دنیاامن وسلامتی کی آرزومنداوردعویدارہیں لیکن اس امن
وسلامتی کی ایک شرط اورایک بنیادہے اگریہ شرط پوری نہ ہو اور بنیاد میسرنہ
آئے توہماری انسانی دنیاکاامن اورسلامتی فقط ایک دعویٰ اورخالی آرزوہی رہے
گی۔وہ شرط اوربنیادعدل و مساوات ہے۔جب تک عدل قائم نہ ہواور سب کے ساتھ
برابرکاسلوک نہ ہوسکے توامن وسلامتی کادعویٰ بھی جھوٹااوراس کیلئے آرزوبھی
خام خیالی ہے کیونکہ امن وسلامتی سے پہلے عدل ومساوات ضروری ہے اوراس کے
بغیرقیامِ امن ناممکن ہے۔
سوئے اتفاق اوربد قسمتی سے دنیامیں تصادم کی فضاہے،ظلم وناانصافی ہے اورسب
سے یکساں سلوک مفقودہے۔یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ ظلم اورناانصافی صرف
مسلمانوں سے روارکھی جارہی ہے۔ظالمانہ تصادم کی فضاکاعملی شکاربھی مسلمان
ہیں۔اس سے بھی عجیب ترین بات یہ ہے کہ اس تصادم اور ظلم وفسادکی جڑبھی
مسلمانوں کوٹھہرایاجارہاہے اورعجیب ترین بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ کیفیت
چپ چاپ برداشت کرلی ہے،کم سے کم دنیابھرکے مسلم حکمران توبالکل چپ ہیں،اس
پراحتجاج بھی نہیں کر رہے جیسے کچھ دیکھتے نہ ہوں،جیسے کچھ سمجھتے نہ
ہوں۔اس المناک صورت حال کاسبب یہ ہے کہ یہاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان
وسیع خلیج حائل ہے۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارے یہ حکمراں اسلام مخالف قوتوں
کے رحم وکرم پرہیں اورعالمِ اسلام ظالم لٹیروں کی زدمیں ہے۔
اگرصحیح جمہوری فضاہوتی تودنیابھرکے مسلم عوام اوراسلامی دنیا کی یہ حالت
نہ ہوتی۔آج بھی اگرمسلم عوام اوران کے حکمراں متحدہوکراس امتیازی سلوک کے
خلاف زوردارآوازیں اٹھائیں تویہ فضابدل سکتی ہے۔امن وسلامتی کے جھوٹے
دعویداراپنی اپنی قوم کے سامنے رسواہوکربے اثرہوسکتے ہیں کیونکہ حسنِ اتفاق
سے ان کے اپنے اپنے ملک کے عوام جمہوری قوتوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں
اوریہ عوامی جمہوری قوتیں جس طرح اپنے جھوٹے حکمرانوں کو برداشت نہیں
کرتیں،وہ پسماندہ قوموں سے ظلم و ناانصافی اورڈبل معیارکی بھی مخالف ہیں اس
لئے ضرورت ہے کہ اسلامی دنیاکے عوام دنیاکے جمہوری عوام تک رسائی اورربط کی
صورت پیداکریں توپھروہی ہوسکتاہے جوعراق میں بش اورٹونی بلیئرکے ساتھ ہوا۔
گوعراق ابھی تک آزادنہیں ہوالیکن عراقی عوام آزادہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے
ظلم کومستردکردیاہے اوران کی اوران کے قاتل کی حقیقی صورتحال دنیاکے جمہوری
عوام تک پہنچ گئی ہے جواپنے حکمرانوں سے حساب لے سکتے ہیں اورلیتے ہیں۔
اگرآپ کی نظر تاریخ پرہے توآپ محض مسلمان ہونے کے سبب اس ظالمانہ تہمت
اورتصادم سے بچ بھی سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر جارحانہ حملے سے صلیبی جنگوں
کاآغازکس نے کیابلکہ یہ بھی کہ یہ کس نے کروایا؟چارسو سال تک انسانیت کاخون
پانی کی طرح بہتارہاجن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی،مال لوٹاگیا،ملک چھینے
گئے،یہ سب سلوک مسلمانوں سے تھااور یورپ کے صلیبیوں نےکیاتھا۔پہلی اور
دوسری عالمی جنگیں کس نے شروع کیں؟پرانے سامراجیوں نے۔آج یہ ظالمانہ تصادم
کی فضاکس نے پیدا کی؟آج کے نئے سامراجیوں نے۔مگریہ سب کچھ کس نے
کرایا؟مسلمانوں کے اصلی دشمن یہودیوں نے،جی ہاں! خفیہ وسیہ کاریوں میں
صہیونیوں کاجواب نہیں۔
یقین نہیں آتاتودیکھ لیجئے ہٹلرکے آنے تک مسیحی دنیاخصوصاًیورپ یہودیوں
کادشمن تھا،ان سے نفرت کرتاتھا،اپنے معاشرے سے انہیں نکال باہرکرناچاہتا
تھا ۔دونوں عالمی جنگوں میں اگر سود خوروں کے قرضے نہ ہوتے تویہ جنگیں ایک
قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی تھیں۔سودی کاروبار کس کے پاس تھا؟انہی یہودیوں کے
ہاتھ میں۔دونوں جنگوں میں لگنے والے یہودی سرمائے نے مغرب کوپنجۂ یہود میں
جکڑدیاتھا۔دوسری عالمی جنگ اوربعدکے حالات سے توساری دنیا سود کے جال میں
پھنس گئی ہے اوریہ جال یہودیوں شکاریوں کے ہاتھ میں ہے!
