کورونا اور لاک ڈاؤن: اگر اکثریت گھروں سے کام کرنے لگی تو شہروں کا کیا بنے گا؟

image


ہم میں سے اکثریت کے لیے گذشتہ چند ماہ سے ہمارے گھر ہی دفاتر بنے ہوئے ہیں اور دفتر معمول کے مطابق جانے کا ابھی آئندہ کئی ماہ تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

کئی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ ان کا عملہ مستقل طور پر گھر سے کام کرے۔ ملازمین کو بھی یہ سمجھ آ گیا ہے کہ دفتر سے دور رہ کر کام کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ کئی صورتوں میں قابلِ ترجیح بھی ہے۔

کام کرنے کا نیا انداز یا طریقہ کار اپنایا جانے لگا ہے۔ کام کرنے کے اس نئے طریقہ کار یا انداز سے ہماری گھریلو زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور ان اثرات کے دائرے کو وسیع کر لیا جائے تو ہمارے قصبوں اور شہروں پر بھی اثر پڑے گا۔

انگلینڈ اور ویلز میں تقریباً ایک چوتھائی ’آفس سپیس‘ یا دفاتر کے اندر آنے والا حصہ یا رقبہ مرکزی لندن میں ہے۔

ان تبدیلیوں کے مکمل مضمرات کو سمجھنے کے لیے ہم نے شہری زندگی کے چار ماہرین سے بات کی جو خود بھی گھر سے کام کر رہے ہیں۔

کیا شہر کے مراکز خالی ہو جائیں گے
پال چیشائر، اقتصادی جغرافیہ کے پروفیسر، لندن سکول آف اکنامکس:


میرے خیال میں ہم دفاتر واپس جانے لگیں گے لیکن اس طرح نہیں جس طرح پہلے جاتے تھے۔

لوگ اس وقت زیادہ کام کرتے ہیں جب وہ ساتھ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے قریبی رابطے میں ہوتے ہیں۔ اس بارے میں 20 برس پر محیط ایک انتہائی قابلِ اعتماد تحقیق موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتنا اہم ہے۔

بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آپ دوسرے لوگوں کے بغیر نہیں کر سکتے انسان بنیادی طور پر ایک سماجی جانور ہے۔
 

image


گلولڈ سمتھ پروفیسر آف سوشیالوجی:
میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔ زماں و مکاں اور سماجی زندگی کے رشتے کا از سر نو تعین اور وضحات کی جا رہی ہے اور ہم ایک موڑ پر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کچھ بنیادی تبدیلیاں دیکھیں۔ کچھ چیزیں دوبارہ واپس نہ آئیں۔

آوڈ بیکولے لاک، رائل ٹاؤن پلانگ انسٹی ٹیوٹ میں پالیسی اور تحقیق کے سربراہ:
یہ درست ہے کہ کچھ کمپنیوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملازمین یا عملے کو ہمیشہ گھر سے کام کرنے کی اجازت دے دیں۔ ٹوئٹر نے ایسا کہا ہے۔

فیس بک نے بھی ایسا کہا ہے۔ بارکلے بینک کے سربراہ نے کہا ہے کہ سات ہزار افراد کو دفتر بلانا شاید ماضی کی بات بن جائے۔

لندن میں دفتر جانے کا تجربہ کسی دوسرے شہر میں دفتر جانے سے بالکل مختلف ہے۔ دفتروں کا حجم کم ہونے سے چھوٹے، درمیانے اور بڑے شہروں پر اثر مختلف انداز میں پڑے گا۔

لیس بیک:
شہروں کا خالی ہونے کا سلسلہ کافی عرصہ پہلے شروع ہو گیا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ بہت سے کاروبار شہر کے مرکزی حصوں یا سٹی سینٹرز میں واپس نہ آئیں اور سوچیں کہ یہ بہت 'رسکی' کام ہے اور ہو سکتا ہے کہ دیگر معاشی ترجیحات کی وجہ سے لوگ یہ سوال پوچھنے لگیں کہ اتنے بڑے دفاتر پر اتنا پیسہ خرچ کیوں کیا جائے۔

میرے خیال میں گھروں سے کام کرنے کے بہت وسیع اثرات ہوں گے۔ اس سے گھروں پر دباؤ بڑھے گا۔ اس سے گھروں میں صنفی رشتوں پر اثر پڑے گا، اولاد کو پالنے اور کام کی ذمہ داریاں زیادہ مبہم ہو جائیں گی اور ان سے تناؤ بھی بڑھے گا۔

آوڈ بیکولے لاک:
میرے خیال میں مختلف آبادیوں میں زیادہ تنوع دیکھنے میں آئے گا۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنا چاہیں گے تو زیادہ لوگ باہر کھانا کھائیں گے اور سماجی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔

گھروں سے کام کرنے کا مطلب یہ ہو گا شاید کسی کسی دن لوگوں کو مقامی آبادیوں میں قائم دفاتر جانا پڑے۔ ان آبادیوں میں اب زیادہ ترقی ہو گی۔

بڑے شہروں پر اس کا اثر بالکل برعکس ہو گا جہاں یہ سوال پیدا ہو گا کہ خالی دفاتر کو کسی مصرف میں لایا جائے۔ اس کے لیے مختلف طریقہ ہو سکتے ہیں ایک تو یہ ہے کہ انھیں رہائشی مصرف میں لایا جائے لیکن یہ طریقہ ماضی میں کامیاب نہیں رہا۔

ہو سکتا ہے کہ ہمیں کانفرنس ہالز کی زیادہ ضرورت پڑنے لگے۔
 

پال چیشائر:
جب زیادہ لوگ گھروں سے کام کرنے لگیں گے تو بڑے گھروں کی مانگ بڑھ جائے گی۔ آپ کو کام کرنے کی جگہ چاہیے ہوگی جس سے گھروں میں باقی حصہ تنگ ہو جائے گا۔

ہو سکتا ہے آپ کو ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ اپنے ہیڈکواٹر کسی میٹنگ یا اجلاس کے لیے جانا پڑے۔ لہٰذا آپ سستی رہائش کی تلاش میں زیادہ فاصلہ طے کریں گے اور شہروں کے مرکزی علاقوں سے اور زیادہ دور منتقل ہو جائیں گے۔

دوسری طرف ہو سکتا ہے کچھ ایسے لوگ ہوں جن کی دفاتر میں موجودگی بہت ضروری ہو۔ جو مجتمع اور ایک دوسرے سے زیادہ رابطے میں رہیں اور وہ شہر کے مرکزی علاقوں میں منتقل ہو جانے کی ضرورت محسوس کریں۔

غالباً آپ کو دفتری میز دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر استعمال کرنی پڑے، ایسی خصوصی جگہوں پر جہاں لوگ کبھی کبھار زیادہ بہتر آئی ٹی سہولیات کے لیے یا گھروں میں کچھ دیر کے لیے بچوں سے دور رہنے کے لیے جانا پسند کریں۔

چھوٹے قصبوں میں 'ہاٹ ڈسیکنگ' یا ایسی دفتری میزیں جو کئی لوگ استعمال کریں، ان کے لیے جگہیں بنائی جانا شروع ہو جائیں گی۔

ہمیں زیادہ جگہ کی ضرورت پڑے گی۔ ایسی جگہوں کی ضرورت پڑے گی جو سٹشینوں کے قریب ہوں تاکہ سٹی سینٹر تک جانا آسان ہو۔

آپ کو مرکزی لندن سے 45 منٹ کے فاصلے پر کھلے علاقوں میں لاکھوں نئے گھر تعمیر کرنا پڑیں گے کیونکہ بہت سا کھلا علاقہ موجود ہے۔

لندن آنے والے لوگوں کے لیے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے علاقے، پیٹربرو، یارک اور سمرسیٹ کافی دور ہیں۔ لوگ میلوں دور اس لیے رہتے ہیں کہ وہ زیادہ زمین اور زیادہ جگہ حاصل کر سکیں۔ اس رجحان میں اضافہ ہوگا۔

اس میں اُس صورت میں زیادہ تیزی آئے گی اگر ہم زیادہ زمین دستیاب نہیں کر سکے جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہو اور جہاں سے کام کرنے کی جگہ تک پہنچنا آسان ہو۔
 

image


ٹرانسپورٹ اور ماحول کا کیا ہوگا؟
مارگریٹ بل، ٹرانسپورٹ اور ماحول کے پروفیسر، نیوکاسل یونیورسٹی:

نیوکاسل میں ایک تحقیق کے مطابق 50 آپ جتنی دور جائیں گے کاربن کا اخراج اتنا ہی اخراج زیادہ ہو گا۔

پال چیشائر:
کھلی جگہیں رکھنے سے ایک مسئلہ یہ پیش آ رہا ہے کہ لوگوں کو زیادہ دور جانا پڑتا ہے۔

مارگریٹ بیل:
مجھے یہ تشویش ہے کہ لوگ زیادہ گاڑیاں خریدیں گے اور زیادہ استعمال کریں گے۔ ہمیں جو چیز کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سائکلیں استعمال کرنے کی طرف راغب کیا جائے اور لوگ اپنے کام کرنے کی جگہوں کے قریب منتقل ہوں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں کے قریب ہی کام کریں۔

پال چیشائر:
انگلینڈ میں گھروں میں توانائی کا استعمال بہت مؤثر نہیں ہے۔ گھروں میں زیادہ وقت گزارنے سے کاربن کا زیادہ اخراج ہو گا کیوں کہ جدید دفتروں کے برعکس گھروں میں توانائی کا استعمال اتنے بہتر طریقے سے نہیں ہوتا۔

مارگریٹ بیل:
لیسٹر میں کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ گھر پر کام کرنے سے آپ 75 فیصد زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں اس کے مقابلے میں جو آپ دفتر نہ جا کر بچاتے ہیں۔ گھروں پر کام کرنے کا 'کاربن فٹ پرنٹ' یا اخراج زیادہ ہوتا ہے کیونکہ گھروں پر رہ کر آپ کو گھروں کو زیادہ گرم رکھنے اور زیادہ گیس اور بجلی کی ضرورت پڑتی ہے اس سے کہیں کم توانائی آپ اپنی گاڑی میں دفتر جا کر صرف کرتے ہیں۔

لہٰذا دانشمندی کی بات یہ ہو گی کہ مقامی آبادیوں ہی میں ایسی جگہیں بنائی جائیں جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر استعمال کر سکیں۔
 

image


شہروں کا کیا ہوگا؟
لیس بیک:

تمام شہر اہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ میل ملاقات کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ جہاں سے تبدیلی آتی ہے۔ یہ تبدیلی اور باہمی ربط جو مختلف رنگ، نسل اور ثقافتوں کے درمیان ہوتا ہے وہ خصوصیات شہروں کی ہوتی ہیں اور وہ کسی مضافتی علاقے یا قصبے کی نہیں ہو سکتیں۔

بیکولے لاک:
ہم میں سے ہر کوئی لاک ڈاؤن سے گزرا ہوگا اور اس سے جو تبدیلیاں آئی ہیں اور ان کے نتیجے میں جو عادات بنی ہیں اور اب کسی رائے پر پہنچ گئے ہوں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے۔

شہروں کی منصوبہ بندی کرنے والے کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں مالی مشکلات ہوں گی۔

پال چیشائر:
دوسرا مسئلہ لوگوں میں پائے جانے والے خوف کا ہے، لوگ اس خوف سے نکلنے میں کتنی دیر لیتے ہیں کہ ہجوم یا زیادہ لوگوں کی موجودگی میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ میرے خیال میں یہ خوف ویکسین کے دستیاب ہو جانے سے کم ہو جائے گا۔

ایسا ہونے نے کے بعد دفاتر بھی زور دیں گے اور جو کچھ ہم سٹی سینٹر میں چاہتے ہیں اس کا اثر پڑے گا۔ ہوسکتا ہے اس میں کافی وقت لگے۔


Partner Content: BBC Urdu

YOU MAY ALSO LIKE: