معاصر افسانہ اور ذوقی(مقدمہ اور
انتخاب)
مرتب : ڈاکٹر شہزاد انجم ناشر :ایجوکینشل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔۶صفات:۴۸۳ قیمت
:۵۷۳ روپے
ان دنوں نئی نسل کافی متحرک و فعال ہے ،یہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس سے
بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے سے ذرا پہلے کے ادبا و شعراء کے کاموں کو
منظر عام پر لانے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہے ۔ان میں خاص طور پر ڈاکٹر
ہمایوں اشرف ،ڈاکٹر شہاب ظفرعاظمی ،ڈاکٹر مشتاق صدف ،محسن رضا رضوی ،ڈاکٹر
کوثر مظہری ،ڈاکٹرزاہدالحق اور ڈاکٹر شہزاد انجم کا نام ایک سانس میں لیا
جا سکتا ہے ۔ان کے کاموں کو بجا طور پر چیو نٹی کے عمل سے گزرنے والا کام
قرار دیا جا سکتا ہے ۔جب کہ یہ تمام نام خود اپنے آپ میں بہت مصروف زندگی
رکھتے ہیں ۔ ان میں ایک یا دو کے علاوہ تمام درس و تد ریس سے وابستہ ہیں ۔
اس کے با وجود ان کا مو جو د اور با حیات ادبا کے لیے اور ان کے کاموں کو
سمیٹنے کے لیے وقت نکالنا لائق صد ستائش ہے۔
یوں تو مشرف عالم ذوقی کا نام اور کام دونو ں ہی بڑے ہیں اور خود میں کافی
کشش رکھتے ہیں ۔جس کی طرف کسی کا بھی متوجہ ہو نا فطری ہے ۔ اس لیے ذوقی
اور ان کے فن پر کافی کام ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے ۔ اور ان کے کاموں
کے تسلسل کو دیکھتے ہوئے یہ بھی با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ان پر جتنا کام
ابھی ہو رہا ہے امتداد زمانہ کے ساتھ اس میں مزید تیز رفتار ی آئے گی ۔فی
الوقت میرے پیش نظر ڈاکٹر شہزاد انجم کی تازہ ترین کتاب معاصر افسانہ اور
ذوقی (مقدمہ اور انتخاب )ہے ۔جس میں انہوں نے مشرف عالم ذوقی کے تیرہ شا
ہکار اور نمائندہ افسا نوں کو جمع کیا ہے جو اس سے پہلے ذوقی کے افسانوں کے
مختلف مجموعو ں میں بکھرے پڑے تھے اور ان میں سے بیشتر رسائل میں شائع بھی
ہو چکے ہیں ۔مذ کورہ افسانے کچھ اس طرح ہیں مت رو سالگ رام ،بوڑھے جاگ سکتے
ہیں ،شاہی گلدان ، صدی کو الوداع کہتے ہوئے ،اصل واقعہ کی زیراکس کاپی ،لیبار
یٹری،کہانی تمہیں لکھنے والی ہے، بیٹی ،فزکس کیمسٹری الجبرا ،دادا پوتا،
حیران مت ہو سنگی مترا، واپس لوٹتے ہوئے ،غلام بخش ۔یہ تمام کہانیاں بڑی
مضبوط اور توانا ہیں جن لو گو ں کی نگاہوں سے یہ گزری ہو ں گی وہ میری اس
بات کی تصدیق کریں گے کہ اپنے مخصوص اسلوب کو بر قرار رکھتے ہوئے مختلف
تیور میں حوادث زمانہ کو بن کر ہمارے اور آپ کے سامنے پیش کرنے کا ہنر ذوقی
کو خوب آتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ دیگر مقامات پر قاری کے تصور کے مطابق
کہا نیاں آگے بڑ ھتی ہیں یا اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کہانی کا ر آگے
جو کہے گا اسے قاری بھانپ لیتا ہے لیکن اس معاملہ میں بھی ذوقی خاصی مہارت
رکھتے ہیں کہ ان کی کہانی پڑ ھتے ہوئے قاری اپنے وجود کے اندر چھناکے محسوس
کرتا ہے اور اس کے تصور سے پرے اس کی ملاقات ایک الگ قسم کے کلا ئمکس سے ہو
تی ہے ۔ ذوقی کا ٹرنگ پوائنٹ قاری کا زاویہ نظر بد لتا ہے اور پو ری طرح
قاری پر غالب ہو کر اسے آگے کا سفر طے کراتا ہے ۔ اس سلسلہ میں اس مجموعہ
میں شامل کہانیوں کے علاوہ تازہ کار کہانیوں میں بے حد نفر توں کے نام ،ٹیشو
پیپر اور باپ بیٹا کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے ۔ان کا یہ عمل قاری کو
چونکاتا ہی نہیں بلکہ غورو فکر ،اندرونی واردات اور حیرت انگیز مسرتوں سے
بھی ہم آہنگ کرتا ہے ۔
تقربیاً چار سو صفحے کی اس کتاب میں صرف ذوقی کی کہانیاں ہی لائق تذکرہ
نہیں ہیں ،اس میں ڈاکٹر شہزاد انجم کا مقدمہ بھی خا صہ کی چیز ہے ، انہوں
نے ذوقی کی افسانہ نگاری پر گفتگوکرتے ہوئے پس منظر اور پیش منظر کو پوری
طرح واضح کیا ہے ۔ ۲۷ صفحے کے اپنے مقدمہ کو مرتب کتاب نے معاصر افسانہ اور
ذوقی کا نام دیا ہے ۔ذیل میں اردو افسانہ اور یہ انتخاب ،معاصر افسانہ نگار،
مشرف عالم ذوقی کی افسانہ نگاری پر بھی بحث کی ہے ۔ جس سے اردو افسانہ
نگاری کی ابتدا سے عہد ذوقی تک کی تفہیم ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ مرتب کتاب نے
معاصر افسانہ نگاروں کی سر خی کے ذیل میں عصر حاضر کے نمائندہ افسانہ
نگاروں کے فن پر بھی اجما لا گفتگو کی ہے ،خواہ اس کا مقصد کچھ بھی ہو لیکن
انہوں نے اپنی بات ادھوری نہیں چھوڑی ہے ،اس لیے یہ مقدمہ طلبہ کے لیے بھی
یکساں سود مند ثابت ہو گا، مقدمہ کی زبان سہل اور رواں ہے ، اپنی بات کہنے
کا سلیقہ بھی لائق تعریف ہے البتہ جدیدیت کے نام پر سینہ کوبی غیر جانب دار
قار ئین کو پریشان کرے گی ۔
ذوقی کے فن سے واقفیت کی راہ میں خود ان کا مضمون ”میں اور میری کہانی “ جو
اس مجموعہ میں شامل ہے سنگ میل کا کام کرے گا ۔جس میں ذوقی نے اپنے بارے
میں بتا یا ہے کہ وہ کس طرح ادب کے میدان میں آئے ،کہانیوں کی تخلیق میں وہ
کن کن کیفیتوں سے دو چار ہوتے ہیں اور کس طرح کے مشاہدات ان کے لیے کشش کا
باعث بنتے ہیں۔ ٹائٹل ،کاغذ، کمپوزنگ،طباعت وغیرہ نہایت عمدہ اور جاذب نظر
ہیں ۔ |