کرپشن ہمارے معاشرے کا ناسور

بدعنوانی وہ ٹڈی دل ہے جس نے ہمارے محکموں کی فصل کو چاٹ کر نا کارہ کر دیا ہے کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی غریب کی کہیں شنوائی ہوتی ہے۔ بد عنوانی جسے حرف عام میں کرپشن کہا جاتا ہے اسکا مطلب ناجائز کام کرنا یا مجبور لوگوں کی مجبوری سے حکومت کے اہلکاروں کی طاقت کا غلط استعمال ہے۔ کرپشن کا لفظ بد عنوانی، بد چلنی اخلاقی بگاڑ، بد دیانتی، عیبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مشہور فلسفی ارسطو نے اسے بدعنوانی کے معنوں میں استعمال کیا۔ یعنی رشوت لینا، اپنے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھاکر کسی دوسرے کا وہ کام کرنا جس کا وہ اہل نہیں ہے۔ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر اسکا کام رشوت لے کر کرنا۔ یہ ایک نظریہ ہے، ایک مزاج اور فطرت ہے، جو ہر دور میں نئے عنوان کے ساتھ اپنا وجود منواتی ہے۔سخت قوانین ھی اسے جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔پاکستان میں کرپشن میں گزشتہ برسوں کی نسبت سو ا چارسو فیصداضافہ ہوا ہے۔ کرپشن مین محکمہ پولیس، محکمہ اینتی کرپشن، مجکمہ تعلیم، خزانہ، ایکسائز، محکمہ انکم ٹیکس، سی بی آر، محکمہ مالیات، لینڈ برانچ، رجسٹری برانچ، (ڈپتی کمشنر آفس) واپڈا،ترقیاتی محکمے جن میں محکمہ تعمیرات (سب تعمیراتی محکمے)، جو ترقیاتی کاموں کا 35 فیصد فنڈ کرپشن کی مد میں کھا جاتے ہیں۔ اور یہ ترقیاتی کام حکومت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق نہیں ہوتے جو جلداپنی مدت سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھو جاتے ہیں۔ ان ٹھیکوں میں سول کے علاوہ فوجی ٹھیکے بھی شامل ہیں فوجی ٹھیکے ذٰیادہ غیر شفاف ہوتے ہیں کیونکہ ان ٹھیکوں کی چھان بین نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے۔

کرپشن یعنی بدعنوانی کا لفظ آج کل سیاست میں بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ بد عنوانی کے مختلف پیمانے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ۔سرکاری ملازمت پیشہ افراد اپنے افسران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے موقع بے موقع تحائف پیش کرتے رہتے ہیں۔ یا پھر ذاتی تعلّقات سے کام لے کر اپنے چھوٹے چھوٹے کام نکلوا لیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بد عنوانی حکومتی عہدے داروں تک جا پہنچتی ہے۔ بڑے بڑے ٹھیکے منظور کروانا مختلف اہم اور ذمّہ داری والے کاموں کے لا ئسنس حاصل کرنا۔ ایسی اشیاء کے لا ئسنس حاصل کرنا جن کی مانگ زیادہ اور ترسیل میں کمی ہو،جس کی ذخیرہ اندوزی کرکے منہ مانگے پیسے وصول کرنا۔ بڑے بڑے عہدوں پر یا حکومتی شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے یا مہیّا کرنے پر بھاری رشوت کا لین دین کرنا یہ سب بڑے پیمانے کی بد عنوانیوں میں شامل ہیں۔ حکومتی محکموں میں پبلک کے ٹیکس کا پیسہ جو مختلف ترقّیاتی، فلاحی اور اصلاحی کاموں کے لیے مختص ہوتا ہے اس کے ذمّہ داران خرد برد کرکے اس فنڈ کا ایک بڑا حصّہ ہضم کرجاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں سے 45 ویں نمبر پر کرپت ممالک کی لسٹ میں آتا ہے جہاں پر سرکاری فنڈات میں خرد برد اور لوگوں کے نا جائز کاموں کیلئے رشوت لی جاتی ہے اور حکومت کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا جا تا ہے۔

عمران خان کی حکومت کی بنیاد ہی کرپشن کے خلاف تھی تو ان کی حکومت میں بہت بہتری آنی چاہیے تھی جو کہ نہیں آسکی۔ لہذا یہ تشویش ناک بات ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔
کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لیے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والی تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں کرپٹ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے۔ مگر زمینی حقائق اسکے برخلاف ہیں اور کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ کرپشن ہماری پاک دھرتی کو گندہ کر رہی ہے لہٰذا ہمیں اس گند سے پاک ہونے کیلیئے فساد زدہ ذہنیت اور پست اخلاقی روئیے اورحرص و ہوس اور لالچ کو ختم کرنا ہوگا اور یہ ا سی صورت میں ممکن ہے کہ معاشرت، تمدن اور اخلاق میں اچھائی کا شعور اجاگر کیا جائے اور اصلاح کی جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے کرپشن کو جڑ سے اکھجارۃ جا سکے ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ ہم اپمے معاشرے سے اس لعنت کو ختم کر سکیں۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.