درس قرآن 47

سورۃ ذاریات
للہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے دنیا میں انبیاء ورُسل علیہم السلام مَبعوث فرمائے اور سب سے آخر میں نبی کریم رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ہادی بنا کر بھیجا ۔جسطرح ہمارے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم تمام انبیاء میں افضل ہیں یونہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر نازل ہونی والی کتاب قرآنِ مجیدبھی تمام کُتُبِ سَماوِیہ میں افضل ہے ۔یہ کتاب بندوں کی ہدایت کا سرچشمہ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ھٰذا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌلِّلْمُتَّقِیْن ترجمہ کنزالایمان: یہ لوگوں کوبتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے۔ (پ۴،اٰل عمران:۱۳۸
سورئہ طور مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الطور، ۴/۱۸۶)۔ اس میں 2رکوع، 49آیتیں ،312کلمے اور1500حروف ہیں ۔( خازن، تفسیر سورۃ الطور، ۴/۱۸۶)
وجہ تسمیہ :
طور ایک پہاڑ کا نام ہے ،اوراس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کی قَسم ارشاد فرمائی ،اس مناسبت سے اس کا نام’’سورۂ طور‘‘ رکھا گیا۔
حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے مغرب کی نماز میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا،جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان آیات پر پہنچے:
’’ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ(۳۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: کیا وہ کسی شے کے بغیر ہی پیدا کردئیے
اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ(۳۶) اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ(۳۷)‘‘
گئے ہیں یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں ؟ یا آسمان اور زمین انہوں نے پیدا کئے ہیں ؟ بلکہ وہ یقین نہیں کرتے۔یا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں ؟یا وہ بڑے حاکم ہیں ۔‘‘
تو (انہیں سن کر) مجھے لگا کہ میرا دل (سینے سے نکل کر) اُڑ جائے گا۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الطور، ۱-باب، ۳/۳۳۶، الحدیث: ۴۸۵۴)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کفار کے اعتراضات کے بڑے پُرجلال انداز میں جوابات دئیے گئے ہیں ،نیز اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے 5چیزوں کی قَسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی گئی ہے وہ قیامت کے دن ان پر ضرور واقع ہو گا۔
آخرت کی ہَولناکیوں اور شدّتوں کا ذکر کیا گیا اور قیامت کے دن کفار کے برے انجام اور پرہیز گاروں کو ملنے والی نعمتوں اور ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنے کا بیان فرمایا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسالت کی تبلیغ جاری رکھنے اور کفار کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہنے کا حکم دیا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معبودِیَّت اور وحدانیَّت پر قطعی دلیلیں قائم فرمائیں اسی طرح اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور صداقت کو قطعی دلیلوں سے ثابت فرمایا۔
اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی اور کفار کی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینے اور تمام اَوقات میں اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنے کا حکم ارشاد فرمایا۔
اللہ پاک ہمیں کلام مجید سے خوب خوب برکتیں عطافرمائے اور ہمیں فہم دین سے بہرہ مند فرمائے ۔آمین

 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593758 views i am scholar.serve the humainbeing... View More