امریکی معیشت بھیانک تاریخی بحران سے گذر رہی ہے ، جہاں
انہیں بیک وقت تین محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے ۔ کرونا کی انتہائی بدترین
صورتحال ، امریکا میں بدترین پر تشدد ہنگامہ آرائیاں اور معاشی بحرانوں نے
صدارتی انتخابات کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے ۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی
ہیں کہ امریکا کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوچکا ہے ، کروڑوں افراد کی بے
روزگاری ، بند صنعتیں ، عالمی منڈی میں چین کی بڑھتی قوت اور پرانی جنگوں
کا بتدریج سمیٹنا ، امریکا کی لئے اچھا پیغام نہیں لا رہا ، ان حالات کی
ذمے صدر ٹرمپ پر عاید کی جارہی ہے کہ امریکا میں انتہائی غیر سنجیدہ قیادت
کی وجہ سے امریکا تباہی کے دہانے پر ہے ، تاہم امریکا کا شیرازہ سوویت
یونین کی طرح بکھرنے کو تیار ہے تو شاید اس میں اب بھی وقت لگے گا اور
امریکا میں سنجیدہ قیادت آنے سے درپیش معاملات کو درست کرنے کے زیادہ
امکانات موجود ہیں ، یہ زمینی حقیقت ہے کہ تمام تر بحرانوں و معاشی
دشواریوں و دنیا کے کئی حصوں میں جنگوں کا حصہ بننے کے باوجود کوئی یہ نہیں
چاہے گا کہ امریکا ٹوٹ جائے ، کیونکہ اس کی ایک بنیادی وجہ امریکا کی جانب
سے دنیا بھر بھاری فنڈنگ و اقوام متحدہ کے اخراجات میں بڑا حصہ ڈالنے کے
علاوہ عالمی فوج (نیٹو) میں بڑا اہم کردار ہے ۔ اگر امریکا تقسیم ہوتا ہے
تو یقینی طور پر اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی پروگراموں و دنیا بھر میں
مختلف مشن و عالمی طاقتوں کے ساتھ ساجھے داری کو زبردست نقصان پہنچے گا اور
عالمی نقشہ بدلتے ہوئے امریکا کی تقسیم کئی عالمی قوتوں کو بھی کمزور
کرجائے گی ۔
امریکا ، ان تمام مسائل کے ساتھ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے پینٹاگون
کی پالیسیوں پر عالمی سطح پر جارحانہ طرزعمل میں کمی کرکے خود کو کمزور
ثابت نہیں کرنا چاہتا ، اس کا اندازہ افغانستان کی صورتحال سے بھی
لگایاجاسکتا ہے کہ 19برس کی لاحاصل جنگ کے بعد دوحہ معاہدے پر عمل درآمد
کروانے میں سختی کے بجائے سست روئی سے کام لیا جارہا ہے ۔ حالیہ دنوں ، عید
الفطر کے بعد ایک بار پھر افغان طالبان پر فضائی حملوں سے ان توقعات کو
توقعت مل رہی ہے کہ امریکا ، افغان سیکورٹی فورسز کی مسلح کمک کو اُس وقت
تک جاری رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہے جب تک افغانستا ن میں اُس کی مرضی کی
حکومت قائم نہیں ہوتی ، اسی طرح ایرا ن کے ساتھ محاذ آرائی میں کمی بھی اُس
وقت تک لانا نہیں چاہتا جب تک ایران ، ایٹمی پروگرام پر صدر ٹرمپ کی منشا
کے مطابق معاہدہ نہیں کرتا ، یا پھر ایران اُس وقت تک دباؤ کو برداشت کرنا
چاہتا ہے جب تک صدر ٹرمپ کی انتظامیہ صدارتی انتخاب کے بعد تبدیل ہوجائے
اور ڈیمو کرٹیک سابق صدر اوبامہ کی پالیسی کو جاری رکھنے پر اتفاق کرلیں ۔
تاہم اس وقت معاملات کا رخ چین کے ساتھ شدید تجارتی اختلافات سے بھی زیادہ
بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں ۔امریکا کی اس اَمر پر نظر تو ہے کہ ایران جوہری
ہتھیاروں اور میزائل پروگراموں کے لئے ضروری اجزاء حاصل کررہا ہے، لیکن
امریکا کے لئے اس وقت سب سے اہم مسئلہ ایران سمیت کئی ممالک کا اپنی بین
الاقوامی تجارت کے بیشتر حصے کو یوآپر مبنی نظام کو تبدیل کرنا ، بنا ہوا
ہے۔ چین کی ڈیجیٹل کرنسی کی وجہ سے ایران و کئی ترقی پزیر ممالک کو دالر کے
ذریعے لین دین سے بچنے کا موقع فراہم ہوجائے گا ، اس طرح ایران ، چین ،
بھارت اور یورپ کے کئی ممالک کو تیل فروخت کرنے میں آمدن کے ذرائع بند ہونے
کی کیفیت سے باہر نکل سکتا ہے۔ گمان کیا جارہا ہے کہ اگر ایران کی آمدنی
ڈیجٹیل کرنسی نظام کے تحت کارآمد ہوگئی تو اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری و
نئے میزائلوں کے لئے اخراجات میں کمی کا دیرینہ مسئلہ دور ہوجائے گا اور
امریکی حکام کے لئے بھی یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ گنجلگ نظام کی مکمل نگرانی
کرسکیں۔
ڈالر کی بالادستی کے خاتمے کے لئے گذشتہ کئی دہائیوں سے کوششیں کی جا رہی
تھی ، جو اب بھی مکمل کامیابی سے ہمکنار تو نہیں ہوسکی ہے تاہم اہم پیش رفت
کے طور پر چین ایک اہم سنگ میل تک آن پہنچا ہے کہ اس کا مرکزی بنک پانچ برس
سے زائد تحقیق کے بعد قومی ڈیجیٹل کرنسی میں پہلی بڑی معیشت کا اعزاز حاصل
کرچکا ہے ، چین کی اس کوشش میں امریکا کا تقابل کیا جائے تو اس وقت امریکا
ڈیجیٹل کرنسی میں چین سے کئی برس پیچھے ہے ، یہی وجہ ہے کہ چین اب عالمی
معیشت کا مرکزی جزو بننے کی تیار ہے لیکن امریکی پالیسی سازنتائج کا سامنا
کرنے سے کترا رہے ہیں ، ڈیجیٹل کرنسی کی ٓامد سے امریکا کو سب سے بڑا نقصان
یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح جن مخالف ممالک پر پابندیاں عاید کرتا رہا ہے ، وہ
قریباََ آزاد ہوجائیں گے اور ان پر امریکی غلبہ کم ہوجائے گا۔ ایرا ن،
شمالی کوریا ، روس و دیگر ممالک کو قومی سلامتی کے معاملے میں امریکی دباؤ
سے آزاد ہونے میں آسانی پیدا ہوگی ۔ امریکا کے لئے ایک مشکل اَمر یہ بھی
ہوسکتا ہے کہ منی لانڈرنگ و وائٹ کالرز مالیاتی جرائم کی روک تھام میں اسے
مزید مشکلات کا سامنا ہوگا ۔چین ڈیجیٹل کرنسی نظام کی بدولت افریقہ ، مشرق
وسطی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں اپنے رسوخ میں اضافہ کرنے کی اہلیت کو بڑھا
نے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔معاشی جبر کے خاتمے کے لئے چین ڈیجیٹل یوآن اور
مضبوط الیکڑانک پلیٹ فارمز کے امتزاج سے عالمی معیشت کو بدلنے کے لئے
امریکا کے سامنے ایک طاقت ور معاشی مملکت کی حیثیت سے مقابلہ کرنے کے لئے
تیار ہوچکا ہے ۔ ڈالر کا کئی دہائیوں سے عالمی معیشت پر غلبے کو ختم کرنااس
قدر آسان بالاآخر نہیں ہے ، امریکا اس حوالے سے ڈیجیٹل ڈالر کے اجرا سے
ڈیجیٹل یوآن سے مقابلہ کرنے کے لئے مسابقتی متبادل پالیسی کو اپنائے بغیر
عالمی اثر رسوخ میں اپنی برتری کو قائم کرسکتا ہے۔
چینی صدر شی جنپنگ کی نمایاں اقتصادی ترقی کی حکمت عملی، ''میڈ اِن چین
2025'' کا مقصد چین کو جدید ٹیکنالوجی میں ایک رہنما بنانا ہے۔ اسی کے
مطابق، جب چین کے مرکزی بینک نے 2014 میں یہ عزم کیا تھا کہ سرکاری حمایت
یافتہ ڈیجیٹل کرنسی کو اس کی مالی خودمختاری کی حفاظت اور اس کے بین
الاقوامی معاشی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی صلاحیت ہے تو، ضروری اجزاء مصنوعی
ذہانت، بلاکچین ٹیکنالوجی، اور ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارم پہلے ہی زیربحث
تھے۔ ترقی ایک ڈیجیٹل کرنسی کسی بھی طرح کی رقم ہے جو الیکٹرانک شکل میں
موجود ہے، جیسے کسی قابل بل یا سکے کے برخلاف ہے۔ آج کمرشل بینکوں میں جو
ذخائر رکھے گئے ہیں وہ پہلے سے ڈیجیٹل ہیں، لیکن وہ نجی کمپنیوں کی ذمہ
داری ہیں۔ یعنی نجی ملکیت والے بینکوں پر جب بھی کوئی جمع کنندگان چاہتا ہے،
ذخائر کو نقد میں تبدیل کرنے کا پابند ہے۔ چین کی مرکزی بینک کے ذریعہ جاری
