صحارا کی چٹانوں میں آباد قدیم جنگل میں کیا راز چھپے ہیں؟

image


میٹ سٹرین
بی بی سی ٹریول


جب ہمارے پک اپ ٹرک نے شمال مشرقی سوڈان میں دریائے نیل سے مخالف سمت میں ایک کچی سڑک پر چلنا شروع کیا تو ہمارے سامنے افق لامتناعی تھا جس پر چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں نظر آتی تھیں۔ شاید وہ پہاڑ تھے یا ریت کے ٹیلے یا پھر سراب۔ اس سرزمین کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے، بس صرف ایک چیز ہی یقینی ہے اور وہ ہے اس کا خالی پن۔

ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ایک خشک دریا کی وادی میں پہنچے جہاں ریتلے پھتروں کی ایک قطار ہے۔

میں اپنی دنیا میں مگن دن کو خواب دیکھ رہا تھا جب ریڈیو پر سوڈان جیز موسیقی کی آواز نے مجھے جگا دیا اور چٹان پر موجود کسی جانور کا ایک سفید خاکہ میری توجہ کا مرکز بنا۔

میں نے سوچا کہ صحارا میرے ساتھ فریب کر رہا ہے لیکن جب ہم اس کے قریب رکے تو میرے سارے خدشات دور ہو گئے۔

چٹانوں پر ہزاروں سال پرانی نقاشی تھی جس میں ہاتھی، زرافے، شتر مرغ اور کشتیوں کی تصاویر کندہ تھیں۔

جب ہوا تیز چلی تو ریت بھی اڑنے لگی اور میرے سامنے ایسے مناظر آئے جو سرینگیٹی کے سرسبز و شاداب میدانوں اور آبی گزرگاہوں میں تو ٹھیک لگتے ہیں لیکن دریائے نیل اور بحیرہ احمر میں پھنسے اس لق و دق صحرا میں، میں یہ دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
 

image


میرے جیسے آثار قدیمہ کے ماہر جو بحرہ اسود کی تہہ اور راکی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر کام کر چکا ہے وہ نئی جگہوں سے زیادہ حیران نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں نقاشی کے جو نمونے میرے سامنے آئے انھوں نے مجھے ششدر کر دیا۔

میری حالت کا اندازہ لگا کر میرے ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے کہا: 'سابو میں خوش آمدید، یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سوڈان کیسا ہوا کرتا تھا۔'

سابو کے آثار قدیمہ کے مرکز میں 1500 سنگ نقاشی کے نمونے ہیں جن میں دس ہزار سال کی انسانی تاریخ سموئی ہوئی ہے۔
 

image


آثار قدیمہ کے ماہرین کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ قدیم نوبیئن باشندوں نے کب پتھروں کو تراش کر یہ نقوش بنائے تھے۔

لیکن ایک چیز بہت واضح ہے کہ قدیم تاریخ کا یہ ورثہ اچھی طرح محفوظ ہے اور دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور کشتیوں کی تصاویر ایک ایسی دنیا کی تصویر دکھاتی ہے جو موجودہ صحارا کے حالات زندگی سے بلکل مختلف ہے۔

آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر بروس ولیئم 50 برسوں سے سوڈان میں کام کر رہے ہیں۔ وہبتاتے ہیں کہ سابو میں بہت تنوع ہے۔

'یہاں قدیم وقتوں کے جانور بھی ہیں اور کرما دور (2600-1450 قبل از مسیح) کے مویشی بھی۔ مصری کی نئی سلطنت کی کشتیاں (1570-1069 قبل از مسیح) اور مسیحی دور کی یادگاریں بھی ہیں۔'
 

image


سابو کی یہ سنگ تراشی اپنے اندر چھپی ہوئی تاریخ کے علاوہ اپنے اندر انسان کے خود کو حالات کے ساتھ ڈھالنے کی تاریخ کو بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ آثار قدیمہ کا یہ مرکز بتاتا ہے جب سوڈان کی سرسبز وادیاں لق و دق صحرا میں بدلیں تو انسان نے خود کو حالات سے کیسے ہم آہنگ کیا۔

