ھم سماجی طور پر جس پستی کا شکار ہیں اس میں یہ وبا
رحمت ھے یا عذاب اس پر سوچنا شروع کر دیں تو ھی تدبر کی باریکیوں سے آگاہ
ھوں گے، حکومت، زرداری کی ھو، نواز شریف کی، یا عمران خان کی، اس کوئی دکھ
یا رنج نہیں ہے، اصل مقام توبہ سماجی اقدار کی تباھی ھے، اس پر کوئی بھی
سنجیدہ، مذھبی، سیاسی اور فلاحی طبقہ نہ غور وفکر کر رہا ہے، نہ دعوت و
تربیت کا کام ھو رھا اور نہ ھی کوئی منصوبہ بندی ھے۔جع مذھبی طبقات دعوت کا
کام کر رہے ہیں ان کے بھی اپنے مسلکی، سیاسی اور کسی حد تک ذاتی تشہیر کے
مفادات جڑے ھیں، میں نے آلا ماشاءاللہ آج تک کسی ممبر سے یہ آواز بلند ھوتی
نہیں دیکھی کہ لوگو او مل کر یہی گلی یا محلہ گندہ ھے صفائی کر لیتے ہیں،
یا گھر گھر دعوت دیتے ہیں کہ دوستو بزرگو، یہ کوڑا کرکٹ پھینکنے سے اجتناب
کریں بڑا گناہ ھوتا ھے۔یا یہ کہ آپ کی وجہ سے دوسرے تکلیف میں ھیں، اسی طرح
سرکاری ادارے، فلاحی تنظیمیں اور جماعتیں بھی یہ کام جس میں کمیونٹی
ویلفیئر کا عنصر نکلتا ھو نہیں کریں گے تو پھر کیسے معاشرہ بدلے گا؟ کوئی
دعوتی خدمات والی تنظیم یا جماعت منافع خوروں کو یہ دعوت نہیں دیتی کہ یہ
کتنا بڑا جرم، اور انسانی ظلم ھے، کوئی ملاوٹ کرنے والوں کو دینی، اخلاقی
اور تہذیبی ترغیب نہیں دیتا کہ اس سے کتنی قومیں تباہ ھوئیں، اللہ نے
پاکستان کو اتنے وسائل، خوراک کے انبار اور دین کی دولت سے مالامال کیا ھوا
ھے مگر شکر گزاری، انسانی ھمدردی، اخلاقی اقدار اور سماجی شعور کس کے قریب
سے نہیں گزرا تو ایسے میں کورونا کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی سخت تنبیہ ھی
نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو ھے کہ ظلم، سرکشی انسانیت سوزی سے باز آجائیں
صرف اسی صورت میں عالمی معاشرہ جسے گلوبل ولیج کہا جاتا ہے رواداری کا مرکز
بن سکتا ہے۔کیمیائی، حیاتیاتی، اور ایٹمی طاقت حاصل کر کے انسانیت کی تباہی
کا ساماں تو تیار کر رہے ہیں مگر دیکھیں اس سے بڑی قوت کا مالک اللہ آخر
دیکھ رہا ہے! وہ آپ کے دروازے پر دستک دے گا، سب بھی اگر نصحیت نہ پکڑی تو
پھر تیار ھو جاؤ، پہاڑ جب روئی کے گالوں کی طرح اڑائیں گے، ھم اس وبا کے
براہ راست شاہد ھیں، آکسیجن سلنڈر بارہ سو سے پینتیس ھزار کا ھو گیا،
دوائیں، انجکشن لاکھوں میں، وینٹی لیٹر سب عوام کی پہنچ سے باہر، ملاوٹ شدہ
کیمیکل مواد کی بھرمار کسی کو بھی خوف تک نہیں، انسانی حقوق سے نفرت ھم
معاشرتی اور سماجی طور پر کہاں جا رہے ہیں، ان جانوں کا نقصان کون پورا کرے
گا، کون ھے قاتل پتا ھے کسی کو؟ ھم خود ھیں، آج انڈین اداکار شاشنت سنگھ نے
چونتیس سال کی عمر میں خود کشی کر لی کیوں؟ زندگی کے مقصد سے عاری سوچ اسے
نہ مال کی کمی تھی، نہ شہرت کی مگر پنکھے سے جھول گیا، کتنے مسلمان بھی
ایسا کرتے ھوں گے کیونکہ ھم مقصد تخلیق انسان سے ناواقف، شیطان کے مکمل
غالبے میں یا نفسیاتی طور پر انتہائی کمزور، روحانی طور پر خالی دامن، تو
کیوں نہ ھم یہ کہہ دیں کہ چلیں ھم اس کورونا میں لڑ کر کوئی ایسا معاشرہ تو
چھوڑ جائیں کہ آنے والی نسلیں بیدار اور سماجی اقدار کی پاسدار ھوں، جو بچ
جائے وہ تو سکون کے سکے، اس لئے موقع ھے کہ قربانی دینی ھے تو لڑتے لڑتے رب
کے حضور حاضر ھو جائیں، شاید ھماری معافی ھو جائے، یہ جہالت کے اندھیرے ھی
مٹا ڈالیں آپ دیکھتے نہیں کہ دنیا اس وبا کی روک تھام کے لیے ادوایات کی
تیاری میں جان کی بازی لگا رہی ہے اور ھم سازشی تھیوری گھڑنے میں سرگرم
ھیں، کوئی لمحہ نہیں گزرتا کہ ایک نیا جھوٹ، نئی منافع خوری اور ملاوٹ کی
کہانی منظر عام پر ھوتی ھے، آپ کے پاس کتنا وقت ھے کہ اپنے بچوں کی تربیت
اور روحانی ونفسیاتی پختگی کی مثال قائم کر دیں، ان کے سامنے حقائق اور سچ
پر مبنی عمل کر کے دکھائیں، ایک وصیت عام اور نصحیت خاص کا محور بن جائیں،
صحابہ کرام جیسے افراد اس احتساب کے ساتھ زندگی گزارتے تھے کہ یا لیتنی کنت
ترابا، کاش میں مٹی ھوتا مجھ سے حساب کتاب نہ ھوتا، یہ احتساب کریں گے
؟منافع خور، ذخیرہ اندوز ، ملاوٹ کرنے والے یا ھم سب بچوں کے سامنے یہ دعا
کرنے کے قابل ھیں کہ یا اللہ تو انہیں میری جیسی سوچ اور زندگی عطا فرما،
کون یہ دعا کر سکتا ہے؟ ایک لکھنے والے کا دل کتنا حساس ھے، کوئی سہیل
وڑائچ کا کالم کورونا شکار کے بعد پڑھ کر دیکھ لیں، لوگ یہ کہتے ھوں گے یہ
لوگ بڑے مضبوط ھیں ھر گز نہیں وہ انہی سماجی پستیوں سے خوف زدہ ھیں، کل کون
رہتا ہے کون جاتا ہے کیا ھم سب کو یہ معلوم ھے کہ ولقدر خیر ھی، شر ھی من
اللہ تعالیٰ، ھر اچھی اور بری تقدیر کا مالک اللہ تعالیٰ ھے یا وہ معتبر
ایمان کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک حشر ھے جہاں جواب دینا ہے اگر اس پر ایمان
پختہ ھو جائے تو اس سماجی قحط سے ھم نکل سکتے ہیں اور وہ لوگ جو خوف زدہ
ھیں وہ بھی جان لیں کہ اللہ تعالیٰ طاقت سے زیادہ آپ پر بوجھ نہیں ڈالے گا!
لیکن اس سرکشی ، ظلم، اور انسانیت کی تباہی کا سامان تیار کرنے سے باز
آجاؤ، جھوٹی انا، دولت کا نشہ اتار دو،منافع خوری اور ملاوٹ چھوڑ دو، وہ
پردہ اٹھ گیا تو معافی کی گنجائش نہیں رہتی، پردے میں ھی احتساب کر لو۔بے
شک خیر و شر کی جنگ ازل سے ہے جو ابد تک جاری رہے گی، بس خیر کے ساتھی بن
جاو، ایک کروڑ ھلاکتوں میں بس چند لاکھ باقی ھیں اور صرف پاکستان میں دو
لاکھ افراد اس وبا کا شکار ھو رہے ہیں، اگلی دستک ھم میں سے کسی کے گھر بھی
ھو سکتی ھے، اللہ تعالیٰ آسانیاں دیں اور آسانیاں بانٹنے کا شرف عطا
فرمائیں۔
|