امریکا کا پاکستان کو جواب،8 ارب
ڈالر کم نہیں،سنجیدگی سے حساب کیوں نہ لیں.....؟؟
امریکا نے پاکستان سے متعلق آنکھیں سر پر رکھ لیں.....؟؟؟
نائن الیون کے بعد امریکی اتحادی کی صُورت میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے
والے پاکستان کی قربانیوں کا صلہ آج امریکا یوں دے رہا ہے کہ اِس نے سانحہ
دومئی کے بعد پاکستان کے ہر معاملے میں اپنی آنکھیں سر پر رکھ لی ہیں اور
پاکستان کے ہر مثبت رویے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور دنیا بھر
میں پاکستان سے متعلق اپنی ایسی منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے کہ جس
سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بُری طرح سے مجروح ہورہا ہے اور اِس ستم
یہ کہ گزشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصُوصی نمائندے
مارک گراسمین نے صدر زرداری سے ایک ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات ، باہمی
مفادات،اور باہمی احترام کو آگے بڑھانے اور اعتماد کے فروغ کے حوالے سے
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بلاجھجک کہا کہ یہ بات اچھی طرح پاکستان کو
یاد رکھنی چاہئے کہ امریکا پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ سے اَب تک 8ارب
ڈالر کی امداد فراہم کرچکا ہے اور اِس موقع پر مارک گراسمین نے صدرمملکت کو
اتنہائی تکبرانہ لہجے میں مخاطب کر کے کہا کہ مسٹر زرداری صاحب! آپ خود
سوچیں کہ اَب یہ ایسی بھی چھوٹی رقم نہیں ہے کہ جس کا امریکا پاکستان سے
سنجیدگی سے حساب بھی نہ لے اور اِس کے ساتھ ہی گراسمین نے سر چڑھ کر یہ بھی
بولا کہ”پاکستان کی جانب سے بار بار یہ مطالبہ کیا جانا کہ امریکا پاکستان
پر دومئی کی طرح دوبارہ کوئی کاروائی نہ کرے“ تو یہ بات اچھی طرح کان کھول
کر سُن کہ امریکا کے نزدیک یہ ساری باتیں بے معنی ہیں جبکہ میں آج یہ بات
ایک اہم امریکی ذمہ دار کی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں کہ ”امریکا ایبٹ آباد
جیسی کاروائی دوبارہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرانے سے گزیر کرے گا“اور جب
امریکا کو کبھی یہ ثبوت ملے کہ ہائی ویلیو ٹارگٹ پاکستان میں کہیں بھی وجود
ہیں تو امریکا ہر صُور ت میں اپنی سانحہ دومئی والی کاروائی دُہرانے میں حق
بجانب ہوگا“اِس پر صدر مملکت آصف علی زرداری ہکا بکا رہ گئے اور صرف اتنا
کہہ سکے کہ” یس مسٹر مارک گراسمین !مگر امریکا کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے
کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکا سے کہیں زیادہ قربانیاں دی ہیں اور
اَب تک اپنے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید اور 40ارب ڈالر کا نقصان کرچکا ہے
اور آپ کو اپنے صرف 8ارب ڈالر کی فکر ہے ہمارے 40ارب ڈالر کا ازالہ کون کرے
گا مگر آپ بھی سُن لو مسٹر مارک گراسمین اِس کے باوجود بھی دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت ، عوام اور فوج کا کردار قابلِ تحسین ہے اور
ایک بات یاد رکھیں مسٹر گراسمین!ایبٹ آباد آپریشن پاکستانی حدود کی کھلم
کھلا خلاف ورزی کی ہے امریکا کو اِس کا ازالہ ہر صُورت میں پاکستانی قوم سے
معافی مانگ کر کرنا ہوگا ورنہ پاک امریکا تعلقات کی بہتری کی کوئی اُمید نہ
رکھی جائے۔ ہمارے خیال سے صدر زرداری نے جس انداز سے امریکی ایلجی مسٹر
مارک گراسمین کو جواب دیا وہ امریکیوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے
بشرطیکہ امریکی سمجھیں ۔
اگرچہ اِس سارے منظر نامے کے بعد آج اگر کوئی یہ کہے کہ امریکا ایک مخلص
ملک ہے اور اِس کی دوستی ،دوستی کے اُن تمام معیاروں پر پوری اُترتی ہے
جِسے دنیانے دوستی کے لئے متعین کر رکھا ہے تو ہمیں اِس بات کا یقین کبھی
نہیں آئے گا کہ امریکی اچھی دوستی کے قابل اور قابلِ اعتبار ہوتے ہیں
....آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے ایسا کیوں کہا ہے .....؟؟تو عرض یہ ہے کہ
شائد امریکیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ نہ تو کبھی کسی کے اچھے دوست ثابت
ہوئے ہیں اور نہ ہی زمانے میں اِن کے مخلص ہونے کے ایسے قصے مشورہ ہیں جن
سے یہ بات مان لی جائے کہ امریکی دوستی اور مخلص ہونے کے معیار پر کبھی
پورے اُترے ہوں اِن کے بارے میں تو دنیا بس یہ ایک بات جانتی ہے کہ دنیا
میں بسنے والا کوئی بھی امریکی ہو اِس کے پاس نہ تو دوستی کا کوئی اچھا
معیار ہے اور نہ یہ کسی کے ساتھ مخلص ہوتا ہے یہ تو بس اپنے مفادات کے
حُصولوں کے خاطر اگر کسی سے دوستی کے لئے ہاتھ بڑھائے تو بڑھائے ورنہ اِسے
کسی سے دوستی کرنے میں کوئی دلچپسی نہیں ہوتی ہے مگر اِن ساری باتوں اور
مشاہدات کے باوجود ہمیں حیرانگی ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے ہمیشہ
امریکا سے دوستی کے نام پر اپنی دوستی نبھائی اور امریکا نے حسبِ روایت
اپنے مفادات کے حُصول کے بعد اِنہیں دھوکہ دیا اور پھر اِن سے دوستی کا
ہاتھ بڑھایا اور پھر ہمارے حکمران اِس کی دوستی کے چکر میں پڑ کر خوار اور
بدنام ہوئے اور اِن کے ہاتھ سوائے ذلت اور رسوائی کے کچھ بھی نہ آیا سانحہ
نائن الیون کے بعد تو حد ہی ہوگئی امریکا نے اپنی ہڈ دھرمی سے ایک بار پھر
پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اِسے اپنے مقاصد کے لئے خُوب استعمال
کیا اور ہمارے حکمران اِس کے ہاتھوں کھلونا بنے رہے اور اِس کے اشاروں پر
چلتے رہے یعنی جتنی اِس نے اِن میں چابی بھری یہ چلتے رہے اور جب رک گئے تو
پھر امریکا نے ڈالروں کی شکل میں اِن میں ٹوکن ڈال دیئے اور یہ پھر اپنا
کام کرنے لگے حتی ٰ کہ نوبت یہاں تک آگئی کہ امریکا بغیر ٹوکن ڈالے بھی
اِنہیں چلاتا رہا اور اپنا کام نکالتا رہا مگر اُنہوں نے اِس کے آگے اُف تک
نہ کہا اور اِس سے ڈالروں کی لالچ میں اپنا ہر وہ کام کرتے رہے جسے کرنے کا
یہ اِن سے رات کی تاریکی اور دن کے اُجانے میں حکم دیتا رہا۔
اور اَب اِن تمام منظر اور پس منظر میں یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ امریکی
ڈالروں کے پجاری اور لالچی ہمارے یہ ہی حکمران اپنی کرسیاں بچانے کے خاطر
امریکی دباؤ میں آئے ہوئے ہیں آج ہمارے حکمران شائد یہ بات مانیں یاناں
مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ کم ازکم پاکستانی قوم تویہ بات جان چکی ہے کہ
امریکا کی خصلت دیمک کے مانند ہے جو ایک بار کسی ملک میں گُھس جائے تو پھر
اُسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر کے ہی چھوڑتا ہے اور اِس موقع پر ہمیں یہ
کہنے دیجئے کہ آج امریکا نے پاکستان کو ایساہی کیا ہے جیسے دیمک کسی لکڑی
میں گُھس جانے کے بعد اُسے اندر ہی اندر کھا کھا کر تباہ اور برباد کر دیتا
ہے اور پتہ بھی نہیں لگتا ہے کہ لکڑی ختم ہوچکی ہوتی ہے یکدم اِسی طرح
امریکا نے بھی اپنی چالبازیوں اور ہوشیاریوں سے ہمیں اپنے شکنجوں میں کچھ
اِس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ اَب ہم اِس سے نکل بھی نہیں سکتے ہیں اور ہم اِس
قابل بھی نہیں رہے ہیں کہ اَب ہم اِس سے اپنی جان چھڑا کر خود سے اپنی کوئی
راہ متعین کرسکیں کیوں کہ آج ہمارے ملک کی موجودہ بدترین صُورتحال یہ
بتارہی ہے کہ اِسے اِس نہج تک پہنچانے میں اِس کے بظاہر سب سے عزیز ترین
دوست اور ہمدرد امریکا کی وہ دوغلی پالیسیاں اور مہربانیاں سب سے زیادہ
کارفرما رہی ہیں جو امریکا نے گزشتہ 63سالوں کے دوران گاہے بگاہے اِس پر
نچھاور کیں اور بیچارہ پاکستان کسی لَڈن پپو کی طرح اپنے مستقبل کی ہولناک
تباہی سے بے خبر اِن امریکی نوازشوں اور مہربانیوں کو اپنے دامن میں یوں
سمیٹنے میں منہمک رہا کہ جیسے امریکا کی یہ ڈھیر ساری مہربانیاں اور
نوازشیں اِس کے اُن کارناموں کے صلے میں ہیں جو یہ امریکی اشاروں پر
سرانجام دیتا رہا ہے ۔
مگر یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے اَب تک قدم
قدم پہ اغیار بالخصوص امریکا کی امداد ،بھیک اور قرضے کے لئے دنیا کا ایک
محتاج ترین ملک بنا ہوا ہے اور اِس کی پاکستان پر کی جانے والی ماضی کی اُن
تمام مہربانیوں اور نوازشوں کا راز سانحہ دومئی کے بعد جب کھلا تو میری طرح
شائد ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بھی اِس اُلجھن اور مخمصے میں مبتلا ہوں اور
یہ سوچنے میں مجبور ہوگئے ہوں کہ امریکا نے پاکستان اور پاکستانی عوام پر
جتنی بھی نوازشیں اور مہربانیاں کیں ہیں اُن کے پیچھے یہ سازش چھپی تھی کہ
پاکستان پر ڈالروں کی شکل میں اتنی مہربانیاں نچھاور کردو کہ ہم اِس سے وہ
مقاصد حاصل کرسکیں جن میں امریکی مفادات پوشیدہ ہوں۔اور آج نہ صرف
پاکستانیوں نے محسوس کیا بلکہ ساری دنیا بھی یہ بات اچھی طرح سے جان چکی ہے
کہ امریکا اپنی دوغلی پالیسی سے کس قدر پاکستان کے قریب ہوا اور کیسے اپنے
اُن اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوا جس کی تیاری اِس نے گزشتہ63سالوں سے
شروع کر رکھی تھی۔ |