ایک وقت صحرائے اعظم صحارا کا موسم اس کے موجودہ موسم سے بلکل مختلف تھا۔
 

image


عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صحرائے صحارا بیس سے تیس لاکھ سال پرانا ہے جب مرکزی افریقہ سے اٹھنے والی مون سون کی ہوائیں یہاں بارش برساتی تھیں، جس سے دریائے نیل میں طغیانی آتی اور اس سے دوسرے ندی نالوں میں پانی پہنچتا جن سے موجودہ کینیا اور تنزانیہ جیسے لہلاتے میدان ہوتے تھے جہاں ہاتھیوں اور ہرنیوں کے ریوڑ گھوما کرتے تھے۔

وسیع جنگلوں اور جانوروں کی وجہ سے اس علاقے میں گھونے والے انسانوں کے لیے کھانے پینے کے کافی وسائل تھے۔

سابو کی چٹانوں میں سینکڑوں جانور کی تصاویر اس بھولے بسرے دور کی نشانی ہیں۔

صحرائے صحارا کے سب سے پُرانے نقوش کو 'بابالائن' زمانے سے منصوب کیا جاتا ہے۔

صابو وہ واحد جگہ نہیں ہے جہاں آثار قدیمہ کے ایسے نقوش موجود ہیں، البتہ یہ سوڈان میں پہلی جگہ ہے جسے آثار قدیمہ کے برطانوی ماہر نے 1940 میں محفوظ کیا ہے۔

ڈاکٹر ولیم کہتے ہیں کہ نوبیا اور اس کے ملحقہ صحراؤں میں نقوش کا بہت خزانہ موجودہ ہے، ایسی چٹانیں جہاں سرنگیں بھی ہیں، ان میں بہت شاندار سنگ تراشی کے انتہائی شاندار نمونے موجود ہیں لیکن سابو میں آثار قدیمہ کسی ایک ملک میں موجود آثار قدیمہ سے کہیں زیادہ ہں۔

یہاں قدیم فن اور دوسری معلومات کے علاوہ انسانوں کے جانوروں کے ساتھ تعلقات کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔

سابو کے قریب ہی ہونے والی ایک کھدائی میں انسان کے ہاتھوں مارے گئے وارتھاگ، تیندوے، بڑی چھپکلیوں، مچھلی، ہرن اور زرافے کی ہڈیاں چولہوں کے قریب پڑی ہوئی ہیں، جہاں شکار کے لیے پھتروں سے بنائے گئے ہتھیار بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

سابو میں شکار کی یہ شہادتیں اس دور کا بتاتی ہیں جب شمالی افریقہ کے ہرے بھرے میدانوں میں زندگی وافر مقدار میں تھی۔ لیکن اسے ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا تھا اور 5500۔ 5000 قبل از مسیح جب دو ہزار سالوں پر محیط ماحولیاتی تبدیلی کا آغاز ہوا اور پھر افریقن ہیومڈ پیریڈ آہستہ آہستہ اپنےاختتام کو پہنچ گیا۔

جوں جوں میں نے سابو کے ان نقوش کو دیکھا تو مجھے افریقی جانوروں میں گائے بھی نظر آئی۔ گائے کی آمد دراصل ایک نئے دور کا آغاز ہے جسے انسانی تاریخ میں 'بویڈین فیز' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 

image


گائے کی موجودگی اس معاشرتی تبدیلی کی نشانی ہے جو سات ہزار سال پہلے ماحول کی تبدیلی کے ساتھ آنا شروع ہوئی تھی۔

جوں جوں شمالی افریقہ میں مون سون بارشوں کے سلسلوں میں تبدیلی آنے لگی علاقے کے مرطوب موسم پہلے سے مختصرہونے لگے۔ ان حالات میں انسانوں اور جانوروں نے دریائے نیل کے قریبی علاقوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کی۔ جوں جوں موسم خشک ہوتا گیا، موطوب موسمی دور کا اختتام ہو گیا اور 3500 قبل از مسیح میں وہ صحارا وجود میں آیا جیسا آج ہم دیکھتے ہیں۔

شاید بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے خانہ بدوش شکاری ایک جگہ پر رہنے لگے اور انھوں نے گائے، بھیڑ اور بکری جیسے جانوروں پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔

اس سے ایک معاشرتی تبدیلی رونما ہوئی اور مویشویوں کو چروانے کا دور شروع ہوا جسے نیولتھک دور کا آغاز بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں آگے چل کر مستقل انسانی بستیاں، قصبے تعمیر ہوئے اور پھر بادشاہت کا آغازہوا۔

اسی دور میں گائے کی اہمیت میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور وہ سوڈان کی تجارت اور معیشت کا اہم جز بن گئی۔