گزشتہ صدی کے دوران سودخوروں نے سودی پیسے سے مسلمان حکمرانوں
کوخریدناچاہاتھامگر منہ کی کھائی،یہی پیسہ مغرب کے حکمرانوں کوجکڑنے کیلئے
دیاگیا۔پہلے یورپ کوپھرامریکاکو چنانچہ آج سب پنجہ یہودمیں ہیں لیکن یہودی
سیہ کاری ملاحظہ ہوکہ وہ انہی پرانے اور نئے سامراجیوں سے مسلمانوں
کوپٹوارہاہے اورمسلمان سوتے رہے یاسلادیئے گئے،آج بھی سو رہے ہیں یاسلائے
جا رہے ہیں۔اسلام اور مسلمانوں سے یہودی عداوت اورحسدایک فطری ردعمل ہے۔اس
عداوت اور حسدکی ایک لمبی تاریخ ہے جوطویل بھی ہے اورتلخ بھی۔ایک وقت تھاجب
مکہ اورعرب کے تمام بت پرست اوریہودی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف متحد
تھے،آج بھی متحدہیں،پہلے مشرکین مکہ اوریثرب وخیبرکے یہودی اسلام کے خلاف
متحدتھے۔آج بھی تل ابیب اورنئی دہلی نے ایک مدت کے بعد ایک دوسرے کوپہچان
لیاہے۔پہلے اتحادخفیہ تھالیکن ایڈوانی اور شیرون نے اسے ایک کھلی حقیقت
بناکر مسلمان دنیاکوپیغام دیااب مودی ونیتن شیروشکرہیں کہ کل بھی دونوں
کادشمن مشترک تھااورآج بھی مشترک ہے۔
اس اشتراک،عداوت اورحسدنے یہودوہندوکومسلمانوں کے خلاف ایک
بنارکھاہے۔یہودوہنوددونوں کی خواہش ہے کہ نئے اورپرانے سامراجی انہیں تعاون
کیلئے اپنے مہرے بنائیں توخونِ مسلم میں ہاتھ رنگ کرمن کوشانتی ملے اورلوٹ
مارمیں سے کچھ حصہ بھی ملے مگرقدرت نے نئے سامراجیوں کو ننگا کر دیاہے
اورامریکااورمغرب کے جمہوریت پرست عوام انہیں تاریخ کی گمنامی میں دھکیل
رہے ہیں مگریہ یہودوہنود اب بھی نہیں بدلے۔وہ عدل وانصاف کی ہرآوازپرتلملا
اٹھتے ہیں،وہ ہر صورت میں کچھ نہ کچھ لے مرنے کی فکرمیں رہتے ہیں کہ فلسطین
اورکشمیرمیں کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کاخون بہاتے رہیں ۔مسلمانوں کیلئے
یہ موقع ہے کہ مغرب کے امن پسنداورانصاف کے داعی تنظیموں سے اپنارابطہ
ازسرِنومرتب کریں۔اسی خدشے کے پیشِ نظر مسلم ملکوں کیلئے داخلی، علاقائی
اورعالمی مسائل پیداکرکے الجھانےکی سرتوڑکوشش موجودہ وسیہ کاری اورخفیہ
سازش کاحصہ ہے۔صہیونیوں کوپہلے خطرہ صرف پاکستان کے ایٹمی اسلحے سے
تھامگراب تازہ خطرہ پاکستان کی حربی صلاحیت کے بعدان کی نیندیں حرام کئے
ہوئے ہے۔
مودی کشمیرمیں وہی کھیل کھیل رہاہے جواسرائیل کاجنونی دہشت گرد فلسطین میں
کھیل رہاہے۔آزادی مانگنے والاہر کشمیری بھارت کے نزدیک پاکستان کا ایجنٹ ہے
اس لئے اسے سات لاکھ سے زائدقابض فوج مارنے میں حق بجانب ہے۔ پاکستان کے
حکمراں تواقتدارکی کرسی کیلئے کشمیریوں کی ہرقربانی کوپس پشت ڈالتے ہوئے
بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے انتہائی بے چین نظرآتے ہیں جب کہ بھارت
انتہائی مکاری اورہوشیاری کے ساتھ پاکستان کودباؤمیں رکھنے کیلئے اصل مسائل
پرمذاکرات کرنے کی بجائے دوسرے مسائل میں پاکستان کوالجھارہاہےلیکن کشمیری
اب اس بات سے آگاہ ہوچکے ہیں کہ اگر افغانستان جیساملک دنیاکی سب سے بڑی
سپرطاقت اوراس کے اتحادیوں کوشکستِ فاش پرمجبورکرسکتاہے توبھارتی بنیاتو اس
کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کشمیریوں نے اپنے خون کے ساتھ جوحریت
کی داستانیں رقم کی ہیں اور اپنی آزادی کی خاطرجو بیش بہاقربانیاں دی
ہیں،وہ کبھی رائیگاں نہیں ہوسکتیں اوروہ دن بہت قریب ہے جب کشمیری اپنی اس
فصل کوآزادی کی نعمت میں وصول کرکے رہیں گے انشاء اللہ! |