سعودی عرب کی نئی حج پالیسی ‘ خوش آئند فیصلہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سعودی عرب نے رواں سال کیلئے حج پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق امسال صرف سعودی عرب میں مقیم افراد حج کی ادائیگی کر سکیں گے۔ وزارت حج کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی مہلک وبا کے سبب بیرون ممالک سے عازمین حج کو سعودی عرب آنے کی اجازت نہیں دی جارہی، اس سال حج کو محدود رکھا جائے گا اور مملکت سعودی عرب میں مقیم مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہی یہ فریضہ ادا کریں گے۔سعودی وزارت حج نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کے پھیلاؤ اور ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث حج کے شرکاء کی تعداد محدود رکھی جارہی ہے جس سے عازمین حج کے مابین سماجی فاصلہ برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ سعودی عرب نے یہ فیصلہ پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں کی مشاورت سے کیا جبکہ نئی حج پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستانی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری سے رابطہ کر کے باضابطہ طور پر مملکت کے فیصلہ سے آگاہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈونیشیا نے پہلے سے ہی کورونا کے سبب اپنے شہریوں کو حج میں شریک ہونے سے روک دیا تھا۔ بعد ازاں ملائشیا، سینیگال اور سنگاپور نے بھی اپنے شہریوں کی حج میں عدم شرکت کا اعلان کیا تھا۔

دنیا بھر کے تمام ملک اس وقت کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔ اب تک لاکھوں افراد اس مہلک وبا کے سبب اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے او ربڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی مختلف قسم کے وائرس پھیلتے رہے اور ان میں اموات کی شرح بھی زیادہ رہی ہے لیکن کورونانے جس تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا کے مریض تقریبا دو لاکھ ہو چکے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح دیگر مختلف ملکوں کی طرح سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ملک بھی ا س وبا سے متاثر ہوئے ہیں۔برادر ملک سعودی عرب چونکہ پوری مسلم دنیا کا دینی مرکز ہے اور زائرین کی بہت بڑی تعداد حج و عمرہ کیلئے یہاں آتی ہے، اس لئے حرمین الشریفین اور دیگر مقامات پر لاکھوں لوگ موجود ہوتے ہیں جن کی صحت و سلامتی کا تحفظ مملکت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اورسعودی حکومت اپنے اس فریضہ کو بخوبی انجام دیتی آرہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے خادم الحرمین الشریفین کی ہدایات پر زائرین کی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اگرچہ دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں زائرین کی موجودگی کے سبب یہاں وبا پھیلنے کے خطرات بہت زیادہ تھے تاہم سعودی حکومت نے جس طرح سکریننگ کے بہترین انتظامات کئے اور احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اس سے برادر ملک یقینی طور پر دوسرے ملکوں کی نسبت بہت حد تک محفوظ رہا ہے اور اﷲ کے فضل وکرم سے یہ مہلک وبا اس طرح شدت اختیار نہیں کر سکی جس طرح امریکہ، اٹلی، سپین،برازیل اوربعض دوسرے ملکوں میں پھیلی۔ سعودی عرب کی پوری سرکاری مشینری اس وقت کورونا کی وبا پر قابو پانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ رمضان المبارک کے بعد چونکہ حج کے ایام قریب تھے اس لئے سعودی حکومت اور اس کے تمام ادارے دن رات کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی خاطر عملی کاوشوں میں مصروف رہے ہیں۔ بیت اﷲ شریف اور مسجد نبوی ﷺمیں خاص طور پر جراثیم کش سپرے وغیرہ کا اہتمام کیاجاتا رہا ۔ بڑے فائیو سٹار ہوٹلز کو قرنطینہ سینٹرز میں تبدیل کر دیا گیا اور جن لوگوں کو یہاں رکھا گیا انہیں وزارت صحت کے تعاون سے اعلیٰ ترین سہولیات فراہم کی گئیں۔ کورونا کی وبا نے جب دنیا میں شدت اختیار کی تو تقریبا 12سو سے زائد افراد جہازوں کی آمدورفت کے باعث سعودی عرب میں پھنس گئے اور وہ اپنے ملکوں میں واپس نہیں جا سکتے تھے۔ اس دوران سعودی حکام نے انہیں مختلف فائیوسٹار ہوٹلزمیں ٹھہرا کر ان کی بھرپور خدمت کی ۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے خاص طور پر ہدایت کی گئی کہ مملکت کے علاوہ بھی کسی ملک کا شہری حتیٰ کہ غیرقانونی طور پر رہائش پذیر شخص بھی اگر کورونا وائرس کا شکار ہو جائے تو اسے مفت طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ ان کے اس اعلان کو پوری دنیا میں سراہا گیا اورڈبلیو ایچ او کی طرف سے بھی اس کی تحسین کی گئی۔

مسلم امہ کا دینی مرکز ہونے کے ناطے سعودی عرب کو اﷲ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کیلئے مسخر کر دیا ہے۔ اس کی عملی مثالیں ہمیں ہر موقع پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران بھی برادر اسلامی ملک جو لازوال کردار ادا کر رہا ہے اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔اس وائرس کے پھیلنے پر ایک مخصوص لابی کی طرف سے سوشل میڈیا پر گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا گیا کہ دیکھیں اب تو طواف بھی روک دیا گیا ہے حالانکہ بیت اﷲ شریف اور مسجد نبوی ﷺ خالی کروا کے اگر جراثیم کش سپرے وغیرہ کا اہتمام کیا جاتاہے تو یہ زائرین کی حفاظت کیلئے ہے۔حقیقت ہے کہ اس عمل کو متنازعہ بنانے کی بجائے اس کی تو تحسین کی جانی چاہیے تھی مگر افسوس کہ محض سعودی عرب کی مخالفت میں ایسی بے پر کی اڑائی گئیں کہ جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔اسی طرح سعودی حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کو حج معاہدوں سے روکنے کی خبریں منظر عام پر آئیں توایک مرتبہ پھر پروپیگنڈہ مشینری حرکت میں ا ٓگئی تاہم پاکستان میں مذہبی امور کے وزیر پیر نورالحق قادری نے کہا کہ حج ملتوی کرنے جیسے اعلان سے پہلے سعودی حکومت بڑے اسلامی ممالک سے مشاورت ضرور کرے گی۔ حج کے حوالہ سے انہی خبروں کے دوران سعودی وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر محمد بن صالح بنتن نے ایک تفصیلی انٹرویود یا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مملکت سعودی عرب حجاج کرام اور عمرہ زائدین کی ہر حال میں خدمت کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ حالیہ دنوں میں چونکہ سبھی ملکوں کو ایک عالمی وبا کا سامنا ہے اس لئے تمام مسلمان ملکوں سے درخواست کی گئی ہے کہ جب تک صورتحال مکمل طور پر واضح نہیں ہو جاتی حج معاہدے نہ کئے جائیں۔ بہرحال اس وقت سعودی عرب میں حالات بہت بہتر ہیں۔ مسجد نبوی سمیت ملک بھر کی مساجد کو نمازیوں کو کھول دیا گیا ہے۔ کرفیو کی پابندیاں ہٹادی گئی ہیں اور سعودی حکام نے اپنے وعدہ کے مطابق شہریوں کو حج کی ادائیگی کی اجازت بھی دے دی ہے۔حج میں سب سے زیادہ انڈونیشیاسے مسلمان شریک ہوتے تھے تاہم کورونا وباکے پیش نظر سب سے پہلے انڈونیشیا نے اپنے شہریوں کو حج میں شرکت سے روکنے کا فیصلہ کیا۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یقینی طور پر یہ درست فیصلہ تھا کیونکہ سب سے پہلے انسانی جان کی قدروقیمت ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے ملکوں نے بھی یہی اعلان کیا۔ اس دوران جب دوسرے ملکوں کی طرف سے اپنے شہریوں کو حج میں شرکت سے روکنے کیلئے فیصلے کئے جارہے تھے، سعودی عرب نے پاکستان سمیت دوسرے مسلمان ملکوں سے مشاورت جاری رکھی اور اب حالیہ حج پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستانی وزیر مذہبی امور کو حج پالیسی سے سرکاری سطح پر آگاہ کئے جانے کے بعد حکومت نے کامیاب درخواست گزاروں کو پیسے واپس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں حج فارمولیشن کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے محدود پیمانے پر حج ادائیگی کے حوالہ سے سعودی عرب کے فیصلہ کا خیر مقدم کیااور کہا ہے کہ برادر اسلامی ملک نے اعلان سے پہلے پاکستان کو اعتماد میں لیا جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، یہ فیصلہ شریعت کے حکم اور موجودہ حالات کے عین مطابق ہے۔حقیقت ہے کہ وزیر مذہبی امور کی یہ بات بالکل درست ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے حرمین شریفین آنے والے زائرین کی صحت و سلامتی یقینی بنانا ہمیشہ اولین ترجیح رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل عمرہ زائرین پر پابندی لگائی گئی اور اب حج کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس پچیس لاکھ سے زائد افراد نے حج کی سعادت حاصل کی تاہم رواں برس صرف سعودی عرب میں مقیم افراد حج کی ادائیگی کر سکیں گے جبکہ دنیا بھر کے ملکوں کی نمائندگی کیلئے ان کے سفارتی عملہ اور بعض دیگر افراد کو شریک کیا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کے حجاج کرام کو کورونا وبا سے بچانے کیلئے یقینی طور پر یہ ایک مشکل مگر دانشمندانہ اقدام ہے جس کی پوری دنیا کے مسلمان ملکوں کی جانب سے تحسین کی گئی ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب اور پوری دنیا کو کورونا جیسی مہلک وبا سے محفوظ رکھے تاکہ ایک مرتبہ پھر سے معمولات زندگی بحال ہو ں اور مسلمان بھرپور انداز میں فریضہ حج جیسی عبادات کی ادائیگی کر سکیں۔
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.