامی کے سامنے
ایسی تنظیموں کی کوئی حیثیت نہیں۔ امریکی حکومت کیلئے اپنے میڈیا کے
ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے میں کوئی مشکل نہیں۔
ایبٹ آباد میں اسامہ کے ”کمپاﺅنڈ“ اور اسے ہلاک کر کے زندہ برد کرنے
کے”ڈرامے“ کو بھی امریکی میڈیا حقیقت کا روپ دھارنے کی کوششوں میں
مصروف ہے بلکہ کامیاب ہوچکا ہے۔اس معاملے میں بھی امریکی عوام مخمصے کا
شکار ہیں۔ وہ اسامہ کو ٹھکانے لگانے کے امریکی دعوے پر خوشیوں کے
شادیانے بھی بجا رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ سوالات کی بوچھاڑ بھی کررہے
ہیں۔ امریکی حکومت کے پاس اسامہ کی ہلاکت یا آپریشن کی صداقت کے حوالے
سے کوئی ثبوت نہیں۔ البتہ اسامہ کی وہ فلمیں جو پہلے ہی میڈیا کو ریلیز
ہوئی تھیں یا پھر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے جانے والے مبہم
عکس لوگوں کے سامنے پیش کر کے جھوٹ کو سچ کرنے کے جتن کئے جارہے
ہیں۔یعنی اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ سچ مان لیں۔ مغربی میڈیا چونکہ امریکی
میڈیا کا ہمنوا ہے اس کا طرز عمل بھی کوئی مختلف نہیں۔ وہ بھی اس واقعے
کو سچ کا لبادہ اڑھانے کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ ایسے میں جب لوگ یہ
سوال پوچھتے ہیں کہ اوبامہ نے سچویشن روم سے براہِ راست آپریشن کا
نظارہ کیا مگر اسامہ کی لاش کی ایک جھلک لوگوں کو کیوں نہ دکھا سکیں
اسی طرح اسامہ کی لاش کو سمندر برد کرنے کی اتنی بھی جلدی کیا تھی ؟ ان
سوالات کے جوابات دینے کا ٹھیکہ اب میڈیا نے لے لیا ہے جو مختلف من
گھڑت اور ٹیبل سٹوریوں کے ذریعے لوگوں کے ذہنی مخمصے کے علاج کی چارہ
جوئی کررہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مغربی اخبار نے انکشاف کیا کہ اسامہ
کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی مگر اس کی لاش کو ایک وزنی بیگ میں ڈال
کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسامہ کی لاش کو
ایبٹ آباد سے پہلے کابل کے بگرام ائر بیس پر لے جایا گیا جہاں اس کے ڈی
این اے سمپل لئے گئے اس کے بعد اسے بحیرہ عرب میں موجود امریکی جہاز
کارل ونسن پر پہنچایا گیا۔ اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ اسامہ کی لاش کو
سمندر برد کرنے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس خبر کے مطالعے کے
دوران ایک عام قاری یقیناً ان لکھے الفاظ کو سچ ماننے پر مجبور ہوجائے
گا۔ مگر عقل پر یقین رکھنے والا قاری اسے حقائق اور دیلیل کے پیمانے پر
پرکھ کر ہی قبول یا رد کرے گا۔ اس خبر میں کوشش کی گئی ہے کہ قاری کو
جنازہ نہ پڑھانے کی خبر دے کر اسے اس بات پر قائل کرلیا جائے کہ اسامہ
کی لاش ضرور موجود تھی۔ اسی طرح ڈی این اے کی خبر دے کر پھر اسامہ کی
لاش کو کابل لے جانے کا یقین دلایا گیا ہے۔ امریکی ویب سائٹس خاص طور
پر گوگل، یاہو وغیرہ پر اس قسم کی خبروں کی بہتات ہے جن پر لوگوں کے
کمنٹس طرے کا کام کرتے ہیں۔ یعنی خود ہی خبر بناﺅ اور قاری بن کر اسے
کے حق میں لکھتے جاﺅ۔ اس صورتحال میں ہمارے قارئین تو ایک طرف ہمارا
میڈیا بھی مغربی میڈیا کی تائید کرتا نظر آتا ہے۔ بعض خبریں تو سرخی سے
ہی ٹیبل سٹوری اور گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہیں مگر ہمارے الیکٹرانک میڈیا
کے چند چمپئن اسے پرکھے بغیر اس پر تبصرے اور رائے شروع کردیتے ہیں اور
یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ناظرین اور سامعین کے ذہنوں پر یہ کس طرح اثر
انداز ہوگی اور اس کے ملکی سلامتی اور وقارپر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ |