دنیا بھر کے ممالک میں منشیات کے استعما ل پر
پابندی کے قوانین بظاہر موجود ہیں،اسکے استعمال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے
جتنی انسانی تہذیب کی، انسان نے اسکا استعمال کب شروع کیا اور سب سے پہلے
کس نے منشیات (شراب، افیون، چرس،بھنگ ،ہیروئن وغیرہ) کا استعمال کیا اس
بارے صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے
اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام عالمی
مذاہب نے اس کے استعمال کو منع کیا ہے ، دین ِ اسلام میں اﷲ تعالیٰ نے شراب
کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے، حضرت محمد ﷺ نے معاشرے میں نشہ آور چیزوں
سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو روکنے کے لئے اس کااستعمال کرنے والے پر حد
مقرر کی ،دین اسلام کی تعلیمات میں معاشرے سے منشیات کاقلع قمع کرنے کی
مکمل صلاحیت موجود ہے، اسلام نے اس کو ہر لحاظ سے ممنوع قرار دیا،اسکو’’ ام
الخبائث ‘‘ ـکا نام دیا اسلام نے اسے تمام جرائم کی ماں کا نام دے کر اس کے
جملہ پوشیدہ عیوب و نقائص بیان کردیے، اسلام نے ہر اس چیز کو جو کسی بھی
صورت میں نشہ کا سبب بنتی ہواس پر حرام کی مہر لگا کر اس کے استعمال کو
ممنوع قرار دے دیا ،اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ’’اے ایمان
والو!شراب اور جواور بت اور پانسے(یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے
ہیں۔سوان سے بچتے رہنا ،تاکہ نجات پاؤ۔‘‘ اﷲ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں
فرماتا ہے ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہاری آپس میں
دشمنی اورر نجش ڈلوادے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم
کو(ان کاموں سے)باز رہناچاہیے۔‘‘(المائدہ ،آیت:91)۔حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے
مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاجو کوئی شراب پیے، اس کو درے
مارواور اگر وہ چوتھی بار اس کا ارتکاب کرے تو اسے قتل کرو‘‘۔حضرت جابر رضی
اﷲ عنہ آگے فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بعد میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے
لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی لی تھی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو
مارا، مگر قتل نہیں کیا۔(ترمذی،ابوداؤد)۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز جو
عقل میں بگاڑ پیدا کردے شراب کے زمرہ میں آتی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام
ہے اور جس نے نشہ آور چیز کا استعمال کیا اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع
ہوگئیں۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا
اوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک شراب کے بارے میں پوچھا جو ایک اناج
(جسے مضر کہتے تھے)نکالا جاتا تھااور جسے وہ اپنے ملک میں پیتے تھے۔رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا اس میں نشہ ہے؟ تو اس نے جواب
دیا،ہاں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔بے شک
اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نشہ آور چیزپیے گا تو ان کو(تینتہ الخبل)
پلایا جائے گا۔انہوں نے پوچھا اے اﷲ کے رسول! یہ’’تینتہ الخبل‘‘ کیا ہے؟آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جہنمیوں کا پسینہ یا پیپ۔(مسلم شریف) حضرت ام
سلمہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر نشہ آور
اور مفتر(اعضاء کو بے حس کرنے والا)چیز سے منع فرمایا۔(ابو داؤد)۔ عالمی
دنیا نے ایک طرف شراب پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور دوسری طرف اسے مختلف
ناموں سے منسوب کر کے اس کی تجارت کا بازار گرم کر رکھا ہے، پوری دنیا میں
دو ہی شہر ایسے ہیں جہاں منشیات کا گزر تک نہیں ان میں ایک مکہ مکرمہ اور
دوسرا مدینہ منورہ ہیں یہ دونوں مقدس ترین شہراسلامی قوانین کی عظمت کا منہ
بولتا ثبوت ہیں،دنیا میں اس وقت قریباََ 57 اسلامی ممالک ہیں لیکن افسوس کی
بات ہے کہ یہ ممالک منشیات کے مکمل خاتمے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے
، ہیروئن کی پیداوار میں گزشتہ تین دہائیوں سے اسلامی ملک افغانستان کا نام
سرفہرست رہا ہے ،وطن عزیز پاکستان میں منشیات کے استعمال کارجحان روس
افغانستان جنگ کے بعد بڑھا ، اسی(80) کی دہائی میں افغانستان میں روسی
مداخلت اور جنگ کے بعد افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے یہاں ڈیرے ڈالے،جس سے
کلاشنکوف اور ہیروئن کا استعمال وطن عزیزپاکستان میں تیزی سے پھیلا ،
ہیروئن (سفیدپاؤڈر)جس کی وجہ سے نوجوان نسل بالخصوص اور پوری قوم بالعموم
بری طرح سے متاثر ہو ئی اور ہو رہی ہے منشیات کے استعمال کی بنیادی وجہ دین
سے دوری،نشہ آور اشیا کے استعمال کے نقصانات سے بے خبری ہے،اس کاروبار میں
ملوث افراد راتوں رات امیر ہو جاتے ہیں ، ہیروئن کی ایک کلو مقدار عالمی
مارکیٹ میں کروڑوں روپے ہے ،وطن عزیز پاکستان میں سگریٹ سازی کی صنعت کو
باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل رہی ہے، سگریٹ کی ڈبی پر’’خبردار!تمبا کو نوشی
صحت کے لیے مضرہے‘‘ لکھ کر حکومت نے سگریٹ سازی کی صنعت کو روکنے یا اس کی
خریدوفروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ،عالمی
ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر ممالک میں تمباکو نوشی سے
متعلق بیماریاں عورتوں اور مردوں کے درمیان شرح اموات میں ساٹھ فیصد تک فرق
کا باعث بنتی ہیں۔ سگریٹ نوشی اور چرس کے استعمال کے علاوہ گزشتہ ایک دہائی
سے نوجوان نسل میں ایک نئے نشہ نے تیزی سے اپنا اثر چھوڑا ہے لڑکوں حتی کہ
لڑکیوں میں بھی شیشہ کا استعمال ایک فیشن بن کررہ گیا ہے، بڑے شہروں کے بعد
چھوٹے شہروں میں چوری چھپے شیشہ کلب کھل گئے ،آج کل آئس نشہ نے ہماری
نوجوان نسل کے ایک بڑے حصہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،، آئے روز تعلیمی
اداروں خاص طور پر بڑے شہروں میں قائم تعلیمی اداروں میں منشیات (ہیروئن ،
چرس ، افیون وغیرہ) خاص طور پر آئس کا نشہ فروغ پا گیا ،سانچ کے قارئین
کرام ! ’’کرسٹل میتھ ‘‘یا ’’آئس ‘‘ کیا ہے؟ ’’کرسٹل میتھ‘‘ نشے پر تحقیق
کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ کرسٹل‘‘ یا ’’آئس‘‘ نامی یہ نشہ ’’میتھ
ایمفٹامین‘‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے
برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر
حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا
جاتا ہے جبکہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے
ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق’’آئس‘‘ کے مسلسل استعمال سے انسان میں مسرت کے جذبات
پیدا ہوتے ہیں اور توانائی کے مشروب کی طرح جسم میں طاقت محسوس ہوتی ہے۔
’’آئس‘‘ پینے کے بعد انسان کے اندر توانائی دگنی ہوجاتی ہے ،اور ایک عام
شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران انہیں بالکل نیند نہیں
آتی۔ ’’آئس‘‘ تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ
انتہائی تیزی سے کام کرتا ہے اور اس میں توانائی آجاتی ہے۔ تاہم جب نشہ
اترتا ہے تو انسان انتہائی تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتا ہے۔ یہ نشہ بالکل
کوکین کی طرح کام کرتا ہے لیکن یہ کوکین سے سستا اور اس سے زیادہ خطرناک ہے
، سانچ کے قارئین کرام !ایک گرام ’’آئس‘‘ 1500 روپے سے تین ہزار روپے میں
بھی فروخت ہورہی ہے۔ ’’آئس‘‘ کا نشہ کرنے والے اکثر افراد شدید ذہنی
بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ
ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں،کراچی میں پولیس اور رینجرز نے
بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکی ہے جہاں ’’کرسٹل‘‘ تیار کی جاتی تھی
جبکہ اس کی ایک بڑی مقدار افغانستان سے اسمگل ہو کر آتی ہے۔ امیر گھرانوں
کے نوجوانوں میں ’’آئس‘‘ کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی
خواہش بھی بتائی جاتی ہے، تاہم اس کے برعکس ’’آئس ہیروئن‘‘ کی لت انسان کو
ذہنی اور جسمانی معذوری کر رہی ہے۔اس کا عادی انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی
طور پر معذور ہو جاتا ہے۔گھر کے کسی فرد کا نشے میں مبتلا ہونے کا اثر پورے
گھر پر پڑتا ہے خاص طور پر وہ نوجوان جنھیں والدین اعلی تعلیم کے لئے کالجز
اور یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید شہری بننے کے ساتھ
والدین کا سہارا بنیں لیکن افسوس کہ چند نادان اْن میں سے غلط راستوں پر چل
نکلتے ہیں ، ماہرین کے مطابق منشیات کے مکروہ کاروبار میں ملوث موت کے
سوداگروں نے کروڑوں روپے کی لاگت سے جدید لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں وہ
دن رات نت نئے اقسام کے نشے تیار کروانے میں مصروف رہتے ہیں، "آئس’’ نامی
نشے کی تیاری بھی ایسی ہی کسی موت کی لیبارٹری کی کارستانی ہے جس نے اس دوا
میں مزید خطرناک کیمیکلز کی آمیزش سے اسے انتہائی خطرناک ، زہریلا لیکن
بظاہر بے ضرر دکھنے والا نشہ بنادیا۔کہ دنیا بھر میں "آئس " نشے کے عادی
افراد کی جانب سے ہی "ریپ اور زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں
جو اس نشے کا خطرناک ترین پہلو ہے۔سانچ کے قارئین کرام !وطن عزیز پاکستان
میں1980کے بعد ہیروئن کا نشہ تیزی سے پھیلا جس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان
اور روس کی جنگ کے دوران اسلحہ اور منشیات کا پاکستان میں داخل ہونا قرار
دیا جاتا ہے پوست کی فصل جوکہ پاک افغان باڈر کے قریبی علاقوں میں کاشت
ہوتی تھی وہاں کے رہنے والوں کی آمدن کا بڑا زریعہ تھی اسی پوست سے ہیروئن
اور دیگر نشے تیار کئے گئے پوست کی فصل پر پابندی اور اینٹی نارکوٹکس
کنٹرول کی کاروائیوں سے بہت حد تک ہیروئن کی سمگلنگ بند ہوگئی لیکن ہیروئن
(پاؤڈر)کا نشہ کم ہوا تو اور بے شمار نشوں نے معاشرے کے نوجوانوں کو اپنی
لپیٹ میں لینا شروع کردیا ،وطن عزیز پاکستان میں اینٹی ناکوٹکس فورس ،
پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی وجہ سے نشہ آور اشیاء کے
خلاف بھر پور کاروائیاں کرتے ہوئے بڑے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا
لیکن اس کے باوجود غیر سر کاری اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ افراد مختلف
قسم کے نشوں کا شکار ہیں جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ساٹھ لاکھ افراد