سوئٹزرلینڈ کے ماہر آثار قدیمہ جیروم ڈبوسن کے خیال میں سابو میں گائے کے نقوش کی بہتات سوڈان میں اس جانور کی اہمیت سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

مثال کے طور پر قدیم خوشائٹ بادشاہت کے مرکز کرما میں ہزاروں جانوروں کی کھوپڑیاں 2000 قبل مسیح میں ایک مقبرے سے ملی ہیں۔ چٹانوں پر نقوش اور دوسری کھدائیوں سے معیشت کی تبدیلی اور بدلتے ہوئے موسمی حالات میں لوگوں کا حالات سے خود کو ہم آہنگ ہونے کا پتا چلتا ہے۔

آگے چل کر یہ نیا اندازِ زندگی شمالی افریقہ کے تمام معاشروں کی خصوصیت بن گیا جو سوڈان کی خشویت بادشاہت اور مصر کے فرعونوں کے عروج و زوال سے زیادہ عرصہ افریقی معاشرے کا حصہ رہا ہے۔

گلہ بانی سوڈان کی زندگی کا اہم حصہ ہے ۔ حسانیا اور بشارن جیسے خانہ بدوش قبائل آج بھی بارانی علاقوں میں اپنے گائیوں، بھیڑیوں، بکریوں اور اونٹوں کے ریوڑوں کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں۔

سوڈان کے نوبین خانہ بدوشوں میں سنگی نقوش کے فن کی آج بھی اہمیت برقرار ہے اور کبھی کبھار کاروں اور بسوں پر بھی قدیم آرٹ کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سابو ایک ہزار سال علاقے کی ڈائری میں اپنی اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

لیکن صحارا میں ایک اور موسمی تبدیلی آ رہی ہے جو لوگوں کی زندگیوں پر اثر اندازہو سکتی ہے۔

سابو کا دورہ کرنے کے چند روز بعد میں جب درختوں کی ٹہنیوں سے بنی ایک جھونپڑی میں بیٹھا حسانیا قبیلے کی 98 سالہ مدینا سے بات کر رہا تھا، تو مجھے معلوم ہوا کہ صحارا میں کون سی موسمی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

مدینا مجھے شمالی سوڈان کے صحرا میں گزری اپنی زندگی کے حالات سنا رہی تھی۔ مدیناکو یاد ہے کہ جب انگریز ان کے قبیلے سے ٹیکس مانگنے آئے تھے۔ انھیں یاد ہے کہ جب پہلی بار ملک میں سڑکیں بنیں تو کئی قبائل خانہ بدوشی کی زندگی کو ترک کرکے مستقل گھروں میں رہنے لگے۔
 

image


جب میں نے مدینا سے پوچھا کہ وہ کیا سمجھتی ہیں کہ شمالی سوڈان کا مستقبل کیا ہے، تو انھوں نے پہلے سے زیادہ بارشوں کی بات کی ۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے موسموں میں تبدیلی کو محسوس کیا ہے اور انھیں نہیں معلوم کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ان کو کیسے متاثر کریں گی۔

میں صحرا میں ایک جھونپڑی میں بیٹھا حیرانی سے اس بوڑھی خانہ بندوش عورت کی باتیں سن رہا تھا جو خبروں اور ذرائع ابلاغ سے دور صحرائے اعظم کے ایک کونے میں زندگی گذار رہی ہے اس نے بھی ماحولیاتی تبدیلی کو محسوس کیا اور انسانوں پر اس کے اثرات کے بارے ان کے خدشات ہیں۔

جب ہمارا پک اپ ٹرک ان جھونپڑوں سے نکل کر بائیودا صحرا کی طرف جا رہا تھا تو مجھے مدینا کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔

جس طرح ہزاروں سالوں سے ہوتا ہے کہ صحرا اپنے دامن میں بسنے والوں کی زندگیوں اور ثقافتوں کو اپنےانداز میں ڈھال رہا ہے۔

میں گاڑی کی کھڑکی سے باہر گھورتے ہوئے اس سرزمین کی وسعت کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا سابو کی ڈائری میں اب پھتروں پر کون سے نقوش کو کندہ کیاجائے گا جس سے مستقبل کے مسافر موجودہ دور کی کہانیاں جان سکیں گے۔


Partner Content: BBC Urdu

YOU MAY ALSO LIKE: