تحریر۔۔۔ ڈاکٹرفیاض احمد
انسان کی پیدائش کے بعد انسان میں کچھ ایسی خوبیاں ہوتی ہے سلیم الفطرت اور
سلیم العقل جس کی بنا پر وہ کسی خاص مقام تک اپنی رسائی کر سکتا ہے یعنی
ایک خاص مقام تک اس کی عقل کام کرسکتی ہے بغیر کسی کی مدد کے لیکن وہاں تک
پہنچتے پہنچتے اس کو زندگی کا مقصد اور اس کو پیدا کرنے والے کے بارے میں
ایک دور کی روشنی محسوس ہوتی ہے اس مقام پر پہنچتے کے بعد انسان میں یہ سوچ
رونما ہوتی ہے زندگی یہ صرف زندگی نہیں ہے کچھ اور بھی ہے جس میں انسان کے
اعمال کا بدلہ ہونا ہے پھر انسان سوچتا ہے کہ کوئی تو ہے جواس کا خالق
ومالک ہے جس نے میرے اندر یہ خوبیاں پیدا کی ۔یہاں پر انسان کو مدد کی
ضروریات ہوتی ہے مدد کی بھی مختلف قسمیں ہیں لیکن اصل مدد تو اﷲ تعالیٰ کی
ذات کریمی سے حاصل ہوتی ہے اﷲ نے مدد اور ہدایت کیلئے قرآن اور دوسری بہت
سی آسمانی کتب نازل کی ہے اگر ہم قرآن کا بفور مطالعہ کریں قرآن کا فلسفہ
حیات ہے کہ بنیادی ہدایت ہر انسان کے دل میں موجود ہوتی ہے آسمانی کتابیں
اس شعور کو اجاگر کرتی ہیں جب انسان کا شعور اجاگر ہوتا ہے تب اس کو اصل
زندگی کا مقصد پتا چلتا ہے قرآن ایک حقیقت ہے جو انسان کو سیدھی راہ دیکھتا
ہے قرآن کی تعلیمات کو حاصل کرنے کیلئے اس کا مطلب کا جاننا بھی ضروری ہے
مگر ہم اس سے قاصر ہے ہمیں صرف اور صرف اس کو پڑھنا ہوتا ہے اس کا مفہوم
اور مطلب سے آگاہی ہم سے دور ہے اگر ہم سورہ فاتحہ کو بغور پڑھیں تو ہمیں
اصل حقیقت کا پتہ چلے اس سورہ میں انسان کتنا بے بس ہے اور انسان کی حقیقت
کیا ہے۔۔۔
فاتحہ کا مطلب ہے کھولنے والا یعنی قرآن مجید وہ ہدایت کی کتاب ہے جو ہمارے
لیے دنیا وآخرت کا رستہ کھولتا ہے اور کھولنے میں مدد کرتی ہے اگر ہم اس کا
بفور مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے سورہ فاتحہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے
میں انسان اﷲ تعالیٰ کی بڑھائی بیان کرتا ہے اور دوسرے حصے میں بخشش کی
درخواست کرتا ہے پہلے حصے میں بندہ اﷲ کے بارے میں بیان کرتا ہے پروردگار
کا شکر ادا کرتا ہے اﷲ کی واحدنیت کا بیان کرتا ہے ہر انسان میں کوئی خوبی
ہوتی ہے یعنی حسن یا کمال یہ خوبی اس کی خود کی پیدا کردہ نہیں ہوتی اس کا
وجود کہیں اور سے پیدا ہوتا ہے تو پھر وہ انسان تعریف کے قابل نہ ہوا اصل
تعریف تو اس ذات باری تعالی کی ہے جس نے انسان کو اس خوبی سے ہمکنار کیا اس
سورہ میں ہم رب کا شکر ادا کرتے ہے رب کا مطلب ہے وہ ذات جو ہر چیز کو پیدا
کر کے کھانے پینے اور وہ تمام اشیاء جو اس کی ضروریات زندگی ہیں مہیا کرنا
اور پایہ تکمیل تک پہنچانا ۔۔۔کیوں وہی ذات ہے جو یہ کام کرسکتی ہے تمام
مخلوقات کی ضروریات زندگی دوسرے سے مختلف ہے ان ضروریات زندگی کو حاصل کرنے
کے بعد ان پر اﷲ کا شکر ادا کرنا ہی اصل زندگی ہے کیونکہ وہ تمام جہانوں کا
مالک اور خالق ہے یہ دنیا ایک مقافعت عمل ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے
مگر اس کا اصل ظہور تو آخرت میں ہونا ہے اچھائی اور برائی کے مطابق جزا و
سزا کا ہونا اور اس وقت سب کا اﷲ تعالیٰ کے حضور جھکنا ہی آخرت ہے اسی طرح
عبادت کا مطلب ہے کہ کسی کی عاجزی میں سربسجود ہو جانا یعنی جس سے محبت ہو
اس کی خاطر اپنی زندگی کو واقف کر دینا ہی اصل عبادت ہے اور اس کے بتائے
ہوئے اصولوں پر زندگی کو گامزن کرنا۔۔۔۔محبت کا مطلب احساس ہوتا ہے جب اس
