رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اللہ تعالیٰ اپنے اُس دیوانے، فرزانے، عاشق، جانباز.بے گھر، بے در اور
مسافر بندے کے درجات بلند فرمائے. جسے ساٹھ اسلامی ملکوں کے ہوتے ہوئے زمین
پر دو گز کی قبر نہ مل سکی. یوں لگتا ہے کہ شیخ اُسامہ شہید(رح) مسکرا کر
مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں :
پھول تربت پر مری ڈالو گے کیا
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی
شیخ اُسامہ(رح) راہِ جہاد کے .شہزادے تھے. معلوم نہیں شہادت کے بعد چہرے
اور جسم پر’’ انوارات‘‘ کا کیا عالَم ہو گا کہ دشمن بھی تصویریں چھپانے پر
مجبور ہے. ایک جھوٹی تصویر تو اخبارات اور میڈیا پر چل رہی ہے. وہ شیخ کی
تصویر کہاں ہے؟. کسی’’نیٹ باز‘‘ نے کمپیوٹر پر بنالی ہے. اُبامہ کا کہنا ہے
کہ تصویریں سامنے آگئیں تو لوگوں میں تشدّد یعنی جہاد کا جذبہ پھیل جائے گا.
ارے اتنا بڑا شہید تھا. قربانیوں کا خوگر شادی کے بعد تو اُس کا حسن و جمال
اور زیادہ غضب ڈھا رہا ہوگا. ہاں، ہاں پھولوں کی طرح نکھر گیا ہوگا تبھی تو
تصویروں کو چھپایا جارہا ہے.
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
بلندی چاہیے انسان کی فطرت میں پوشیدہ
کوئی ہو بھیس، لیکن شانِ سلطانی نہیں جاتی
ایک زمانے اُن کو قریب سے دیکھا تھا.نائن الیون کے بعد نہ کوئی ملاقات ہوئی
نہ رابطہ.مگر اﷲ تعالیٰ کے نام کی محبت بھی عجیب چیز ہے. تھوڑی تھوڑی دیر
بعد شیخ کا مسکراتا ہوا سراپا سامنے آجاتا ہے. آنسو تو کچھ تھم گئے ہیں مگر
دل میں اب بھی طوفان کی موجیں بار بار اٹھتی ہیں.
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
شیخ اُسامہ کو شعر و شاعری کا لطیف ذوق تھا. اشعار سنتے وقت جھوم اٹھتے تھے.
عاشق مزاج آدمی تھے. مجنوں سے دو قدم آگے نکل گئے. مجنوں نے لیلیٰ کے لئے
گھر چھوڑا تھا. شیخ اﷲ تعالیٰ کے لئے جان سے بھی گزر گئے. آج اُن کا تذکرہ
کرتے ہوئے اشعار اُبل اُبل کر سامنے آرہے ہیں
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
نہیں معلوم کس عالم میں حُسن یار دیکھا تھا
کوئی عالم ہو، لیکن دل کی حیرانی نہیں جاتی
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر ، مٹے جاتے گِر گِر کر
حضور شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
شیخ اُسامہ شہید(رح) غیرتِ ایمانی کا دریا تھا. اور دریا بالآخر سمندر ہی
میں اُتر جاتے ہیں. دشمنوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ولی کو سمندر کے حوالے کرتے
وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اب اس پاک جسم کی برکت سے سمندر کی وسعتیں اُن پر
تنگ ہو جائیں گی. شیخ (رح) نے اپنے سفر کا آغاز ’’صحرا‘‘ سے کیا. اور سفر
کی آخری منزل ’’سمندر‘ ‘ کو بنایا. اندازہ لگائیں کہ کتنا بڑا آدمی تھا.
صحرا سے سمندر تک جس کی عزیمتوں کی داستان بکھری پڑی ہے.
بڑی مشکل سے پیدا اک وہ آدم زاد ہوتا ہے
جو خود آزاد جس کا ہر نَفَس آزاد ہوتا ہے
میرا علم تو بہت ناقص ہے. پھر بھی عرض کر رہا ہوں کہ شیخ اُسامہ شہید(رح)
کی شکل و صورت صحابی رسول حضرت سیدنا سنان بن سلمہ رضی اﷲ عنہ سے ملتی جلتی
تھی. حضرت سنان(رض) پشاور کے علاقے’’چغرمٹی‘‘ میں شہید ہوئے. اور شیخ
اُسامہ’’ایبٹ آباد‘‘ میں شہید ہوئے. زمین اﷲ تعالیٰ کی ہے. حضرت سنان(رض)
بھی عرب سے تشریف لائے تھے. مسلمان دنیا میں ہر جگہ جا سکتا ہے. ہمارے
حکمران معلوم نہیں کیوں شرمندہ اور پریشان ہیں. اگر امریکہ اُن سے کہتا ہے
کہ شیخ اُسامہ پاکستان میں کیوں روپوش تھے. تو یہ جواب میں ہاتھ جوڑ کر کہہ
سکتے ہیں کہ جناب!ہم پاکستان کے عارضی حکمران ہیں، مالک تو نہیں. یہ تو
مسلمانوں کا مُلک ہے. پرویز مشرف نے اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھا آج وہ ایک
قدم بھی یہاں نہیں رکھ سکتا. ہم اپنے ملک کو نہ ڈرون حملوں سے بچا سکتے
ہیں، نہ ہیلی کاپٹروں کے حملے سے. ہم تو بس چند دن کے لئے ہیں. مال کے
انگارے، بددعاؤں کے انبار اور ظلم کے پہاڑ جمع کرنے کے لئے. باقی ہمارا
اور کیا کام ہے. آپ پاکستان کی عوام کو سزا دیجئے. اور یہ سزا آپ دس سالوں
سے ویسے ہی دے رہے ہیں. یہی مسلمان پاکستانی اپنے گھروں میں صرف مجاہدین کو
پناہ ہی نہیں دیتے. بلکہ ان کی مائیں تو بڑے ناز کے ساتھ مجاہدین کو پالتی
ہیں. کتنا آسان سا جواب ہے. حکمران بیچارے خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں.
