ارشاد باری تعالیٰ ہے " اے
مسلمانوں آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی
نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا ہے"۔
یہ آیت 9 ذوالحجہ 1- ھجری میں میدان عرفات میں نازل ہوئ۔ اس کے نازل ہونے
کے 3 ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کامل دین امت کو سونپ کر
رفیق اعلی سے جا ملے اور امت کو وصیت فرما گئے " میں تمہارے اندر دو ایسی
چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی
گمراہ نہیں ہوگے۔ یعنی کتاب اللہ اور اسکے نبی کی سنت"۔
معلوم ہوا کہ اسلام کتاب و سنت تک محدود ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ
و فتویٰ صرف وہی صحیع اور قابل عمل ہے جو قران و سنت کے ساتھ مدلل ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری تمام امت جنت میں داخل
ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ کسی نے پوچھا کا انکار کرنے والا کون ہے؟
آپ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے نا فرمانی
کی تو اس نے انکار کیا۔ (صحیح البخاری، الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 280)۔
عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کا ایک دن رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور
موثر نصیحت فرمائی۔ وعظ سن کر ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ایک شخص نے
کہا۔ اے اللہ کے رسول ! یہ وعظ تو ایسا ہے جیسے کسی رخصت کرنے والے کا ہوتا
ہے۔ اس لیے ہمیں خاص وصیت کیجیے۔ آپ نے فرمایا" میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ
اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے ( امیر کی جائز بات) سننا۔ میرے بعد جو تم میں
زندہ رہے گا وہ سخت اختلاف دیکھے گا۔ اس وقت تم میری سنت اور خلفائے راشدین
کا طریقہ لازم پکڑنا اس دانتوں سے مضبوط پکڑے رہنا اور (دین کے اندر) نئے
نئے کاموں سے بجنا۔ ( سنن ابی داؤد، السنہ، باب فی لزوم السنہ، حدیث 4607 ،
سنن ترمذی العلم باب ماجاء فی الاخذ بالسنہ ، اجتناب بدع ، حدیث 2681)۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ دین میں ہر بدعت گمراہی ہے۔ کوئی بدعت حسنہ
نہیں۔
عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں " ہر بدعت گمراہی ہے۔ خواہ لوگ اس نیکی سمجھیں"
(السنہ لمحمد بن نصر المروزی ص 82)۔
امام مالک نے کیا خوب فرمایا " جس شخص نے اسلام میں نیکی سمجھ کر کوئی نئی
چیز ایجاد کی تو اس نے گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت
میں خیانت سے کام لیا (نعوذ باللہ) رسول اللہ کے زمانے میں جو چیز دین نہ
تھی وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی" ( اعتصام للشاطبی 1/49)۔
حدیث کے معاملہ میں چھان بین اور احتیاط
اللہ تعالی سورہ النحل میں فرماتا ہے " اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا
تاکہ آپ لوگوں پر ان تعلیمات واضح کریں جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں تاکہ
وہ غور و فکر کریں" ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یاد رکھو مجھے قرآن مجید اور اس
ساتھ اس جیسی ایک اور چیز (سنت) دی گئی ہے" ابوداؤد حدیث 4604۔ ابن حبان نے
اسے صحیع کہا ہے۔
اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو فرض کیا ہے اسی طرح اپنے رسول کی
اطاعت کو بھی لازم قرار دیا ہے۔ " اے ایمان والوں! اللہ کی اطاعت کرو اور
رسول کی اطاعت کرو۔ اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔
معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح سنت نبوی بھی شرعی دلیل اور حجت ہے۔ مگر سنت
سے دلیل لینے سے قبل اس بات کا علم ہوتا ضروری ہے کہ آیا وہ سنت رسول سے
ثابت بھی ہے یا نہیں؟
نبی اکرم نے فرمایا: آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی
ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تو تمہارے آباؤ اجداد نے نہیں سنا ہوگا۔ لہٰذا
ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور
فتنہ میں ڈال دیں ( صحیح مسلم، المقدمہ)۔
مزید فرمایا" جو شحص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا آگ
میں بنا لے" صحیح بخاری ، العلم، باب اثم من کذب علی النبی حدیث 107-108۔
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی طرف سے بات پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پات پر جھوٹ بولنے
والے کو آگ کی وعید سنائی لہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی
طرف سے ضعیف کی بجائے صحیع اور باطل کے بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا
ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔ " اس
لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے
یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے" صحیح مسلم المقدمہ۔
امام محمد بن ادریس شافعی فرماتے ہیں:" ابن سیرین، ابراہیم نخعی، طاؤس اور
دیگر تابعین کا یہ مذہب ہے کہ حدیث صرف ثقہ سے ہی لی جائے گی اور محدثین
میں سے میں نے کسی کو اس مذہب کا مخالف نہیں پایا۔
متعدد صحابہ کرام سے یہ ثابت ہے کہ وہ حدیث کے بیان کرنے میں انتہائی
احتیاط کرتے تھے۔ ابن عدی فرماتے ہیں " صحابہ کرام کی ایک جماعت نے رسول
اللہ سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث
میں زیادتی یا کمی نہ ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان (جو شخص مجھ پر عمدا
جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے) کے مصداق قرار پائيں۔"
امام مسلم فرماتے ہیں :" جو ششخص ضعیف کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس ضعف کو
بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار اور عوام الناس کو
دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب ہوں
اور ان کی کوئی اصل نہ ہو۔ جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے
ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں۔ بہت سے لوگ ضعیف اور مجھول اسانید والی
احادیث کو جاننے کے باوجود بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان
کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت سی
کتابیں تالیف کر دی ہیں" جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا
ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا
زیادہ مناسب ہے۔ (مقدمہ صحیح مسلم 177-179)۔
امام نووی فرماتے ہیں :" محدثین اور ائمہ کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو
اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاہیے کہ رسول اللہ نے فرمایا، یا آپ نے کہا
ہے، یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے، یا منع کیا ہے، اور یہ اس لیے کا جزم کے
صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا اس کا اطلاق اسی روایت پر کرنا
چاہیے جو ثابت ہو ورنہ انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہولنے والے کی
مانند ہوگا۔ مگر اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہیں
رکھا، سوائے محققین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کیونکہ وہ علماء
بہت سی صحیع روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ نبی رحمت سے روایت کی
گئی اور بہت سی ضعیف روایات کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا" " اسے
فلاں نے روایت کیا ہے" اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔ (مقدمہ المجموع)۔
معلوم ہوا کہ صحیح اور ضعیف روایات کی پہچان اور ان میں تمیز کرنا اس لیے
بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیر ثابت شدہ حدیث کی
نسبت سے بچا جا سکے۔ علاوہ ازیں عملاً جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ
خطرناک ہے۔ مفاد پرست علماء سوء صرف فضائل ہی نہیں بلکہ عقائد و اعمال کو
بھی مردود بلکہ موضوع روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو
یہ تاثر دیتے ہیں کہ اول تو یہ احادیث بالکل صحیح ہیں اور اگر کوئی حدیث
ضعیف بھی ہوئی تو کوئی حرج نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بالاتفاق
قابل قبول ہوتی ہیے۔
اس میں شک نہیں کہ دین اسلام کا اصل محافظ اللہ تعالٰی ہے لہٰذا یہ نہیں ہو
سکتا کہ دین الہی کی کوئی بات مروی نہ ہو یا مروی تو ہو مگر اس کی تمام
روایات ضعیف ہوں۔ اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز دین الہی نہ ہو مگر
مقبول احادیث کے ذخیرے میں موجود نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں جو اصل دین ہے وہ
مقبول روایات میں موجود ہے۔ اور جو دین نہیں ہے ان روایات پر موثر جرح
موجود ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر ضروری ہے کا ضعیف حدیث سے استدلال کا دروازہ
بند رہنے دیا جائے۔ ( یہ مواد ڈاکٹر سید شفیق الرحمن کی کتاب نماز نبوی سے
لیا گیا ہے)۔
1)۔ کبار محدثین و اصولین (رحمہم اللہ عنہم) ، ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو نہ
تو احکام میں جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی فضائل اعمال میں ۔ان محدثین کے
گروہ میں
:امام یحییٰ بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابن حبان ، امام ابن
حزم ، امام ابن العربی المالکی ، امام ابو شامہ المقدسی ، امام ابن تیمیہ ،
امام شاطبی ، امام خطیب بغدادی اور علامہ شوکانی ۔۔۔
جیسی عظیم الشان ہستیاں شامل ہیں ۔
بحوالہ : علامہ محمد جمال الدین قاسمی کی قواعد التحدیث من فنون مصطلح
الحدیث ۔ صفحہ : 113
2)۔ امام یحییٰ بن معین کے متعلق ابن سید الناس کہتے ہیں کہ امام صاحب ضعیف
حدیث پر عمل کو مطلقاََ جائز نہیں سمجھتے تھے ، نہ تو احکام میں اور نہ ہی
فضائل میں ۔
بحوالہ : ابن سید الناس کی عیون الاٴثر
3)۔ امام ابوبکر ابن العربی کے متعلق علامہ سخاوی کہتے ہیں کہ امام صاحب
ضعیف حدیث پر عمل کو مطلقاََ جائز نہیں سمجھتے تھے ، نہ تو احکام میں اور
نہ ہی فضائل میں ۔
بحوالہ : علامہ سخاوی کی فتح المغیث
4)۔ امام بخاری کا اپنی صحیح میں شرط اور امام مسلم کا ضعیف راویوں پر
تشنیع کرنا اور صحیحین میں ان سے کسی روایت کی تخریج نہ کرنا بھی اس بات پر
دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں ائمہ کے نزدیک ضعیف روایت پر عمل مطلق طور پر
جائز نہیں ۔
5)۔ امام ابن حزم اپنی کتاب الملل و النحل میں فرماتے ہیں : وہ روایت جس کو
اہلِ مشرق و مغرب نے یا گروہ نے گروہ سے یا ثقہ نے ثقہ سے نقل کیا ، یہاں
تک کہ سند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تک پہنچ گئی ۔۔۔ لیکن اگر کسی
طریق میں کوئی ایسا راوی ہے جو کذب یا غفلت یا مجہول الحال ہونے کے ساتھ
ساتھ مجروح ہے ۔۔۔ تو اُس روایت کا بیان کرنا یا اُس کی تصدیق کرنا یا اس
سے کچھ اخذ کرنا حلال نہیں ہے ۔
6)۔ ضعیف روایت کو مطلق طور پر نہ لینے کا ذکر درج ذیل ائمہ و محدثین بھی
اپنی کتب میں رقم کرتے ہیں :
(1)۔ مشہور حنفی عالم محمد زاہد کوثری ۔( مقالاتِ کوثری ، ص : 45 ، 46 )
(2)۔ علامہ احمد شاکر ۔( الباعث الحثیت شرح اختصار علوم الحدیث ، ص : 86 ،
87 )
(3)۔ علامہ شوکانی ۔( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ، ص : 283 )
(4)۔ امام ابن تیمیہ ۔( قاعدہ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلۃ ، ص : 112 ، 113 )
(5)۔ علامہ ناصر الدین البانی ۔( صحیح جامع الصغیر ، ص : 51 )
دین کو صحیح طریقے سے ہم مسلمانوں تک پہنچانے والے متذکرہ بالا ائمہ و
محدثین کی کاوشوں کے خلاف اگر آج کے چند علمائے دین فتوے دے کر ضعیف احادیث
پر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔
اور جو لوگ اس قسم کے فتوؤں کو معاشرے میں رائج کرنے پر زور دیتے ہیں ۔۔۔
ان کا معاملہ بھی اللہ ہی کے سپرد کیا جانا چاہئے۔
آخر میں ایک روایت آبو موسیٰ آشعری رضی اللہ تعالی عنہ کی زبانی سن لیجیۓ۔
ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور
تین دفعہ اجازت مانگی غالبا وہ مجھے کسی مصروفیت کی وجہ سے جواب نہ دے سکے
اور میں واپس آگیا۔ عمر اپنی مصروفیات سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میں عبد
اللہ بن قیس (ابو موسٰی) کی آواز نہیں سن رہا تھا؟ ان کو اجازت دے دو کہنے
والے نے کہا کہ وہ چلے گئے ہیں۔ عمر نے ان کو بلوا بھیجا ( مجھ سے پوچھا کہ
تم واپس کیوں چلے گئے تھے؟) میں نے کہا کہ ہم کو (نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی طرف سے) یہی حکم ہے۔ ( یعنی تین دفعہ اجازت مانگنے سے اجازت نہ ملے تو
واپس چلے جاؤ) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس کی دلیل لے کر آؤ۔ میں
انصار کی مجلس میں گیا میں نے ان سے پوچھا( کہ کیا تم اس مسئلہ کی گواہی دے
سکتے ہو:) انصار نے کہا کہ اس مسئلہ کی گواہی تو وہ بھی دے گا جو ہم میں سب
سے چھوٹا ہے۔ یعنی ابو سعید خدری۔ چنانچہ میں ابو سعید کو لے گیا تو اس نے
گواہی دی کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے صحیح کہا ہے تو عمر رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں بازار میں تجارت کیا کرتا تھا ( اس وجہ سے یہ
مسئلہ مجھ سے پوشیدہ رہ گیا) بخاری کتاب البیوع باب الخروج فی التجارہ۔
غور و فکر کا مقام ہے۔ اصولاً تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابو
موسٰی جیسے جید صحابی کی بات پر بغیر تحقیق کیے ہی یقین کر لینا چاھیے تھا۔
مگر بات چونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تھی اس لیے حضرت عمر
نے بغیر تحقیق کیے اس پر یقین نہیں کیا۔
یہ تو تھی صحابہ کی احتیاط اور پھر اس کے بعد ہمیں ایسی مثالیں یہیں اسی
ویب سائٹ پر کچھ نام نہاد علماء کے تحاریر سے مل جائیں گی جہاں انہوں نے
نہایت بے باکی سے ضعیف اور موضوع روایات کو صحیح احادیث کہہ کر پیش کیا اور
جب جرح و تعدیل کے ماہریں کی تحقیق کی رو سے ان روایات کو ضعیف ثابت کیا
گیا تو بجائے اس کے کہ وہ اس کی تحقیق کرتے، اس تحقیق کو یکسر مسترد کر
دیا۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد۔
آخر میں دعا کہ اللہ ہم سب کو دین کی بہتر سمجھ عطا فرمائے اور بھٹکے ہوؤں
کو صحیع راہ دکھائے آمین! |