قرب قیامت کی ایک نشانی زمانے کی برق رفتاری اور اس کا
ایک کٹورے میں اس طرح سمٹ جانا ہے کہ آن کی آن میں ایک کونے کی خبر دوسرے
کونے میں پھیل جائے ۔ آج صورت حال ایسی ہی ہے کہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے
والا کوئی حادثہ لمحہ بھر میں کرہ ارض پر منشر ہوجاتا ہے اور ہر چھوٹا بڑا
اس سے پل بھر میں آگاہ ہوجاتا ہے ۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا کہ دنیا
اپنی انتہا اور ہم قیامت سے بیحد قریب ہیں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔
موت کا سلسلہ زندگی کی ابتداء اور کائنات کی تخلیق کے وقت سے جاری ہے ، ہر
دور میں زندہ لوگوں نے اپنے وقت میں مرنے والوں کو دفن کیا ہے۔ یہ سلسلہ
ابتدائے آفرینش سے آج تک بدستور قائم ہے تاہم آج کی روایت میں ایک نئے باب
کا بایں طور اضافہ ہوا کہ پہلے والے اپنے قرب وجوار کی موت سے ہی آگاہ
ہوپاتے جبکہ آج کے دور والے دنیا بھر میں مرنے والوں سے آگاہ ہوجاتے ہیں
اور برق رفتار سواریوں سے دور دواز کی تدفین میں شامل بھی ہوجاتے ہیں ۔
کل اور آج کی موت میں ایک بڑا فرق یہ بھی نظر آتا ہے کہ گزشتہ زمانے والے
ایک موت سے بھی کانپ جایا کرتے تھے جبکہ آج ہم سیکڑوں موت دیکھ کر بھی
نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔سوشل میڈیا پرلمحہ بہ لمحہ موت کی خبریں سنتے اور
پڑھتیہیں،جابجا قتل وخون کے خوفناک مناظر دیکھتے ہیں ، زندگی کواکثرلہولہان
اور موت کی ارزانی وفراوانی دیکھتے ہیں جس کی وجہ سیہمارے دل سخت اور نصیحت
قبول کرنے سے گریزاں ہیں ۔
موت ایک بہترین ناصح ہے اسی لئے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے موت کو کثرت سے
یاد کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس سے ہمارے اندر آخرت کی فکر پیدا ہو، دنیا
کی رنگینی اور عیش وعشرت والی زندگی سے بے رغبتی پیدا ہواور دل میں نیک
کاموں کا جذبہ اور برے کاموں سے بچنے کا داعیہ موجزن ہو۔ بغیر جنازہ کیبھی
قبرستان کی زیارت اس لئے مشروع ہے تاکہ ہم نصیحت حاصل کریں اور موت سے پہلے
آخرت میں نجات کا سامان مہیا کرلیں ۔ذرا ٹھہرکراور تدبر کے ساتھ قبرستان کی
زیارت کی دعا پر غور کریں تو بند آنکھوں سے محسوس ہوگا کہ ان مردہ لوگوں
میں ایک لاش ہم بھی ہیں ، ہم بھی ان لوگوں کی طرح ایک قبر میں اکیلے لیٹے
ہیں ، منکرنکیر ہم سے بھی سوال کررہے ہیں، اس قبرکی تنہائی اور اس کے فتنے
کا شکار ہم بھی ہوسکتے ہیں ۔
صحیح مسلم میں الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ تین طرح کی دعائیں وارد ہیں ۔
(۱)السَّلَامُ علَیْکُم أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ المُؤْمِنِینَ
وَالْمُسْلِمِینَ، وإنَّا، إنْ شَاء َ اللَّہُ لَلَاحِقُونَ، أَسْأَلُ
اللَّہَ لَنَا وَلَکُمُ العَافِیَۃَ(صحیح مسلم:975)
ترجمہ:سلام ہو تم پر اے صاحب گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں سے اور تحقیق ہم
اگر اﷲ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لئیعافیت
کی دعا مانگتے ہیں۔
(۲)السَّلَامُ علَی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ المُؤْمِنِینَ
وَالْمُسْلِمِینَ، وَیَرْحَمُ اللَّہُ المُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا
وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وإنَّا إنْ شَاء َ اللَّہُ بکُمْ لَلَاحِقُونَ(صحیح
مسلم:974)
ترجمہ:سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اﷲ تعالیٰ ہم میں سے
اگلے اور پچھلیدونوں پر رحم فرمائے،اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے
ملنے ہی والے ہیں۔
(۳)السَّلَامُ علَیْکُم دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ، وَأَتَاکُمْ ما
تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وإنَّا، إنْ شَاء َ اللَّہُ، بکُمْ
لَاحِقُونَ، اللَّہُمَّ، اغْفِرْ لأَہْلِ بَقِیعِ الغَرْقَدِ(صحیح
مسلم:974)
ترجمہ:اے ایمان رکھنے والی قوم کے گھرانے!تم پر اﷲ کی سلامتی ہو،کل کے بارے
میں تم سے جس کا وعدہ کیا جاتا تھا،وہ تم تک پہنچ گیا۔تم کو(قیامت) تک مہلت
دے دی گئی اور ہم بھی،اگر اﷲ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں۔اے اﷲ!بقیع
غرقد(میں رہنے ) والوں کو بخش دے۔
ان دعاوں میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ ایک تعلیم یہ دی ہے کہ میت کے حق
میں دعائے عافیت وسلامتی کی جائے اور دوسری بات یہ بتائی کہ ہم بھی تمہارے
پاس جلد ہی اﷲ کے حکم سے آنے والے ہیں ۔ کیا قبرستان کی زیارت کرتے اور یہ
دعا پڑھتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی، آخرت کی حقیقت اور موت کا یقینی آنا
معلوم نہیں ہوتا ؟ کیا ہمیں نہیں لگتا ہے کہ بظاہر اس وقت ہم قبرستان میں
کھڑے ہیں مگر ہماری حقیقت بھی ان مردوں کی سی ہے ؟
اس لئے کہتا ہوں کہ موت ایک بہترین واعظ اور عمدہ ناصح ہے ، یہ نہ لمبی
چوڑی تقریر کرتی ہے اور نہ بڑی بڑی تحریروں سے نصیحت کرتی ہے بلکہ موت کے
ایک منظر سے عبرت ونصیحت کی ہزار دستانیں بیان کرتی ہے ۔ موت کی خبرمیں،
کفن اورجنازہ کے لبادہ میں ، دفن اور قبرکیمنظر میں سوسوپندونصائح ہیں ۔
ایک لفظ میں یوں سمجھیں کہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے ایک موت میں ہزار
ہانصیحتیں پوشیدہ ہیں جبکہ ناقبت اندیش اور انجام سے بے پرواہ لوگوں کے لئے
ہزار اموات بھی کوئی نصیحت آموز نہیں ۔
موت کے دامن میں اورمیت کے جنازہ میں سراپا نصیحت ہی نصیحت ہے ۔ ایک
خوبصورت بدن، فولادی جسم وجان، شعاعوں اور کرنوں کو مٹھی میں قید کرنے والا
انسان ، اپنی خوبیوں یا خامیوں سے دنیا میں اجالا یا اندھیرا بکھیرنے والا
آدمی آج کس قدر بے حس وحرکت پڑا ہے ؟ اس کی حالت اس قدر نازک وسنگین کہ
نہانے ، اٹھانے اور کفن ودفن کے لئے دوسروں کا سہارا چاہئے ۔ظلم کرنے والا
کی خواہش تمام مگر اذیتناک سزائیں اس کی گھات میں ہیں جبکہ عدل واحسان کا
پیکر انسانی اٹھ تو گیا مگر آخرت کی نعمتیں اس کے انتظار میں ہیں ۔ کتنے
ایسے لوگ تھے جو اٹھتے بیٹھتے محفلوں میں ہوتے، مال وزر سے نہاتے اور لوگ
جھک جھک کر آداب بجالاتے مگر جاتے ہوئے اکیلا ایسا فقیر بن گیا جس کے پاس
نہ خود کا گھر، نہ لباس ، نہ دولت ، نہ حلقہ روابط و معاون ہیں جبکہ بہت سے
بوسیدہ حالوں کے حق میں اس قدر دعائے رحمت ومغفرت کہ تنگ وتاریک قبر میں
اخروی عیش وآرام سے مالامال ہے۔
اس لئے میرے مسلمان بھائیو!موت صرف کسی کے گزرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس
میں ہمارے لئے صدہا وعظ ودرس پنہاں ہیں اس سے ہم سبق حاصل کریں اور اپنے
اندر فکر آخرت پیداکرتے ہوئے اخروی نجات کا سامان مہیا کریں ۔ نصیحت حاصل
کرنے کے لئے نہ صرف دلوں کو نرم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ عبادت الہی کا
خوگراور تقوی کا پیکر بننا پڑے گا۔ عبادت وفرائض میں کوتاہی برتنے والا اور
منکرات پہ اﷲ کا خوف نہ کھانے والا کبھی موت سے نصیحت حاصل نہیں کرسکتا اور
نہ ہی اس کا دل اس قابل ہوسکتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو بہاسکے ۔ اﷲ تعالی
ہمارے دلوں کو نرم کردیاورہمیں تقوی شعاری کی راہ پر چلنے والا بنادے ۔
آمین
|