پریشان تو اُن مسلمانوں کو ہونا چاہئے جن سے اُن کا پیارا اسلامی بھائی چھن
گیا ہے. اور وہ غم کی وجہ سے سکتے کے عالم میں ہیں. اُس دن ایک صاحب کہہ
رہے تھے کہ اسلام دشمن عناصر کا جشن دیکھ کر دل پھٹ رہا ہے. بندہ نے اس جشن
کی تفصیلات معلوم کیں تو غمزدہ دل خوشی سے اُچھلنے لگا کہ سبحان اﷲ ایک
مسلمان کی اتنی اہمیت، اتنی قوت اور اتنی عظمت کہ وہ اکیلا اتنے سارے
کافروں کے اعصاب پر سوار تھا. پھر اسلام اور جہاد کی عظمت دیکھئے کہ دس سال
کی جنگ میں دنیا کے سینتیس﴿۷۳﴾ طاقتور ملکوں کو اب جا کر پہلی خوشی نصیب
ہوئی ہے. معلوم ہوا کہ وہ شکست اور مایوسی کے اندھیروں میں پڑے چلاّ رہے
تھے. روزآنہ لاشوں کے تابوت. ہزاروں کی تعداد میں زخمی فوجی. اربوں کھربوں
ڈالر کے خسارے. فوجیوں کے دردناک خطوط کہ ہم موت کی ریل گاڑی میں بند ہو
چکے ہیں. ہر چند ماہ بعد جرنیلوں کی تبدیلی. اتنی طویل جنگ مگر فتح کا دور
دور تک نام و نشان نہیں. سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم. ہے نا اسلام کی
طاقت؟. ہے نا جہاد کی کرامت؟. چند نہتے مجاہدین نے سپر پاور کہلانے والوں
کو دن کے تارے دکھا دیئے. اب یہ سارے کافر مل کر یہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ
پاکستان کو ختم کر دیا جائے. انڈیا کا پاکستان پر قبضہ ہو جائے. مگر یہ
تدبیر بھی الٹی پڑے گی اور انشاء اﷲ اس تدبیر کے نتیجے میں انڈیا بھی اندر
سے پھٹ جائے گا. اور جہاد کا دائرہ وسط ایشیا کے راستے یورپ تک. اور کشمیر
اور پنجاب کے راستے پورے انڈیا تک پھیل جائے گا. بات یہ چل رہی تھی کہ کفر
کے لئے ہر طرف مایوسی ہی مایوسی تھی. ایسے میں اُن کو شیخ اُسامہ کی شہادت
کی خبر ملی تو اب خوشی سے ناچ رہے ہیں. مگر خود اُن کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ
کام ختم نہیں ہوا اور یہ ایک وقتی کامیابی ہے. اب اُن کی کوشش ہے کہ اس
کامیابی کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کریں. ایک طرف تو جھوٹی خبروں کے
انبار ہیں. مسلمان بھی عجیب ہیں کہ وہ کافروں کی خبروں کا اعتبار کرتے ہیں.
اﷲ کے بندو! کیا کبھی خفیہ ادارے بھی سچ بولتے ہیں؟. انٹرنیٹ کے کھلاڑی
ٹوئٹر، فیس بک اور دوسری ویب سائٹوں پر بیٹھے افواہوں کی مکھیاں مار رہے
ہیں. حالانکہ اس وقت تقریباً تمام خبریں جھوٹی چل رہی ہیں. امریکہ کی کوشش
ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی کا جادو پھر لوگوں کے دماغوں پر مسلّط کر ے. یہ
ٹیکنالوجی دس سال تک کیوں’’اندھی کتیا‘‘ بنی ہوئی تھی؟. اگر یہ ٹیکنالوجی
اتنی ہی طاقتور ہوتی جتنی کہ بتائی جاتی ہے تو پھر. مجاہدین ان کے قافلوں
اور چھاؤنیوں پر حملہ ہی نہ کر سکتے. جو اپنے گھر میں کچھ بولتا فوراً
پکڑا جاتا. حالانکہ مجاہدین گلا کھول کر بولتے ہیں. بے تحاشا فون استعمال
کرتے ہیں. آپس میں ایک دوسرے کو ہنس ہنس کر کاروائیوں کے حالات سناتے ہیں.
اور بعد میں خوب شور شرابے کے ماحول میں قہوہ پیتے ہیں. ہم مسلمانوں کی
شروع سے کمزوری وہ’’مخبر‘‘ہیں جو مال کی لالچ میں اپنا ایمان اور ضمیر بیچ
دیتے ہیں. میں یقین سے کہتا ہوں کہ شیخ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہو گا.
اور بس. اب کوئی حالات بتانے والا تو ہے نہیں، ا س لئے ہر کوئی منہ بھر کر
جھوٹ بول رہا ہے. حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو ایک بڑی دینی نقصان پہنچا ہے
اُن کو چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں. زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا
اہتمام کریں. مسلمانوں کی جو جہادی قیادت باقی ہے اُس کی حفاظت کے لئے
دعائیں کریں. اپنے دل میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق پیدا کریں. اور اپنے
دل کو مضبوط رکھیں کہ کل اگر اس سے بھی کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو ہم انشاء
اﷲ ثابت قدم رہیں گے. اسی طرح مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی جہادی یلغا ر کا
رخ کفار کی طرف رکھیں. اور اسلامی ممالک خواہ وہ نام کے ہی اسلامی ممالک
کیوں نہ ہوں اُن کو میدان جنگ نہ بنائیں. اگر تمام مجاہدین اپنا مکمل رخ
کفار کی طرف پھیر لیں اور اپنی توانائیاں نام کے مسلمانوں کے خلاف ختم نہ
کریں تو انشا ء اﷲ غلبہ اسلام کی منزل بہت قریب آسکتی ہے. دشمنا ن اسلام کی
کوشش ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں. دنیا دار مسلمان یعنی حکمران اُن کے جال
میں پھنس چکے ہیں. کم از کم دیندار مجاہدین کو تو ان کی سازش سے ہوشیار
رہنا چاہئے. لوگ کہتے ہیں کہ شیخ اُسامہ شہید(رح) کا نام لینا بھی جُرم ہے.
اگر تم اسی طرح اُن کے لئے محبت اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے رہے تو بہت
جلد تمہارا وقت بھی آجائے گا. ہم عرض کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا
وقت کل کی بجائے آج آجائے. شیخ اُسامہ شہید(رح) کا انجام دیکھ کر تو منہ
میں پانی آجاتا ہے. اور دل رشک سے بھر جاتا ہے. اﷲ تعالیٰ کے راستے میں کٹ
مرنا . سبحان اﷲ. اور پھر گرمی کے اس موسم میں ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں
اترجانا سبحان اﷲ!. شیخ کی شہادت تو بزمِ عشق میں نغمۂ شوق کی طرح ہے. جس
نے لاکھوں سینوں میں شہادت کا شوق بیدار کر دیا ہے.
دل نے کچھ ایسی دُھن میں آج نغمۂ شوق گا دیا
عشق بھی جھوم جھوم اٹھا، حُسن بھی مسکرا دیا
مجھ کو خدائے عشق نے جو بھی دیا بجھا دیا
اُتنی ہی تاب ضبط دی، جتنا کہ غم سوا دیا
آتش تر نے ساقیا! کچھ نہ مجھے مزا دیا
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے تو نے یہ کیا پلا دیا
جذب جنوں نے آج تو گل ہی نیا کھِلا دیا
خود وہ گلے لپٹ گئے عشق نے واسطا دیا
سلام اُن مسلمانوں پر جنہوں نے علاقہ پرستی اور قوم پرستی کے اس دور میں
ہجرت اور جہاد کی شمعوں کو روشن کیا.ان دیوانوں نے اپنا سب کچھ کھو کر
اسلام کی عظمت اور قرآن کی صداقت کی گواہی دی. نہ ہجرت آسان ہے اور نہ
روپوشی.نہ جہاد آسان ہے اور نہ حق گوئی. مگر اﷲ تعالیٰ کے سچے بندے ہر
زمانے میں موجود رہتے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ کہاں ہیں قرآن پر عمل
کرنے والے؟. وہ دیکھو! سمندر کی تہہ میں سکون کے ساتھ لیٹا ایک خوبصورت
شہزادہ.جس کی قربانی نے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کر دیں. آج ہر کوئی
مالداری کے خواب دیکھتا ہے. مگر اُس نے خوابوں جیسی مالداری کو پاؤں کی
ٹھوکر پہ رکھا. اور اﷲ تعالیٰ کے راستے کا فقر اختیار کیا. وہ دیکھو! اُس
کا جسم سمندر کی زمین پر سجدے کر رہا ہے. اور اُس رب کا شکر ادا کر رہا ہے
جس نے اُس کی محنتوں کو قبول کر کے اُسے شہادت کا تاج پہنا دیا.
سلام اے بَطلِ عزیمت. سلام اے شیر اسلام!
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا |