پاکستان دنیا کے کثیر التعداد مہاجر ممالک میں سب سے سے
ایک ہے ، اقوام متحدہ کی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق جون 2019 میں ,وطن
عزیز میں تقریبا 2.4 ملین رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں ، جو اس ملک
کی کل آبادی ہیں ( 20 ملین آبادی کا 0.02٪ سے اوپر کا حصہ بنتا ہے ، مارچ
2019 میں ، اسی تنظیم کے مطابق ، 138000 رجسٹرڈ افغانی اور باقی بنگالی
برمی اور دیگر اقوام موجود ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں کراچی
میں صرف 50،000 افغانی دکھائی گئی ہیں ، جبکہ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں
یہ تعداد 7 لاکھ سے زیادہ ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے پچھلے سال کے رپورٹ پر
تحفظات کا اظہار کرت ہوے کہا تھا کہ صوبے میں مہاجرین کی تعداد زیادھ ھے۔
اعداد و شمار جمع کرنے والی تنظیم متحدہ قومی کمیشن برائے مہاجرین کو جامع
سروے کے ذریعے دوبارہ گنتی کرنے کے لئے کہا گیا ، لیکن ابھی تک کوئی مناسب
جواب موصول نہیں ہوا ہے ، نا ہی نئے اعداد و شمار جاری کیئے گئے ہیں ، جبکہ
مقامی سیاسی جماعتیں اور قوم پرست جماعتیں ان اعداد و شمار پر اپنے خدشات
کا اظھار کرتے آئے ہیں ان کا موقف بھی ہے کہ کراچی میں افغان مہاجرین کی
تعداد در حقیقت زیادہ ہے۔
موجودہ حکومت کے پاس افغان مہاجرین کے بارے میں نرم لہجہ ہے . 2019 میں ،
پی ٹی آئی کی حکومت نے اور وزیر اعظم عمران خان نہ صرف افغان مہاجرین کی
مدت کے لئے ایک سال کی توسیع کا اعلان کیا مگر حکومت بننے کے وقت 2018 میں
، تقریبا 1.5 ڈیڑھ لاکھ افغان مہاجرین کو قومی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا
تھا ، اس پر صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ وزیر اعلی بلوچستان بھی
احتجاج اپنے تحفظات کے ساتھ احتجاج کیا چونکہ بلوچستان کی صوبائی حکومتی
اتحاد میں دراڑیں پڑنے کا شک تک بڑھ گیا ۔ کراچی کے بعد کوئٹہ ملک کا دوسرا
بڑا شہر ہے جہاں افغان مہاجرین بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ جنوری 2019 سے جون
2019 تک صرف 12825 افغان مہاجرین کو افغانستان روانہ کیا گیا ، تاہم اچانک
وباء کے پھیلنے کی وجہ سے یہ سلسلہ 2020 میں عارضی طور پر ملتوی کردیا گیا
ہے اور اب تک نئی شماریات برائے افغان مہاجرین کو بھی جاری نہیں کیا گیا ہے
، عالمی ادارہ کمیشن برائے مہاجرین نے 17 فروری 2020 میں افغانستان واپس
آنے والے افغانیوں سے سروے کیا اور ان سے یہ پوچھا گیا کی ، وہ کتنے عرصے
بعد اپنے ملک واپس آئے ؟سروے کے مطابق ، 65٪ افراد نے 10 سال اپنے وطن
واپسی کی تھی اور 35٪ مہاجریں پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ زیادہ
اکثریت افغان مہاجرین کی خیبرپختونخوا اور فاٹا کے علاقوں سے واپس ہوئی ہے
، جبکہ کراچی اور بلوچستان کے علاقوں سے کم گھرانوں اور لوگوں نے واپسی کی
۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں مقیم افغان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے۔ سندھ
اور بلوچستان کے مقامی طور پر کمزور نظام ہونے کے باعث چند روپیوں کے عیوض
قومی شناختی کارڈ بنوالیتے ہیں ۔
واضح رہے کہ ڈینمارک کی ایک مہاجرین کی فلاحی تنظیم ، دانش ریفیوجی کونسل
نے ، 2018 میں افغان مہاجرین کے ساتھ برا سلوک برتنے کی روپورٹ تو پیش کی
گئی مگر اس رپورٹ میں دور دور تک افغان مہاجریں کی کیمپوں سے دہشتگرد حملوں
اور مقامی سطح پر وارداتوں میں اکثر مہاجرین کے ملوث ہونے کو چہپایا گیا,
جس کی پی ٹی آئ کی حکومت نے تردید تک نہ کی ۔ تاہم ، کراچی اور ملک کے بڑے
شہروں میں ، خودکش حملوں اور غیر قانونی اسلحہ کی فروخت سے منشیات کی
اسمگلنگ میں پکڑے جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں سے بڑی حد تک افغانوں
کے پناہ گزیں کیمپوں سے جا کر ملتی ہے , جو سب کے سامنے ہیں۔ اور یاد رہے
کہ جنیوا کنونشن کے برخلاف ، پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے پاس 1980
سے 2006 تک اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے تحت پاکستان میں کوئی
قانونی کاغذات موجود نہیں تھے ، 2006 کے بعد , 2007 اور 2008 میں افغان
مہاجرین کی گنتی کے لئے ان کے پاس قانونی کاغذات جمع کروانے لازمی قرار
پائے تھے ۔ کراچی میں پشتو بولنے والوں کا 25٪ ہے جبکہ اردو بولنے والے 22٪
اور سرائیکی بلوچی اور دیگر زبانوں کے بعد سندھی بولنے اب تیسرے نمبر پر
ہیں.
پاکستان کے صوبوں خصوصا Sindh سندھ اور بلوچستان نے گذشتہ 40 سالوں سے
افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے مہاجرین کے لئے پناہ گزیں ممالک
کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں, لیکن افغان مہاجرین کی وجہ سے وطن عزیز کے بڑے
شہروں اور صوبوں کی جغرافیائی اور علاقائی حیثیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ لیکن
ملک کی سیاسی قیادت اس سنجیدہ مسئلے پر کوئی نظر نہیں ڈال رہی ہے کیونکہ
انہیں اپنی ووٹروں میں اضافہ بہی کرنا ہے پ پ پ سے لیکر ایم کیو ایم اور ای
این پی نے اپنی نشستیں بچانے کے لیئے کئے علاقوں میں افغان مہاجریں کو شھرت
دلانے کے الزام تو لگتے رہے ہیں ۔ تاہم ایم کیو ایم اور پ پ پ نے ہمیشہ
کراچی اور سندھ میں مقیم افغان مہاجرین کی اس ڈیموگرامی کے خلاف سخت الفاظ
احتجاج کرتے رہے ہیں ۔ پشتون بولنے والے بھائی اس ملک کے باسی ہیں ، لیکن
اگر زبان اور مذہب پر مبنی جعلی ڈومیسائل اور جعلی شناختی کارڈ بنا کر
تارکین وطن کو قومی شہریت دی جاتی ہے تو ، یاد رکھیں کہ ملک کی اکثریت کو
اقلیت میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
افغانستان کی صورتحال اب 1980 یا 2001 کی طرح نہیں ہے ، افغان طالبان اور
افغان حکومت کے مابین امن معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور امریکہ نے
14 مہینوں کے اندر اپنی افواج کا انخلا افغانستان سے واپس کرنے کا آغاز
کردیا ہے جب کہ افغان شہریوں کی جانیں اور ان کے ابائے گاؤں پر امن ہو چکے
ہیں ، اس لیئے جینوا کنوینشن کی تحت افغان بہائیوں کے واپسی لازم ہے , آئیے
اب ہم اپنے افغان مہاجر بھائیوں کو اپنے ملکی روایات اور قومی تقدس کے
احترام کے ساتھ الوداع کہتے ہیں اور انہیں اپنے ملک میں خوشحال زندگی
گذارنے کی امید کرتے ہیں۔
|