اُردو ہے جس کا نام

مادری اور قومی زبان بے چاری بڑی بے زبان ہوتی ہے۔ لوگ فخر سے مادری زبان کو گھر کی لونڈی قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ سلوک بھی لونڈی والا ہی کرتے ہیں! اردو بھی اِس کلیے سے مستثنٰی نہیں۔

ایک اخبار کے ایڈیٹر سے ہم نے کہا کہ خبر میں ساس کا لفظ بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ خوش دامن ایک اچھا متبادل ہے۔ اُن کا فرمان تھا کہ جب ساس کسی کو بھلی معلوم نہیں ہوتی تو اُسے بیان کرنے والا لفظ بھلا کسی کو کیسے بھلا معلوم ہوگا؟ ساس صرف ساس ہوتی ہے، چاہے اُسے ساس کہو یا خوش دامن۔ جب ہم نے اصرار کیا تو کہنے لگے چلو موقع دیکھ کر استعمال کریں گے۔ کچھ دن بعد کراچی میں ایک خاتون سول جج کے گھر ڈکیتی کے دوران ان کے بیٹے جاں بحق ہوگئے۔ خاتون جج کی ساس کچھ دن بعد امریکہ سے آئیں تو موصوف نے سُرخی یہ لگائی کہ خاتون جج کی خوش دامن امریکہ سے آگئیں! ہم نے یہ سرخی پڑھی تو سٹپٹا گئے اور اُن کی خدمت میں عرض گزار ہوئے کہ جناب! خوش دامن تو مرد کی ساس کو کہتے ہیں، عورت کی ساس کو ساس ہی کہا جائے گا۔ موصوف بگڑ کر بولے ”ہم جو لکھتے ہیں بس وہی لکھنے دو، اپنی اردو اپنے پاس رکھو۔ اب یہ حساب کون رکھتا پھرے گا کہ کس لفظ کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ کس کو یاد رہے گا کہ کس جگہ ساس خوش دامن میں تبدیل ہوتی ہے اور کہاں صرف ساس ہی رہتی ہے۔“ اِس جواب پر ہم (ظاہر ہے اپنا) سر پیٹ کر رہ گئے!

مرزا تفصیل بیگ اس معاملے میں (بھی) قدرے اختلافی رائے رکھتے ہیں۔ جب ہم نے بتایا کہ مرد کی ساس کو خوش دامن اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے دامن میں ایک اچھی چیز یعنی بیٹی تھی جو اُس نے دی۔ یعنی مرد کی معنوی ماں اچھے دامن والی ہوئی، تو مرزا تپ کر بولے ”جی نہیں، اُن خاتون کے دامن میں جو بلائے ناگہانی تھی اُسے وہ آپ کی طرف اُچھال کر خوش ہیں، اِس بنیاد پر خوش دامن کہلاتی ہیں!“

”ہمراہ“ بھی ایک ایسا لفظ ہے جسے استعمال کرنے کے معاملے میں ویسی ہی لاپروائی دکھائی جاتی ہے جیسی لاپروائی قومی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ لائن اکثر دکھاتی ہے۔ اردو اخبارات میں یہ لفظ کچھ اِس طرح استعمال کیا جاتا ہے ”فلاں پارٹی کے چیئرمین دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔“ ہم نے احباب کی توجہ غلطی کی طرف دلائی اور بتایا کہ ”ہمراہ“ صرف اُس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی چل رہا ہو، سفر میں ہو۔ یہ مشورہ سُن کر ایک صاحب نے شام میں خراب حالات کے باعث لبنان جانے والوں تصویر کا کیپشن کچھ اِس طرح لکھا ”شام کے باشندے خانہ جنگی سے بچنے کے لئے سامان کے ہمراہ (!) لبنان کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔“ ہم نے وضاحت کی کہ جناب! سامان کوئی انسان یا از خود چلنے پھرنے والی چیز نہیں جس کے ہمراہ نقل مکانی کی جائے! سامان کے ”ساتھ“ نقل مکانی کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ جب لبنان جانے کی بات آ ہی گئی تو نقل مکانی کا لفظ استعمال کرنا محض فضول خرچی ہے! یہ اعتراض سُن کر کیپشن کی شکل تبدیل کی گئی جو کچھ یوں بنی ”شام کے باشندے خانہ جنگی کے باعث ایک دوسرے کے ہمراہ (!) لبنان جا رہے ہیں۔“ ہم نے استفسار کیا کہ ”ہمراہ“ استعمال کرنا کیا کسی قانون کے تحت لازم کردیا گیا ہے! اِس پر کیپشن رائٹر جھلّا کر بولے۔ ”ایسی اردو سے ہم باز آئے۔ اگر ایک ایک لفظ کے استعمال پر یوں بحث ہوتی رہی تو ہم اخبار شائع کرچکے! ہم اخبار تیار کرتے ہیں، مقتدرہ قومی زبان کا خبرنامہ نہیں۔“

اردو کے شاہکار دیکھنے ہوں تو ٹی وی چینلز پر ٹِکرز پڑھتے رہیے۔ عجلت میں لکھے جانے والے ٹِکرز سے اردو میں مزاح نگاری کا دامن وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ چند برس قبل ہم ایک ٹی وی چینل پر جاب کرتے تھے تب ایک ٹِکر ہماری نظر سے گزرا جو کچھ یوں تھا ”شہنشاہ غزل مہدی حسن طویل علالت کے بعد ہسپتال سے گھر منتقل ہوگئے!“ ہم نے ٹِکر ایڈیٹر سے عرض کیا کہ ٹِکر میں صراحت نہیں کی گئی کہ مہدی حسن صاحب اگر طویل علالت کے بعد ہسپتال سے گھر منتقل ہوئے ہیں تو کس حالت میں، یعنی صحت یاب ہوئے یا نہیں۔ موصوف نے خاصی مدلّل وضاحت فرمائی ”پہلے علالت آتی ہے اور اس کے بعد اللہ صحت عطا فرماتے ہیں۔ اگر علالت کے بعد ہسپتال سے گھر منتقل ہوئے ہیں تو سیدھی سی بات ہے کہ صحت یاب ہوگئے ہوں گے(!)“ ہم نے دست بستہ عرض کی کہ جناب! طویل علالت کے بعد کسی شخص کو ہسپتال سے گھر منتقل کیا جائے تو اِس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ صحت یاب ہوچکا ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہو! مگر اُن صاحب نے میڈیا وابستہ ہونے کا بھرپور ثبوت فراہم کیا۔۔ یعنی ہم سے متفق نہ ہوئے!

اخبارات میں تصاویر کے کیپشن لکھنا بھی اب مزاح نگاری سے مماثل فن میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ بعض احباب کچھ اس قدر پُرمزاح کیپشن لکھتے ہیں کہ پڑھیے تو کالم کا سا لُطف ملتا ہے۔ ایک مشہور کارٹونسٹ کی عادت ہے کہ کارٹون میں جتنی بھی چیزیں دکھاتے ہیں اُن کے نام بھی لکھ دیتے ہیں۔ مثلاً مہنگائی یا بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر عوامی احتجاج دکھا رہے ہیں تو بہت سے لوگ دِکھاکر اُن پر ”عوام“ لکھتے ہیں تاکہ قارئین اُنہیں کچھ اور نہ سمجھ لیں! کچھ کچھ یہی حال اب اخباری کیپشنز کا بھی ہے۔ ہمارے ایک اخباری دوست یعنی سب ایڈیٹر نے ایک تصویر کا کیپشن کچھ اِس طرح تحریر کیا ”کشیدگی کے باعث گلستان جوہر میں سڑک سنسان پڑی ہے جبکہ ایک پولیس اہلکار بندوق تانے الرٹ کھڑا ہے۔“ ہم نے پوچھا کوئی چیز بیان ہونے سے رہ تو نہیں گئی؟ وہ کہنے لگے ”اِس کی نشاندہی تو آپ کریں گے۔“ ہم نے کہا کچھ اللہ کا خوف کرو، تصویر میں کیا ہے جو واضح نہیں؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ کیپشن نابینا افراد کے لئے تحریر کیا گیا ہے، یعنی اُنہیں بتایا جائے کہ تصویر میں کیا کیا ہے!

جنوبی امریکہ کے بعض علاقوں سے ڈائنوسار کے حجری شواہد (fossils) ملے تو ایک صاحب نے خبر بنائی جس میں درج تھا کہ یہ حجری شواہد دو کروڑ نوے لاکھ سال ”قبل مسیح“ کے ہیں! اب آپ بھی غور فرمائیے کہ ماہرین یقین کی کس منزل میں ہیں کہ دو کروڑ نوے لاکھ سال جیسی طویل مدت میں مزید دو ہزار سال کا تعین بھی کر بیٹھے ہیں!

بہت سی خبروں میں زبان و بیان اور کامن سینس کی غلطیاں اِتنی اور اِس قدر ہوتی ہیں کہ خبر نگار کا ماتھا چومنے کو جی چاہتا ہے! چند نمونے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

٭ ”انڈونیشیا کے قونصل خانے کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کا گروپ فوٹو۔“ ہمارا خیال ہے ”شرکا“ پر بات ختم ہو جانی چاہیے تھے۔ سب اکٹھے کھڑے تھے تو ظاہر ہے گروپ فوٹو ہی تھا۔
٭ ”جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن ہو رہا ہے۔“ تھوڑی سی وضاحت کردی جاتی تو اچھا تھا کہ کریک ڈاؤن اور آپریشن میں کیا فرق ہے!
٭ ”لیاری گینگ وار کے کارندے بھتہ وصول کر رہے ہیں۔“ بہت خوب! لیاری میں مختلف گروہوں کے درمیان جاری لڑائی بھی گویا کوئی تنظیم ہے کہ جس کے کارندے پائے جاتے ہیں! تصادم کو تنظیم کا درجہ دینا شاید صرف اُردو صحافت کا کارنامہ ہے!
٭ ”آگ بجھانے کے لئے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موقع پر پہنچ گئیں۔“ آگ بجھانے کی وضاحت شاید اِس لیے ضروری تھی کہ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ لگانے آئی تھیں! اور شاید یہ بات بھی ہے کہ فائر بریگیڈ کے بعض اہلکار اب فائر انجن (گاڑی) کو پانی کی سپلائی کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں!
٭ ”ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لئے ریسکیو آپریشن تین گھنٹے جاری رہا۔“ اچھا ہوا جو یہ بتا دیا کہ ریسکیو آپریشن لوگوں کو پانی، ملبے یا کسی گڑھے وغیرہ سے نکالنے کے لئے ہوتا ہے، اُس میں پھینکنے کے لیے نہیں!
٭ ”اتحادی طیاروں نے فضاء سے زمین پر بمباری کی۔“ اگر وضاحت نہ کی جاتی تو لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھتے کہ رن وے پر کھڑے ہوئے طیاروں نے فضاء میں بم برسائے!
٭ ”دہشت گردوں کی کاروائیاں کئی ماہ سے جاری ہیں۔“ بڑی بات ہے صاحب کہ دہشت گرد اب کاروائیاں کر رہے ہیں اور ریاستی ادارے ”وارداتیں“ فرما رہے ہیں!
٭ ”دھماکے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار کی فائل فوٹو۔“ یہ بات کون سمجھائے کہ مرنے والے کی ہر تصویر کو فائل فوٹو ہی قرار دیا جائے گا، اِس لیے فائل فوٹو لکھنا فضول خرچی ہے!
٭ ”دہشت گردوں کے ہاتھوں شدید زخمی ہونے والے پولیس اہلکار کی یادگار تصویر۔“ یاروں کو اندازہ ہی نہیں کہ کوئی بھی تصویر یادگار صرف مرنے پر کہلاتی ہے!
٭ ”افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اتحادی فوجی ایک چیک پوسٹ پر افغان شہریوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔“ اِسے کہتے ہیں وضاحت ابن وضاحت! ارے بھائی! کابل میں جن کی تلاشی لی جارہی ہوگی کیا وہ کسی اور ملک کے شہری ہوں گے!
٭ ”.... (تنظیم کا نام) کے زیر اہتمام کراچی میں ہلاک ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی کا منظر۔“ یعنی پولیس کو تفتیش کی ضرورت نہیں۔ کیپشن بتا رہا ہے کہ ہلاکتیں کس کے حکم پر ہوئیں!
٭ ”امریکی خلائی شٹل اینڈیور کی خلاء میں روانگی خراب موسم کے باعث تیسری بار موخر کی گئی ہے۔“ اِس کیپشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ خلائی شٹل کو کبھی پاتال میں روانہ نہیں کیا جاتا، صرف خلاء میں بھیجا جاتا ہے!
٭ ”یہ پیغام اسامہ بن لادن نے مرنے سے قبل ریکارڈ کرایا تھا۔“ شاباش! کوئی یہ خیال نہ کرے کہ عالم بالا میں پہنچ کر حساب کتاب سے پہلے اُسامہ بن لادن کو پیغام ریکارڈ کروانے کی فکر لاحق ہوئی!
٭ ”آئندہ چار ماہ میں ادارے کی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی۔“ اچھا ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ ادارہ ماضی میں جاکر پوزیشن مستحکم کرے گا!
اور ”بم بنانے میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد پکڑا گیا۔“ زہے نصیب! وضاحت نہ کی جاتی تو ہم یہ سمجھ بیٹھتے کہ بم بنانے میں اشیائے خور و نوش بھی استعمال کی جاتی ہیں!

چند اور ”شاہکار“ جملے :
٭ سیلابی پانی کے بہتے ہوئے ریلے سب کچھ بہاکر لے گئے۔
٭ برگد کے گھنے درخت پر ”آسمانی بجلی“ گر گئی۔
٭ ہنگاموں کے باعث معاشی و کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔
٭ امداد کی فراہمی کے لیے ریلیف آپریشن جلد شروع کیا جائے گا۔
٭ (ایک تصویر کا کیپشن) اجتماعی شادی کی تقریب میں دولہے بھی شریک ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 482203 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More