کردہ ڈیجیٹل کرنسی ریاست کی ذمہ داری ہوگی، بالکل اسی طرح کیش۔ اگرچہ یہ
تبدیلی آخر کار صارفین کے نقطہ نظر سے معمولی نہیں معلوم ہوسکتی ہے، لیکن
یہ بنیادی ہے، کیونکہ مرکزی بینک کو ڈیجیٹل رقم پر زیادہ اختیار اور نگرانی
حاصل ہے جو یہ جاری کرتا ہے۔گذشتہ برس چین نے ڈیجیٹل کرنسی میں مہارت کی
کوششوں کو تیز کیا تو فیس بک نے لائبرا ، امریکی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، یورو
اور جاپانی ین کی مدد سے تیار کیا۔فیس بک کے سی ای او، مارک زکربرگ نے
گذشتہ اکتوبر میں کانگریس کو گواہی دی تھی، ''جب ہم ان امور پر بحث کرتے
ہیں، باقی دنیا انتظار نہیں کر رہی ہے۔'' ''چین آنے والے مہینوں میں اسی
طرح کے نظریات کو آگے بڑھانے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔'' کئی ملین
صارفین تقسیم شدہ نظام کے اندر تمام لین دین کے آزاد لیجرز کو برقرار رکھتے
ہیں اور اتفاق رائے کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہیں جس پر اتفاق ہوتا ہے
کہ کون سے لین دین درست ہیں۔ کریپٹوگرافک ٹکنالوجی کے ذریعہ یہ یقینی بنانا
ہے کہ صارفین کی شناخت اور لین دین کے ریکارڈ نجی، محفوظ اور ناقابل تبدیل
ہیں۔ لیکن اس ماڈل کی کمزوریوں — قدرتی طور پر اتار چڑھا. والی اقدار اور
سائبرٹ ٹیکس کا خطرہ b نے بٹ کوائن اور دیگر ''کریپٹو کرنسیاں'' کو قیاس
آرائی سے متعلق اثاثوں سے زیادہ بننے سے روک رکھا ہے۔
دیجیٹل یو آن کا نظام امریکی اثر رسوخ کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ، ۔
مثال کے طور پر، ایران ایک ڈیجیٹل ریال جاری کرنے کے لئے چینی ٹیکنالوجی کا
استعمال کرسکتا ہے جو چینی نظام کے ساتھ مکمل طور پر باہمی مداخلت کے قابل
ہے۔ افریقہ، خلیج، اور جنوب مشرقی ایشیاء کے وہ ممالک جو پہلے ہی چین کے
معاشی مدار میں ہیں، بیجنگ خود ڈیجیٹل یوآن کے استعمال کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
جس طرح وہ آج اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے جسمانی انفراسٹرکچر منصوبوں کے
لئے مالی اعانت فراہم کررہا ہے۔چین کے پاس توسیع پذیر ریاستی حمایت یافتہ
ڈیجیٹل کرنسی کا آغاز کرنے سے بہت کچھ حاصل ہے۔ اب تک، امریکی فیڈرل ریزرو
محتاط لیکن سست رہا ہے۔ گذشتہ موسم خزاں میں ایک تقریر میں، فیڈرل ریزرو کے
بورڈ آف گورنرز کے ممبر، لئیل برینارڈ نے ڈیجیٹل ڈالر جاری کرنے اور اس کے
انتظام سے متعلق اہم رکاوٹوں کا خاکہ پیش کیا تھا، جس میں ڈیجیٹل شکل میں
رقم جاری کرنے کے لئے فیڈ کے قانونی اختیار کو قائم کرنے کی ضرورت بھی شامل
ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی (صارف کی رازداری کی حفاظت، جعل سازی کی روک تھام، سائبر
خطرات کو کم کرنے) کے آپریشنل صلاحیت تیار کرنے اور مالیاتی پالیسی اور
مالی استحکام کیلئے اس کے مضمرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقی چیلنجز
ہیں جن کا مقابلہ ڈیجیٹل ڈالر کے اقدام سے کرنا ہوگا۔ پھر بھی بے عملی کا
نتیجہ یہ نکلے گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ، ادائیگی کا بہاؤ ایک ڈیجیٹل
ماحولیاتی نظام میں منتقل ہوجائے گا جو غیر ملکی اداروں کے ذریعہ بنایا اور
انتظام کیا جاتا ہے۔ سابق ٹریژری سکریٹری جیک لیو نے نشاندہی کی تھی کہ ''ہمیں
اس خطرے سے آگاہ ہونا چاہئے کہ پابندیوں کے زیادہ استعمال سے عالمی معیشت
میں ہماری قائدانہ حیثیت، اور خود ہی ہماری پابندیوں کی تاثیر کو نقصان
پہنچ سکتا ہے۔''
|