نشے کے عادی ہیں وطن عزیز میں منشیات جیسی لعنت کے خاتمے اور اس کے خلاف
آگہی دینے کے لئے بے شمار این جی اوز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ
ٹریٹمنٹ سنٹر کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے جہاں مختلف نشوں کے شکار ان
افراد کی بحالی اور علاج ممکن ہو سکے ،سول سوسائٹی نیٹ ورک برائے انسداد
منشیات پاکستان تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمہ
کیلئے خصوصی آگہی مہم چلا رہی ہے،جس کے چیئرمین اکمل اویسی پیرزادہ اور
جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محمدریاض نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں منشیات کے خلاف
کام کرنے والی تنظیموں کو ایک بینر تلے جمع کیا سول سوسائٹی نیٹ ورک برائے
انسداد منشیات پاکستان نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ، اینٹی نارکوٹکس
فورس کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے منشیات کے خلاف ہر ضلع تحصیل میں آگہی کے کام
کو آگے بڑھایا اور بعض جگہوں پر این جی اوز نے ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کئے جہاں
نشے کے عادی مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے ساہیوال ڈویژن کاذکر کیا جائے تو
راقم الحروف (محمد مظہررشید چودھری ) نے گزشتہ سال وزیر اعلی پنجاب سردار
عثمان بزدار کے اوکاڑہ کے دورہ کے موقع پر خصوصی طور منشیات ے عادی افراد
کے لئے ڈویژن بھر کے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں نشے کے شکار افراد کے علاج کے لئے
خصوصی وارڈز کے قیام کی درخواست کی جس پر انھوں سابقہ کمشنر ساہیوال ڈویژن
ندیم الرحمان کو ہدایات دیں کہ راقم الحروف سے رابطہ رکھ کر قابل عمل
اقدامات کئے جائیں ، بعد ازاں راقم الحروف نے کمشنر کو بارہا یاد دہانی
کروائی افسوس کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ایسے وارڈ بنانے میں
کامیاب نہیں ہو پارہی حکومت کی سطح پر ایسے وارڈ بنوانے کاواحد مقصد غریبوں
کو سستے علاج کی سہولت فراہم کرنا تھا ،جبکہ این جی اوز کے تحت تو پنجاب
میں کئی ایک ٹریٹمنٹ سنٹر کام کر رہے لیکن وہاں علاج انتہائی مہنگا ہونے کی
وجہ سے غریب نشے کا شکار شخص علاج سے محروم رہتا ہے جبکہ ایسے ادارے بھاری
فنڈ بھی حاصل کر رہے ہیں ، ساہیوال ڈویژن میں محمد اکرم معظم(عوامی فلاحی
سوسائٹی )، ڈاکٹر محمد اقبال ،غلام نبی ، غلام مرتضی قادری ، ڈاکٹر صدام
حسین ، مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ ، میاں عبدالغفار ، غلام اصغر ، محمد سلیم
نوجوانوں ں منشیات کے خلاف آگہی دینے کے لئے اپنا کام بخوبی سر انجام دے
رہے ہیں ،گزشتہ دودہائیوں سے انسداد منشیات کے عالمی دن کے حوالہ سے اوکاڑہ
میں قومی سماجی تنظیم "ماڈا "رجسٹرڈ اور ادارہ شعور نے آگہی کے کئی کامیاب
پروگرام منعقد کئے ہیں، اے ایم ویلفیئر سوسائٹی پنجاب نے رینالہ خورد اور
عوامی ویلفیئر سوسائٹی بصیر پور نے لوگوں کو منشیات کے خلاف آگہی کے لئے
کامیاب واک ،فری میڈیکل کیمپ اور تقریبات کا انعقاد کیا اور اس عزم کا
اظہار کیا کہ منشیات کے خاتمے کے لئے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے
شانہ بشانہ چلتے ہوئے وطن عزیز کو منشیات کی لعنت سے پاک کریں گے ، منشیات
کے خاتمہ کے لئے علما کرام ،اساتذہ سمیت زرائع ابلاغ پر انتہائی بھاری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لئے بھر
پور کردارادا کریں ٭ |