کا احساس ہو گا تب ہمیں اس کی نافرمانی سے ڈر لگے گا اور ہمارے اندر خوف
پیدا ہوگا اس خوف میں انسان اپنے محبوب سے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو
جائے اس چیز کا خوف ہے جس کی وجہ سے انسان نافرمانی کرنے سے اجتناب کرتا ہے
اور احکام الہی کی پیروی کرتا ہے یہی اصل عبادت ہے یعنی ان تمام حقوق کی
پاسداری کرنا جو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں اسی طرح
ہمارے تحت اشعور سے کچھ باتیں اوپر ہوتی ہیں ان کے لئے ہم اﷲ تعالیٰ سے مدد
مانگتے ہیں کہ ہمیں ان کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے بعض لوگ
کہتے ہیں کہ مدد کسی سے بھی مانگ سکتے ہیں مگر غائباً مدد صرف اور صرف اﷲ
تعالیٰ کی ذات اقدس سے مانگی جاتی ہے جس طرح عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کے سوا
کسی کی جائز نہیں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں
میں ایک دوسرے کی مدد کرو ،، (سورہ المائدہ آیت ۲)مافوق الاسباب طریقے سے
مدد مانگنا اﷲ تعالیٰ کے سوا شرک کے زمرے میں آتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے
کہ ’’ اے پیغمبر ان سے پوچھیں کہ تمہیں آسمان اور زمین پر رزق کون دیتا ہے
تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے کون تمہیں بے جان سے جاندار اور
جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے ،، ( سورہ یونس آیت ۳۱)۔آسمان اور زمین کا
مالک۔پناہ دینے والا کون ہے کس سے ہم سیدھے راستے کی امید کرتے ہیں دنیا
اور آخرت میں کون ہمارے اوپر احسان کرتا ہے ہمیں سیدھی راہ پر چلنے میں کون
ہماری مدد کرتا ہے وہی خدا ہے سیدھے راستے سے مراد وہ راستہ ہے جس میں اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول اﷲ کی اطاعت کی جائے جس سے ہمیں آخرت میں بھلائی ملے
گی اور ہمارے سب امتحان پاس ہو جائیں گے اگر ہم یہ سب کچھ جاننے کے باوجود
بھی مرتدد ہو جائیں تو جہنم کا عذاب ہمارا منتظر ہے مگر ہم اﷲ تعالیٰ سے اس
کے رحمن اور رحیم ہو نے کا واسطہ دیتے ہوئے معافی مانگتے ہیں جس طرح دریا
حالت سکون میں فائدہ مند ہوتا ہے اور ہمیں نفع دیتا ہے اگر اس میں سیلابی
ریلے آ جائیں تو ہر طرف تباہی مچا دیں اس لئے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ
چلو ناکہ غضب ناک ہونے والوں کے راستے پر۔۔زندگی ایک بار ملتی ہے اس کو
عذاب سے بچاؤ اور اﷲ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلو ہم دن میں پانچ
دفعہ نماز پڑھتے ہیں اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں اگر
ہم سچے مسلمان ہیں تو اس کے مطلب سے آگاہی کریں اور اس کو اپنی زندگی کا
لائحہ عمل بنا لیں تو ان میں سے ہو جائیں گے جن پر اﷲ تعالیٰ کا انعام ہوا
اور ہر حال میں رب کائنات کا شکر بجا لائیں کیونکہ شکر اس کا کیا جاتا ہے
جس سے ہمیں فائدہ ہو بغور دیکھیں تو دن میں کتنے فائدے ہیں جو ہم اﷲ تعالیٰ
کی ذات اقدس سے اٹھاتے ہیں مگر ہم شکر کتنی دفعہ کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ کی
نعمتوں پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل ہیاگر ہم
قرآن شریف کی اس پہلی سورہ مبارکہ پر عمل پیرا ہو جائیں اور زندگی کو اس کے
مطابق ڈھال لیں تو اور کچھ پڑھنے یاحاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ
یہ سورہ ہی ہمارے سارے دروازے کھول دے گی۔
|