رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا
الْمُتَّقِیْنَ ﴿الزخرف ۷۶﴾
ترجمہ: جتنے دوست ہیں وہ قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے اُن
کے جو اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں:
’’یعنی اُس دن دوست سے دوست بھاگے گا کہ اس کی وجہ سے کہیں میں پکڑا نہ
جاؤں. دنیا کی سب دوستیاں اور محبتیں منقطع ہو جائیں گی. آدمی پچھتائے گا
کہ فلاں شریر آدمی سے دوستی کیوں کی تھی جو اُس کے اُکسانے سے آج مصیبت میں
گرفتار ہونا پڑا. اُس دن بہت گرمجوشی سے محبت کرنیوالے اپنے محبوب کی صورت
دیکھنے سے بیزار ہوں گے، البتہ جن کی محبت اور دوستی اﷲ تعالیٰ کے واسطے
تھی اور اﷲ تعالیٰ کے خوف پر مبنی تھی وہ کام آئے گی‘‘﴿تسھیل عثمانی﴾
’’دوستی‘‘ بہت بڑی چیز ہے. یہ انسان کو ’’صدیق‘‘ بھی بنا دیتی ہے اور ’’شیطان‘‘
بھی. آج طرح طرح کی دوستیوں کا رواج ہے. گپ شپ والی دوستی، حرام کھانے پینے
والی دوستی، بدمعاشی اور بے حیائی والی دوستی، غیبت، جھوٹ اور بک بک والی
دوستی، موبائل دوستی، قلمی دوستی وغیرہ وغیرہ.
اﷲ تعالیٰ جس سے ناراض ہوتے ہیں وہی اس طرح کی غلط اور نقصان دہ دوستیوں
میں مبتلا ہو جاتا ہے. سب سے خطرناک تو کفار ومنافقین کے ساتھ دوستی ہے.
قرآن پاک نے اُس دوستی کے نقصانات اور انجام کو کھول کھول کر بیان فرمایا
ہے. اﷲ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ بھی قرآن پاک سے روشنی
لیں. کتنے درد کا مقام ہے کہ یہ مسلمان ہو کر اسلام کے دشمنوں سے دوستی
رکھتے ہیں، اُن کو اپنی خدمات بیچتے ہیں، اُن کے ہاتھوں اپنے مُلک کے اڈے
فروخت کرتے ہیں. اور اُن کی عسکری مدد کرتے ہیں. استغفراﷲ، استغفرا ﷲ.
معلوم نہیں ان کا دل کیسے گوارہ کر لیتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر بمباری کرنے
والے طیاروں میں تیل بھرتے ہیں. اور کافروں کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ
وہ مسلمانوں کا قتل عام کریں.
مجھے تو سُن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے. کبھی کبھی ان حکمرانوں کی یہ
حالت دیکھ کر ان پر ترس بھی آتا ہے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت اور ذلّت میں
مبتلا ہیں. صبح شام کافروں کے جوتے اٹھاتے ہیں، ان کے سامنے اپنی صفائیاں
پیش کرتے ہیں اور قدم قدم پر اُن کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں. نائن
الیون کے بعد جب پاکستان کے حکمرانوں نے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو
افغانستان پر حملے کے لئے لاجسٹک سپورٹ دینے کا اعلان کیا تو بہت سے
مسلمانوں نے ان حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کی. مگر اُن کے دلوں پر خوف
سوار تھا کہ امریکہ ہمارا آملیٹ بنا دے گا. حکمرانوں میں سے بعض نظریاتی
طور پر مسلمانوں کے دشمن بھی ہوتے ہیں. وہ ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ
اٹھاتے ہیں. ابھی آج کل پھر یہ تمام ٹولے سرگرم ہو گئے ہیں. شیخ اُسامہ
شہید(رح) کے واقعہ کو سامنے رکھ کر پورے ملک میں آپریشن کی تیاریاں کی
جارہی ہیں. ماضی میں ایسے سینکڑوں آپریشن ہو چکے نہ ہی امریکہ ان سے خوش
ہوا اور نہ ہی یہ جہاد کو ختم کر سکے. جہاد کی حفاظت قرآن پا ک کر رہا ہے
اور قرآن پاک کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے. مجاہدین موجودہ
حالات میں ہرگز نہ گھبرائیں جو بھی اُن کو ڈرائے یا ستائے تو فوراً’’حسبنا
اﷲ‘‘ کا نعرہ بلند کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے. حسبنا اﷲ ونعم
الوکیل. دنیا میں کسی کو اچھا لگے یا بُرا لگے ہم تو صرف اُن ہی لوگوں سے
محبت کر سکتے ہیں جن سے محبت رکھنے کا حکم اﷲ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے. ہم
اپنی جان بچانے کے لئے کافروں اور منافقوں سے یاری نہیں کر سکتے. جو بھی
اسلام کا دشمن ہے ہم اُس کے دشمن ہیں. جو بھی قرآن کا دشمن ہے ہم اُس کے
دشمن ہیں. جو بھی حضرت آقا مدنیﷺ کا دشمن ہے ہم اُس کے دشمن ہیں. اور جو
اسلام، قرآن، جہاد اور آقا مدنیﷺ کا یار ہے وہ ہمارا بھی یار ہے. اور ہمیں
اُس سے دوستی رکھنے پر فخر ہے.
ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے. ہمارا عقیدہ ہے کہ رزق کے دانے مقرر
ہیں. ہمارا عقیدہ ہے کہ عزت و ذلت دینے کا اختیار صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے
پاس ہے. ہمارا عقیدہ ہے کہ کامیابی ایمان کی حفاظت میں ہے نہ کہ جان کی
حفاظت میں. اور ہمارا عقید ہ ہے کہ ساری دنیا کا کفر مل کر بھی اسلام اور
مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتا. ہم آخری اُمت ہیں اور ہمارے بعد قیامت ہے.
ہم اُس وقت ختم ہوں گے جب اﷲ تعالیٰ اس زمین و آسمان اور کائنات کو ختم
کرنے کا فیصلہ فرمائے گا. ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے. اور قیامت سے پہلے
اسلا م نے دوبارہ ساری دنیا پر غالب ہونا ہے. اور دنیا کے ہر کچے اور پکے
گھر میں داخل ہونا ہے. خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج اسلام کے لئے قربانیاں دے
رہے ہیں. بات دوستی کی چل رہی تھی. حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ. اسلام
قبول کرنے سے پہلے حضرت آقا مدنیﷺ کے دوست تھے. دیکھا آپ نے کہ اچھی دوستی
کتنے کام آتی ہے؟. جس شخص پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے وہ ہمیشہ اچھے
لوگوں کو اپنا دوست بناتا ہے. اچھی دوستی ایک ایسی نیکی ہے جو لاکھوں
نیکیوں کا ذریعہ ہے. اور بری دوستی ایک ایسا گناہ ہے جو کروڑوں گناہوں کا
ذریعہ ہے. قرآنِ پاک نے سمجھایا ہے کہ اُن لوگوں سے دوستی کرو جو صبح شام
اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہتے ہیں. اور اُن لوگوں سے دوستی نہ کرو جن کے
دل اﷲ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں. بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو نیک
لوگوں سے وحشت اور خشکی ہونے لگتی ہے. اور بُرے لوگوں کے ساتھ وہ ایسے گھل
مل جاتے ہیں جیسے صدیوں کا ساتھ ہو. اﷲ کے بندوں! ایسی دوستیاں، ایسی
مجلسیں جن میں صرف گپ شپ، کھانا پینا اور غفلت کی باتیں ہوں. ایک مسلمان کے
لئے زہر کی طرح خطرناک ہیں. چلو میری نہ سنو قرآنِ پاک تو سچ فرماتا ہے اُس
کی سُن لو اور قرآن پاک میں دوستی اور دشمنی والی آیات کو صرف ایک بار پڑھ
کر دیکھ لو. ایسے ایسے ناکارہ لوگ جن کے پاس ادنیٰ سی صلاحیت بھی نہیں تھی
صرف اچھی دوستی اور اچھے تعلق کی وجہ سے. بڑے مجاہد، بڑے فاتح اور اﷲ والے
اولیا بن گئے. اور ایسے ایسے باصلاحیت لوگ کہ جن کی صلاحیتوں پر لوگ رشک
کرتے تھے بُری صحبت، بُری دوستی اور برے تعلقات کی وجہ سے ناکام ہو گئے.
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان احب الاعمال الی اﷲ تعالیٰ الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ ﴿ابو داؤد﴾
ترجمہ: بندوں کے اعمال میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ محبت ہے جو
اﷲ تعالیٰ کے لئے ہو او ر وہ بغض و عداوت ہے جو اﷲ تعالیٰ کے لئے ہو.
بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لئے دوستی
اور اﷲ تعالیٰ کے لئے دشمنی کی صفت نہ رکھتا ہو وہ ایمان کی خوشبو تک نہیں
سونگھ سکتا.
حضرت عبداﷲ بن مسعود(رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور عر ض کیا. یا رسول اﷲﷺ! آپ کیا فرماتے ہیں اُس شخص کے بارے میں جس
کو کچھ لوگوں سے محبت ہے مگر وہ اُن کے ساتھ نہیں ہو سکا﴿ یعنی عمل میں
کمزوری کی وجہ سے اُن کے مقام تک نہیں پہنچ سکا﴾ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جو
شخص جس سے محبت کرتا ہے وہ اُس کے ساتھ ہی ہو گا﴿بخاری و مسلم﴾
المرئ مع مَنْ احب کا اصول. یعنی آدمی دنیا اور آخرت میں اُنہیں میں شمار
ہوگا جن سے وہ محبت رکھتا ہے. جب حضرات صحابہ کرام نے سنا تو بہت زیادہ خوش
ہوئے. حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں ﴿یعنی صحابہ کرام﴾ کو کبھی کسی
بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی کہ آپﷺ کے اس ارشاد سے ہوئی کہ انت مع من
احببت﴿تم جس سے محبت کرتے ہو اُسی کے ساتھ ہو﴾. پس میں بحمداﷲ محبت رکھتا
ہوں رسول اﷲﷺ سے اور ابو بکر(رض) وعمر(رض) سے اور امید رکھتا ہوں کہ اپنی
اس محبت ہی کی وجہ سے مجھے ان کا ساتھ نصیب ہوگا اگر چہ میرے اعمال اُن
حضرات جیسے نہیں ہیں﴿ بخاری﴾ اب اس روایت میں دونوں پہلو دیکھیں. اچھے
لوگوں سے محبت . اور بُرے لوگوں سے محبت. آج ہم نے دین اور دوستی دو الگ
الگ چیزیں بنا لی ہیں. حالانکہ مسلمان کی دوستی اور دشمنی دین کے تابع ہوتی
ہے. اﷲ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ ایک دل تو وہ
دین کو دے دے اور دوسرا دل اپنے کسی دوست کو. آج بُری دوستیوں کے فساد نے
مسلمانوں کو بہت نقصان میں مبتلا کر دیا ہے. ہر وہ شخص جس کی صحبت اور مجلس
میں بیٹھنے سے دنیا کی محبت دل میں آتی ہو، دل پر غفلت سوار ہوتی ہو. شہوت
یا مایوسی کی آگ بھڑکتی ہو. جس کی وجہ سے حق جماعت یا دینی کاموں سے محرومی
کا سبق ملتا ہو. یا جس کی مجلس میں صرف غیبت اور جھوٹ ہی چلتا ہو. یا جس سے
باتیں کر کے نفسانی خواہش کی تکمیل ہوتی ہو. یہ سب خطرناک دوستیاں ہیں جو
ان سے بچے گا وہی اپنے دین کو سلامت پائے گا.مسلمان لڑکے اور لڑکیاں موبائل
وغیرہ پر دوستیاں کرتے ہیں.اور اگر آپس میں ملاقات نہ ہو تو اسے نعوذبا اﷲ
پاکیزہ دوستی کا نام دیتے ہیں.ان سے پوچھا جائے کہ لڑکے اپنی بہنوں سے اور
لڑکیاں اپنے بھائیوں سے یہ پاکیزہ دوستی کیوں نہیں کر لیتیں. شیطان کے
پھندے بہت سخت ہیں. اﷲ تعالیٰ ہی ہم سب کی حفاظت فرمائے. آئیے آج کی مجلس
کا اختتام حضور اقدس ﷺ کی ایک مبارک حدیث شریف پر کرتے ہیں. حدیث شریف
پڑھنے سے پہلے ہم دل میں نیت کر لیں کہ. انشا اﷲ ہم سب اس پر عمل کی پوری
کوشش کریںگے.
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: ﴿اے مسلمانوں﴾ تم دوسرے کے متعلق بدگمانی سے
بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ﴿یعنی
تلاش﴾ میں نہ رہا کرو، اور جاسوسوں کی طرح کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش
بھی نہ کیا کرو اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں
حسد کرو، نہ بغض وکینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اﷲ کے
بندوں! اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو﴿ بخاری و مسلم﴾
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا. |