اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر وتفکر
کرنے کا حکم دیا ہے،مگر یہ تدبر وتفکر مفسرِ اول حضور اکرم کے اقوال وافعال
کی روشنی میں ہی ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارشاد فرمایا ہے:
یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا
گیا ہے، آپ( ﷺ) اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں
(النحل44) ۔ یہ کتاب ہم نے آپ( ﷺ) پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ( ﷺ)ان
کیلئے ہر اُس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں(النحل64)۔ اللہ
تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے
مفسرِ اول حضور اکرم ( ﷺ) ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم پر یہ
ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل
کھول کھول کر بیان کریںاور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم نے اپنے اقوال
وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن
خوبی انجام دی۔ صحابۂ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے ذریعہ
حضور اکرم ( ﷺ)کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی
پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے امت مسلمہ
کوپہنچی ہے، لہذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
سورۂ اَحقاف مکیہ ہے، البتہ بعض مفسرین کے نزدیک اس کی چند آیتیں مدنی
ہیں اور وہ ’’قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ‘‘ اور
’’فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ‘‘ اور ’’وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ
بِوَالِدَیْهِ‘‘ سے لے کر ’’اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ‘‘ تک تین آیتیں
ہیں ۔( جلالین مع جمل، سورۃ الاحقاف، ۷/۱۵۳)۔اس سورت میں 4رکوع، 35آیتیں ،
644کلمے اور 2595حروف ہیں ۔( خازن، تفسیر سورۃ الاحقاف، ۴/۱۲۲)
وجہ تسمیہ:اَحقاف یمن کی اس سرزمین کا نام ہے جہاں قومِ عاد آباد تھی، اور
اس سورت کی آیت نمبر 21سے سرزمینِ اَحقاف میں رہنے والی اس قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورہِ اَحقاف‘‘ رکھا گیا۔
ہر سورۃ کا موضوع و عنوان جداجدا ہے۔آئیے یہ جانتے ہیں کہ اس سورۃ میں
ہمارے لیے کیا علم کے موتی موجود ہیں ۔اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس
میں توحید،رسالت، وحی، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور اعمال کی جزاء
ملنے
کے بارے میں کلام کیاگیا ہے اورا س سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں
۔()…ابتداء میںاللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قیامت سے متعلق دلائل دئیے گئے
،بتوں کی پوجا کرنے والے مشرکین کی مذمت بیان کی گئی ، قرآنِ مجید اور
رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کے
بارے میں کفارکے شُبہات کاجواب دیا گیا۔()…اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کو
ماننے والے ، اس کے دین پر ثابت قدم رہنے والے ،والدین کی اطاعت کرنے والے
اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے والے کی جزاء بیان کی گئی کہ یہ جنّتی ہے اور
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے ،مرنے کے
بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کی سزا بیان کی گئی کہ یہ
جہنمی ہے۔()…حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم عاد
کا واقعہ بیان کیاگیا کہ اس قوم کے لوگ اپنی طاقت و قوت کی وجہ سے سرکَش ہو
گئے اور بتوں کی پوجا کرنے پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ نے آندھی کے عذاب
کے ذریعے انہیں نیست نابُود کر دیا اور اس واقعے کو بیان کرنے سے مقصود
کفارِ مکہ کو حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی تکذیب کرنے سے ڈرانا ہے کہ اگر وہ اپنی اسی ہٹ دھرمی پر قائم
رہے تو ان کاانجام بھی قومِ عاد جیسا ہو سکتا ہے۔()…قرآنِ پاک کی آیات سن
کر ایمان قبول کرنے والی جنوں کی ایک جماعت کا ذکر کیا گیا اور یہ بتایا
گیا کہ انہوں نے اپنی قوم کو حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور انہیں بتایا کہ جو ان پر
ایمان نہیں لائے گا وہ کھلی گمراہی میں ہے۔()… اس سورت کے آخر میں مُردوں
کو دوبارہ زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل دی گئی اور یہ
بتایاگیا کہ کفار بہر صورت جہنم کا عذاب پائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تلقین کی کہ اے
حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، صبر کرو جیسے ہمت
والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کافروں کے لیے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ
کرو۔
یہ کتابِ مقدس حضور پاک کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعل راہ بنی رہے
گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ
ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن
کریم میں مذکور ہیں،ہاں ان کی تفصیلات احادیث نبویہ ؐ میں موجود ہیں مگر
بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا
ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوںاور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ
تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی
دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو
درکنار اُس کی تلاوت کیلئے بھی وقت نہیں ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے
اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان
کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
یارب:ہمیں علم نافع سے بہرہ مند عطافرما۔ہم پر حق و صداقت کے تمام راستے
،تمام واسطے واضح فرمادے ۔ہم سے اپنی رضا کا معاملہ فرما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:آپ ہمیشہ سلامت رہیں ۔اپنے حصے کا جو فلاح امت کے لیے جو کام کرسکتے
ہیں ضرور کیجیے گا۔زندگی بے حد مختصر ہے ۔ابھی جو لمحے موجود ہیں اس میں
کچھ کرلیجیے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بخشش کا ساماں ہوجائے۔ہم بھی تعلیم و
تعلم ،تحقیق و تدوین کے حوالے سے مصروف عمل ہیں ۔ان عظیم الشان کاموں کو
ترتیب دینے کے لیے خطیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے ۔جو صرف و صرف آپ ہی کے
تعاون سے ممکن ہے ۔چنانچہ آپ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اگر سمجھتے ہیں
کہ ہمارامشن فلاح امت کے لیے کارگر ہے تو ضرور ہمارے دست راست بنیں ۔آئیں
مل کر اس تعفن زدہ دنیا کو امن وسکوں ،محبت و پیار،علم و دانش کا تحفہ پیش
کرتے ہیں ۔اپنے تعاون کے لیے ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔
|