انسٹیٹیوف آف کمیونی کیشن سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی کے بانی ڈائریکٹر اور معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ

استادوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ 24جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان کی رحلت کے ساتھ ہی علم و دانش کا ایک اور روشن چراغ بجھ گیا۔ڈاکٹر مغیث یکم جنوری 1951ء کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے لیکچرر کی حیثیت اپنی ملازمت کاآغاز گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمعیل خان سے کیا۔بعد ازاں 1982ء میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی کا حصہ بنے ۔2003ء سے 2009ء تک ادارہ علوم ابلاغیات کے ڈائریکٹر 2005ء سے 2011ء تک پنجاب یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف بہیوریل اینڈسوشل سائنسز ،2002ء سے 2005ء تک چیئرمین ہال کونسل پنجاب یونیورسٹی 2006ء سے 2007ء تک سٹوڈنٹ ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین رہے۔وہ 2011ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونی کیشنز سے بطور چیئرمین ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب سے وابستہ ہوگئے۔
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ممتاز ماہر ابلاغیات کے طور پر عالمگیر شہرت کے حامل استاد تھے ۔ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد میڈیا ،تعلقات عامہ ،ایڈورٹائزنگ سے منسلک ہے۔مرحوم چالیس سال سے زائد عرصہ صحافت کے استاد رہے۔وہ ناروے کی اوسلویونیورسٹی میں بھی پڑھاتے تھے۔انہیں جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔2006ء میں زلزلہ زدگان کے لیے ایف ایم ریڈیوکے قیام پر اقوام متحدہ نے بھی ایوارڈسے نوازا۔ہائرایجوکیشن کمیشن نے 2008ء ڈاکٹرمغیث الدین کو ڈبلیوایچ اواور یونیسیف کی جانب سے پولیو ایمبسیڈرنامزد کیاگیا ۔ اپنی رحلت سے قبل ڈاکٹر مغیث الدین شیخ یونیورسٹی آف مینجمنٹ میں ڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔مرحوم کی نماز جنازہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے پڑھائی ۔جس میں بڑی تعداد میں اساتذہ کرام ،ممتاز صحافی ،کالم نگار، اخبارت کے مدیراور اینکر نے شریک ہوئے ۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب ریڈیو جرنلزم شائع ہو چکی ہے۔ امریکہ میں چھپنے والی ایک کتاب کا چیپٹر لکھا ہے۔ اس کے علاوہ انسائیکلوپیڈیا آف انٹرنیشنل کمیونی کیشن ایڈٹ کر چکے ہیں۔ اوپن یونیورسٹی کی کتابوں کے چیپٹر لکھے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں اپنے شعبہ میں سب سے زیادہ ریسرچ پبلی کیشنز کا اعزاز بھی ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کے پاس ہے۔ ڈاکٹر مغیث واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے امریکہ میں اپنے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالہ جات پاکستان پر لکھے اور ان کا زیادہ تحقیقی کام مغربی میڈیا میں پاکستان اور اسلام کا تشخص ہے۔ 170 سے زائد ایم اے کے تحقیقی مقالہ جات کی نگرانی کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ 8 پی ایچ ڈی اور 30 ایم فل سطح کے تحقیقی مقالات کی نگرانی کرچکے ہیں۔
انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ’’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ 2004ء‘‘ سے نوازا گیا۔جبکہ صدارتی ایوارڈ برائے علمی تحقیق "اعزاز فضیلت 2009 "بھی عطا کیاگیا ۔اس سے قبل علمی تحقیق کے اعتراف میں آپ کو امریکہ میں دو بار جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ دیا گیا ۔ آپ اوسلو کالج یونیورسٹی ناروے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر بھی ہیں جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تحقیقی گرانٹ کمیٹی کے رکن ہیں اور پریس کونسل آف پاکستان (PCP) کی مشاورتی کمیٹی کے اہم رکن ہیں۔ ان کا تحقیقی کام عالمی محققین نے اپنے تحقیقی کام میں شامل کیا ہے۔ ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں قائداعظم گولڈ میڈیل دیا گیا۔
قارئین کرام اب جبکہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اس دنیا میں نہیں رہے تو ان کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر علمی ، تحقیقی خدمات کا جہاں ذکر ضروری ہے وہاں ان کے اپنی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کا لطف ہی کچھ اور ہے ۔میں یہا ں ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا ایک انٹرویو قارئین کی نذر کرنے کی جسارت کررہاہوں ۔یہ انٹرویو قابل احترام جناب عمران نقوی نے روزنامہ پاکستان کے لیے لیا تھا، جو روزنامہ پاکستان کے ہفت روزہ " زندگی " کی اشاعت 9 تا 15 مارچ 2008ء میں شائع ہوا ۔ جناب عمران نقوی اور روزنامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ یہ انٹرویو شامل اشاعت کیاجارہا ہے ۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ سے ہونے والی گفتگو کی تفصیلات نذر قارئین ہیں:
سوال: اپنے ابتدائی حالات کے حوالے سے کچھ بتائیں‘ کب اور کہاں پیدا ہوئے‘ تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: 51ء میں لاہور میں پیدا ہوا۔ میٹرک اسلامیہ سکول کینٹ سے اور ایف ایس سی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے پاس کی۔ بی ایس سی آنرز کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ میٹرک اور ایف ایس سی میں سائنس میں چونکہ نمبر زیادہ آئے تھے اس لئے والدین کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر یا انجینئر بنوں۔ میرا یہ مزاج نہیں تھا۔ میں ہر وقت تلاش میں رہتا تھا کہ میرا مزاج کیا ہے؟ میں ڈیبیٹر(debater) تھا اور مباحثوں میں حصہ لیتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک اردو مباحثے کے لئے یونیورسٹی آنا پڑا۔ جب یہاں کا ماحول دیکھا تو جی چاہا کہ فوری طور پر پنجاب یونیورسٹی آنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ میں نے بی اے کرنے کا انتظار نہیں کیا اور ایک ایسے مضمون کا انتخاب کیا جو یہاں پرانٹر کے بعد یونیورسٹی آفر کرتی تھی۔ سو میں بی ایس سی آنرز کے لئے پنجاب یونیورسٹی آ گیا لیکن مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ میری دلچسپی کا موضوع صحافت ہے‘ صحافت سے اگرچہ میں اس وقت واقف نہیں تھا لیکن میرا طبعی رجحان کچھ اسی طرح کا تھا تو لوگوں نے کہا کہ آپ کو اس کے لئے ایک دوسرے شعبے میں جانا پڑے گا۔ اس وقت وارث میر مرحوم شعبہ صحافت کے صدر تھے۔ داخلے کے لئے ٹیسٹ ہوتا تھا۔ میں نے انٹری ٹیسٹ دیا اور پاس کر لیا۔ اس طرح میں والدین کو بتائے بغیر سائنس سے آرٹس کی تعلیم کی طرف شفٹ ہو گیا اور شعبہ صحافت میں داخل ہو گیا۔ ایم اے کرنے کے دوران ہی میری خواہش تھی کہ مجھے تدریس کا شعبہ مل جائے۔ میری یہ خواہش پوری ہو گئی اور ایم اے کا رزلٹ آتے ہی میرا تقرر شعبہ صحافت گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں بطور لیکچرر ہو گیا۔
سوال: گومل یونیورسٹی میں آپ نے کتنا عرصہ گزارا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: میں وہاں چھ سال رہا۔ اس دوران مجھے ایک دو ملازمتیں مل سکتی تھیں لیکن یہ میڈیا سے متعلق تھیں‘ تدریس سے ان کا تعلق نہ تھا۔ میرا انٹرسٹ نہیں تھا اس میں۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں کوئی پوسٹ نکلے۔ یہاں اسسٹنٹ پروفیسر کی ایک پوسٹ خالی ہوئی جس پر میں نے درخواست دی۔ یہ 82ء کی بات ہے۔ اس پوسٹ پر تین امیدوار تھے۔
میں اس وقت گومل یونیورسٹی میں پہلے ہی بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہا تھا۔ میرے علاوہ دیگر امیدواران میں جناب شفیق جالندھری اور جناب مہدی حسن نے بھی درخواست دی۔ مہدی حسن چونکہ ایم اے میں سیکنڈ ڈویژن تھے جو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے قواعد کے مطابق اسسٹنٹ پروفیسر کے لئے نااہل تھے۔ شفیق جالندھری اور مہدی حسن اس وقت صرف لیکچرر تھے اور میں واحد امیدوار تھا جو نہ صرف اسسٹنٹ پروفیسر تھا بلکہ ریگولر بھی تھا۔ میں نے ایم اے صحافت کے علاوہ ایم اے پولیٹیکل سائنس بھی کر رکھا تھا۔ میرے مدمقابل امیدواران کو عمر میں بھی مجھ سے بڑا ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ شفیق جالندھری کو ریگولر پوسٹ کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ اس میں کیا حکمت تھی اس کی تفصیل میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ عارضی آسامی پر میرا تقرر کر دیا گیا اور جناب لیاقت بلوچ جو اس وقت یونیورسٹی یونین کے صدر تھے ٗ کی سفارش پر یہ سب کچھ اس وقت کی طلبہ یونین کے صدر جناب لیاقت بلوچ کی مہربانی سے ہوا ۔
اس وقت کے وائس چانسلر نے مہدی حسن صاحب کو ایڈہاک پر اسسٹنٹ پروفیسر مقرر کر دیا۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ جناب مہدی حسن نے ایڈہاک پر ہونے کے باوجود اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے بھی درخواست نہ دی۔ (جبکہ ہر 6 ماہ بعد توسیع کے لئے درخواست دینا لازم ہوتا ہے) وہ ایڈہاک پر ہوتے ہوئے یونیورسٹی میں بطور ریگولر اسسٹنٹ پروفیسر تنخواہ لیتے رہے۔ اسی طرح اس سے پہلے جب اے آر خالد صاحب نے یونیورسٹی میں خالی آسامی پر درخواست جمع کرائی (اس وقت وہ پی ایچ ڈی نہیں تھے) تو ان کے مدمقابل ڈبل ایم اے (گولڈ میڈلسٹ) اور امریکی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ جناب رمضان اظہر نے بھی درخواست دی لیکن جناب اے آر خالد کے برادرِ نسبتی ڈاکٹر قیوم جو یونیورسٹی کے چیف میڈیکل آفیسر رہے ہیں ان کی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں رمضان اظہر صاحب کے بجائے اے آر خالد کی تعیناتی ہوئی جبکہ اقوام متحدہ کے اہم ادارے یونی سیف نے رمضان صاحب کی بحیثیت کمیونی کیشن ماہر کی خدمات لاکھوں روپوں میں حاصل کر لیں۔ اسی طرح اے آر خالد صاحب کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ عجلت میں پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کرایا گیا چونکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی آسامی (مشتہر) پر درخواست دینے کی آخری تاریخ ختم ہونے کو تھی اور ایک اطلاع کے مطابق ایک میٹرک پاس صحافی بھی شامل تھا ان کا وایوا کرنے والوں میں یوں جلدی جلدی پی ایچ ڈی کا نوٹیفکیشن جاری کروایا گیا اور موصوف ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئے۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ صحافت کے کئی فیکلٹی ممبران آج بھی مزے لے لے کر یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کی پی ایچ ڈی کا خاصا مواد کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر انعام الرحمن کے انگریزی میں لکھے گئے مقالے کے مندرجات کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے۔ بہرحال بعدازاں جناب اے آر خالد نے جناب شفیق جالندھری کی سنیارٹی کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور شاید مقدمہ واپس لئے بغیر یونیورسٹی کی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔
سوال: کچھ لوگ ورکنگ جرنلسٹ تھے پھر تدریس کی طرف آئے لیکن آپ کا کیس مختلف ہے‘ آپ سیدھے تدریس کی طرف گئے‘ اس سے کیا فرق محسوس ہوا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا۔ کمیونی کیشن سٹڈیز کا وہ تصور نہیں ہے جو اخباری جرنلزم کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ذہن سے نکال دیں۔ جن لوگوں نے پرانا ایم اے کیا تھا اب اگر یونیورسٹی کے نئے کورس میں داخلہ لیں تو فیل ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ اس زمانے میں جرنلزم کا مطلب صرف اخبار کے اندر کالم لکھنا تھا یا خبریں بنانا تھا۔ جرنلزم ایک وسیع فیلڈ ہے۔ ایک رپورٹر ضروری نہیں کہ اداریہ نویس بھی اچھا ہو۔ ایک اداریہ نویس ضروری نہیں کہ رپورٹر بھی اچھا ہو۔ اسی طرح ایک رپورٹر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کورٹ رپورٹر بھی اچھا ہو۔ اسی طرح ایک رپورٹر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کلچرل رپورٹر بھی اچھا ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ رپورٹر فیچر بھی لکھ سکتا ہو یا میگزین جرنلزم بھی جانتا ہو۔ خود جرنلزم (پرنٹ میڈیا) کے اندر بھی اتنی فیلڈز موجود ہیں۔ ہمارے ہاں تھیوریز اور ریسرچ کا تصور بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں تو پبلک ریلیشنز بھی پڑھائی جاتی ہے۔ کمیونی کیشن تھیوری بھی ہے۔ پی ایچ ڈی کورسز بھی ہیں۔ یہ کون پڑھائے گا آ کر۔ اب الیکٹرانک جرنلزم بھی آ گیا ہے اس کی اپنی نوعیت ہے۔ ہر چیز کی سپیشلائزیشن ہے اب۔ لہٰذا اب ایم اے جرنلزم کر کے بھی ہمارے ہاں کوئی نہیں چل سکتا۔ ایم اے جرنلزم کے بعد ہمارے ہاں ملٹی میڈیا کی کلاس بھی ہوتی ہے۔ ملٹی میڈیا کے لئے ہمیں ایک لیکچرار رکھنا پڑتا ہے جو ایم اے جرنلزم کے ساتھ نیشنل کالج آف آرٹس سے ملٹی میڈیا کا ماسٹر بھی ہے۔ ہمیں ٹی وی جرنلزم پڑھانے کے لئے ٹیلی ویژن کے بندے بھی بلوانا پڑتے ہیں کیونکہ اس کی نوعیت الگ ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکن یونیورسٹی میں ہمارا ایک ڈیلی انگریزی اخبار نکلتا تھا۔ میں اس میں کام کرتا تھا پھر جب طالب علم تھا تو عبدالقادر حسن کے ساتھ افریشیاء میں کام کرتا تھا۔ عبدالقادر حسن موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں۔ میں استعفیٰ دے کر گومل یونیورسٹی گیا۔ مطلب یہ کہ ڈی یا سی کیٹیگری کے کسی چھوٹے سے کونے میں بیٹھ کر پروف ریڈنگ کرنے سے آدمی یونیورسٹی میں تدریس کے قابل نہیں ہو جاتا۔ یہاں بڑے بڑے جرنلسٹ آتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ ٹیچنگ کر سکیں۔ بعض کلاس میں کھڑے ہو کر دو جملے بھی ادا نہیں کر سکتے۔ اب یہ اس زمانے کی جرنلزم نہیں ہے کہ آپ نے لوگوں کو خبر بنانے کے طریقے سکھانے ہیں اور وہ بھی بہت پرانے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! ایک سوال آپ سے کئی مرتبہ پوچھا گیا ہو گا‘ میں بھی پوچھ رہا ہوں کہ کیا اچھا جرنلسٹ بننے کے لئے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ایم اے کرنا ضروری ہے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: یہ ایسا ہی سوال ہے کہ انٹرنیشنل افیئرز پر مضمون لکھنے کے لئے یا لیکچر دینے کے لئے انٹرنیشنل افیئرز میں ایم اے ہونا ضروری ہے۔ نہیں بھی ہے اور ہے بھی۔ جو لوگ براہ راست جرنلزم میں جاتے ہیں ان میں رجحان پایا جاتا ہے انہیں شوق ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص نے بی اے کیا اور داخلے کے لئے درخواست دی۔ 1200 سٹوڈنٹس ہیں‘ سارے کے سارے جرنلسٹس تو نہیں بن جاتے۔ جرنلسٹ کوئی کوئی بنتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں جرنلسٹ کا تصور بہت محدود ہے۔ ہمارے ہاں اس کا تصور بہت وسیع ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے علم میں جتنا اضافہ ہو گا اس کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اگر کوئی ایم اے کر لیتا ہے تو اس کا ویژن وسیع ضرور ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کا رجحان ہے اور شوق بھی ہے اور پھر آپ ڈگری حاصل کریں تو یہ سونے پر سہاگہ والی بات ہو گی۔ ہم نے آج کے کورسز میں اپنے ماسٹر کی ٹریننگ میں ہم نے پریکٹیکل کی ٹریننگ رکھ دی ہے کہ آپ ایم اے کے دوران بھی ایسے کورسز پڑھیں گے اور پھر انٹرن شپ بھی کریں گے۔ میڈیا میں جا کر آپ کو دو اڑھائی ماہ بیٹھنا ہو گا۔ اخبارات کے دفتر میں‘ ٹیلی ویژن کے دفتر میں آپ بیٹھیں‘ رپورٹ لکھیں‘ کام کریں‘ اس کی مانیٹرنگ ہو گی‘ زبانی وائیوا ہو گا تب کہیں جا کر آپ کو ڈگری ملے گی۔ پہلے یہ نہیں ہوتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ پروفیشنل سبجیکٹس پڑھانے کے لئے ہم جرنلسٹس کو یہاں بلاتے بھی ہیں۔ وہ آ کر پڑھاتے ہیں۔ بیشمار ورکنگ جرنلسٹس ہمارے ہاں داخلہ لیتے ہیں۔ آخر وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں تو داخلہ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں شام کی کلاسز ورکنگ جرنلسٹوں سے بھری پڑی ہیں۔ اب اخبارات میں لکھا ہوتا ہے کہ ایم اے جرنلزم کو ترجیح دی جائے گی۔
سوال: جرنلزم سے کمیونی کیشن سٹڈیز تک کا سفر کیا ہے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: اب ہم یہاں پر ماس کمیونی کیشن کی ایک ڈگری نہیں دیتے۔ پہلے ایک ایم اے پاس کمیونی کیشن ہوتا تھا۔ اب ہم اس کی کئی سپیشلائزیشنز پیش کرتے ہیں۔ اس وقت ایم اے کی چار ڈگریاں دے رہے ہیں۔ کہنے کو یہ ایم اے ماس کمیونی کیشن ہے لیکن اب تقاضے بدل گئے ہیں مثلاً پہلے ہم ایک کورس پڑھاتے تھے‘ ٹیلی ویژن جرنلزم کا‘ ایک کورس ریڈیو جرنلزم کا‘ ایک کورس پرنٹ کا۔ اب ایک کورس سے گزارا نہیں ہو گا۔ ہم نے پریکٹس کورس کو ساتھ ملا دیا ہے۔ ہم نے الیکٹرانک میڈیا الگ کر دیا ہے۔ اس کے لئے پہلے دو سیمسٹرز میں تو سب لوگ مشترکہ کورس پڑھتے ہیں۔ پھر تیسرے کورس سے ان کی کلاسز علیحدہ ہو جاتی ہیں۔ ریڈیو والے ریڈیو اور ٹیلی ویژن والے ٹیلی ویژن میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر وہ سکرپٹ رائٹنگ سیکھتے ہیں‘ ایڈیٹنگ سیکھتے ہیں‘ ڈرامہ پروڈکشن سیکھتے ہیں‘ ڈاکومنٹری بناتے ہیں‘ پروگرام پروڈیوس کرتے ہیں۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا اور تھیوری کا ایک علیحدہ ماسٹر پروگرام ہے۔ اسی طرح پبلی کیشن ایڈورٹائزنگ کی علیحدہ ڈگری ہے۔ یہ باقاعدہ ایک سند بن گئی ہے۔ ایڈورٹائزنگ اور اشتہاری ایجنسیاں کس طرح کام کرتی ہیں‘ کیسے ڈیزائن کرتی ہیں۔ پورے کا پورا ایک فیلڈ ہے۔ اسی طرح ہم نے ڈویلپمنٹ کمیونی کیشن ایک علیحدہ پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کی الگ ڈگری ہے۔ اسی طرح اس سال سے ہم نے فلم اینڈ ٹیلی ویژن سٹڈیز کا ماسٹر پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ پاکستان نہیں ساؤتھ ایشیاء کا واحد انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں چار پانچ ڈگریاں دی جاتی ہیں۔
سوال: ایف ایم 104.6 کا تجربہ کیسا رہا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے ماتھے کا جھومر ہے۔ جتنے پرائیویٹ ریڈیو سٹیشن چل رہے ہیں اتنا بڑا انفراسٹرکچر کسی پرائیویٹ ریڈیو کا آپ کو لاہور میں نہیں ملے گا۔ یہاں تک کہ ریڈیو پاکستان کا ایف ایم جو ہے اس کا انفراسٹرکچر ہمارے ریڈیو سے کم ہے۔ ہمارے پاس زیادہ جگہ ہے۔ بچے یہاں آ کر ٹریننگ لیتے ہیں۔ جب آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو وہاں کے پہاڑ کے اوپر اپرچھتر جسے پی سی کہتے ہیں بہت مشہور ہے۔ یہاں خیمے کے اندر ایک ریڈیو سٹیشن شروع کر دیا۔ پہلے یہ خیال تھا کہ یہاں نشریات بند کر کے وہاں شروع کر دیں کیونکہ ٹرانسمیٹر ہمارے پاس ایک ہی تھا جو یونیسکو نے ہمیں عطیہ کیا تھا۔ ہمارے ایک طالب علم نے کہا کہ آپ پیسوں کا انتظام کریں میں ایک اور ٹرانسمیٹر بنا دیتا ہوں۔ اس نے ٹرانسمیٹر بنا دیا جسے ہم گاڑی میں رضائیوں میں رکھ کر اپرچھتر پہاڑی پر لے گئے‘ خیمے کے لئے ہم نے یونیسف سے رابطہ کیا۔ ہم نے کہا ٹاور لگانے میں ہماری مدد کریں۔ ہم نے خیموں کے اندر ریڈیو کلب قائم کیا کیونکہ انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا تھا۔ بجلی نہیں تھی‘ ٹیلی ویژن دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ ہم نے بیٹری کے ریڈیو تقسیم کروائے۔ 5 ہزار سے لے کر 8 ہزار تک ریڈیو مظفرآباد کے گرد ونواح کے خیموں میں تقسیم کرائے۔ لوگ ریڈیو سنتے تھے۔ پاکستانی میڈیا نے ہمیں اتنی کوریج نہیں دی جتنی انٹرنیشنل میڈیا نے دی۔ وائس آف امریکہ سے اس ریڈیو کے بارے میں پروگرام نشر کئے گئے۔ بی بی سی نے دو رپورٹیں اس ریڈیو سٹیشن کے بارے میں نشر کیں۔ این ایچ کے جاپان ٹیلی ویژن نے ڈاکومنٹری بنائی۔ یہاں پر ایوارڈز دیئے گئے لیکن ہمارے بچوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ان کی خدمات کا اعتراف یونائیٹڈ نیشنز نے کیا۔ پچھلے سال اس نے ہمیں ایوارڈ دیا ہے۔ ہمارے ایف ایم کی نشریات 2004ء میں شروع ہوئی ہیں۔ ارشاد حسین مرحوم اس کے پہلے پروگرام منیجر تھے۔ اس ریڈیو سٹیشن کے منصوبے کا آغاز شفیق جالندھری صاحب کے دور میں ہوا تھا۔ اس کی ریڈیو فریکونسی اور نشریات کا آغاز میرے دور میں ہوا۔ اس کی رینج 15 سے 20 کلومیٹر ہے۔ اس سے زیادہ کی ہمیں اجازت نہیں ہے۔ ہم پیمرا والوں کو سالانہ 30 ہزا ر روپیہ فیس دیتے ہیں۔
سوال: یونیورسٹی میں سمسٹر سسٹم رائج ہے لیکن اس سسٹم میں تو کچھ خامیاں بھی ہیں؟ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: بالکل ہیں۔ اس سسٹم کے فائدے بھی بہت ہیں اور نقصان بھی۔ نقصان اس طرح کہ سمسٹر کی کامیابی کا دارومدار استاد پر ہے طالب علم پر نہیں۔ اگر ٹیچر پیشہ ورانہ طور پر فٹ ہے‘ فیئر ہے‘ دیانتدار ہے تو یہ سسٹم کامیاب ثابت ہو سکتا ہے اور اگر ٹیچر فیئر نہیں ہے‘ ریگولر نہیں ہے‘ جانبدار ہے تو یہ سسٹم ناکام ہو جائے گا۔ فائدہ یہ ہے کہ طالب علم مصروف رہتا ہے۔ ایکٹو رہتا ہے۔ کام کی رفتار تیز رہتی ہے۔ سال کے اختتام پر رٹہ لگا کر امتحان نہیں دیتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ٹیچر کتنا دیانت دار ہے۔ ورنہ وہ بلیک میل بھی کر سکتا ہے۔ ٹیچر کو ذمہ دار بھی ہونا چاہئے۔
سوال: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ تعلیمی بجٹ اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے مواقع موجود ہیں‘ اب کوئی مسئلہ نہیں ہے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: پہلی بات تو یہ کہ جس نے پڑھنا ہوتا ہے وہ بجٹ کے بغیر بھی پڑھ لیتا ہے اور جس نے نہ پڑھنا ہو وہ بجٹ کے ہوتے ہوئے بھی نہیں پڑھ سکتا۔ میں اس وقت خوش ہوں گا جب یکساں نظام تعلیم رائج ہو گا۔ بجٹ بڑھ گیا ہے تو دوسری طرف تعلیم بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ ٹاٹوں کا سکول جو ہے وہاں مواقع موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ کتابیں بھی مفت میں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کو لاہور گرامر سکول میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ آپ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ طبقاتی تفریق بھی پیدا کر رہے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دے رہے ہیں تو یکساں مواقع دیں وگرنہ معاشرتی کشمکش پیدا ہوتی رہے گی۔
سوال: ڈاکٹر صاحب تھوڑا موڈ تبدیل کرتے ہیں‘ یہ بتایئے گا کہ کرکٹ سے دلچسپی ہے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: جنون کی حد تک۔
سوال: ہمارے قارئین کے لئے پاکستانی کرکٹ میں سے ٹیسٹ وننگ کمبی نیشن تو تشکیل دیں۔
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: قاسم عمر‘ سعید انور‘ ظہیر عباس‘ جاوید میانداد‘ انضمام‘ عبدالرزاق‘ عمران خان‘ وسیم اکرم‘ وسیم باری‘ سرفراز نواز‘ عبدالقادر۔
سوال: ہمارا قومی کھیل کون سا ہونا چاہئے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: فٹ بال۔ ہماری قوم اسے افورڈ کر سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے اسے پروموٹ نہیں کیا گیا۔ غریب قوم فٹ بال افورڈ کر سکتی ہے ورنہ میں سکواش کہتا۔
سوال: کوئی ایسا استاد جس کی وجہ سے آپ نمایاں ہوئے اور کوئی ایسا شاگرد جو آپ کی وجہ سے نمایاں ہوا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: سکول میں میرے ٹیچر تھے محمد الیاس صدیقی مرحوم‘ اسلامیہ ہائی سکول کینٹ میں میری گروتھ میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ حال ہی میں ایک طالب علم جسے میں بہت آئیڈیلائز کرتا ہوں ایک معاصر ٹی وی چینل کا اینکرپرسن محمد جنید ہے۔ پتہ نہیں کیوں I like him very much۔
سوال: ڈاکٹر مجاہد کامران کی وی سی شپ میں کیسا محسوس کیا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: نارمل۔ جنرل ارشد کی تمام تر خوبیوں کے باوجود ایک ٹیچر ان کے ساتھ فرینک نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹیچر وائس چانسلر کے ساتھ‘ ڈاکٹر مجاہد کامران کے ساتھ ہم بے تکلف ہیں یہ ایک بڑا فرق ہے۔ بے تکلفی کی ایک وجہ‘ میں اپنے حوالے سے بات کروں گا کہ ہم ایک ہی شعبے میں طالب علم رہے ہیں فزکس میں۔ شاید ہی کوئی ٹیچر ایسا ہو جو وی سی صاحب کا فزکس کا ساتھی ہو۔وقت گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ شخص ہر قد آور اور بہادر پروفیسر سے خوفزدہ رہتا ہے اور اسے ڈسٹرب کرنے کے لیے اوچھے اور بے وقار ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے ۔یوں اس شخص نے VC شپ کو بے وقار کردیا ہے ۔ حالانکہ وائس چانسلر کو وسیع القلب بھی ہونا چاہیئے تنگ نظر اور منتقم نہیں ۔
سوال: کل کے استاد اور آج کے استاد میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: کل کے استاد کا ارتکاز تھی اور وہ ریلیکس تھا۔ نہ زیادہ تمنائیں نہ زیادہ بکھیڑے‘ پڑھایا اور اپنے گھر آئے‘ شام کی سیر کی۔ نماز پڑھی‘ مطمئن استاد ہوا کرتے تھے۔ آج کے استاد ریلیکس نہیں ہے۔ اٹھان بہت ہے لیکن مطمئن نہیں ہے۔
سوال: No knowledge without college واقعی؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: میں نہیں سوچتا کہ لفظ کالج جو ہے اسے نالج کے ساتھ Relate کیا جا سکے۔ ہو سکتا ہے کالج کے اندر نالج نہ ملتا ہو‘ یونیورسٹی میں ملے۔ اہمیت ماحول کی ہے۔ بہتر ماحول کے بغیر نالج نہیں ملتا ہے۔ سازگار ماحول ملے تو نالج کی گروتھ ہوتی ہے۔
سوال: پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان کس طبقے نے پہنچایا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: ان پڑھ نے نہیں پہنچایا۔
سوال: گویا پڑھے لکھے نے پہنچایا؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: بس یہی کافی ہے۔ میں نے کہہ تو دیا۔
سوال: اتنے بحرانوں کے بعد قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے‘ الیکشن ہوئے ہیں‘ الیکشن کے بعد جو رتیں بدل رہی ہیں‘ یہ آپ کو کیسی لگ رہی ہیں؟ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: اب سیاست دان جس امتحان میں پڑ گئے ہیں اگر ان کے پاؤں ڈگمگائیں نہیں تو لگ رہا ہے کہ شاید ہم جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ ہی جائیں۔ سیاستدان اگر ذات کی قربانی دینے کو تیار رہیں اور اداروں کے استحکام کی بات کریں تو بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔ عوام نے کسی ایک کو مینڈیٹ نہ دے کر اچھا کیا ہے۔ اب ایک بیلنس قائم ہے اور بیلنس یہ کہ سب نے ایک ہی کشتی میں سوار ہونا ہے۔
سوال: یہ کہاں تک درست ہے کہ پیپلزپارٹی کو ہمدردی کے ووٹ ملے ہیں؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: کسی حد تک درست ہے۔ محترمہ کی شہادت سے ایک جذباتی فضا بنی ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا بھی ہوا ہے پنجاب کے حوالے سے کہ پنجاب نے پیپلزپارٹی کو مثبت رسپانس دیا ہے۔ ماضی قریب میں پنجاب میں پی پی پی کی جو صورت حال تھی اس پارٹی نے اس سے بدتر پرفارم کیا ہے۔ حالانکہ پنجاب کے لوگوں نے بتایا ہے کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد وہ سندھی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
سوال: بیرون ملک پاکستانی پاسپورٹ کے وقار میں کس طرح اضافہ ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: یہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک ایک خودمختار ملک بنے‘ اس کی پالیسیاں اس کے اندر بنیں۔ خودمختار قوموں کی ہر جگہ عزت ہوتی ہے۔ غلام اور غیرمختار قوم کی کبھی عزت نہیں ہوتی۔
سوال: کیا کبھی ممکن ہو سکے گا کہ ہم اپنی پالیسیاں‘ منصوبے حتیٰ کہ حکومتیں امریکی مداخلت کے بغیر بنا سکیں؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: امریکہ سے نجات کی دو ہی صورتیں ہیں ایک ہمارے ہاں جمہوری عمل چلتا رہے اور اگر خدانخواستہ ایسا نہیں ہوتا تو بہت بڑا انقلاب آئے جسے ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں آیا تھا۔
سوال: ہمارے لئے کون سا نظام حکومت بہتر ثابت ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ: صدارتی طرز جمہوریت۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 659688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.