قوانینِ اسباب و علل کے تقاضے

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی‘ نفسیاتی اور روحانی مغالطے کا شکار ہیں‘ ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ تھے‘ وہ اپنے عصا سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کے لیے عالم اسباب کے تقاضے نرم نہ کر سکے‘ حضرت عیسیٰ ؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ اور ان کے ساتھی رومن ایمپائر کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے اور نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب ترین نبی ہیں لیکن انھیں بھی عالم اسباب میں تلوار‘ گھوڑے‘ زرہ بکتر‘ اونٹ‘ پانی‘ خوراک اور لباس کا بندوبست کرنا پڑا۔

یہ بھی اپنا دفاع کرتے رہے‘ یہ بھی جنگیں لڑتے رہے اور یہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے رہے‘ انھیں بھی ساتھیوں‘ دوستوں‘ بھائیوں‘ ہجرتوں‘ معاہدوں اور معاش کی ضرورت پڑتی رہی‘ یہ بھی تجارت فرماتے رہے اور یہ بھی اپنے گھر آباد کرتے رہے. آپ کسی دن فرقے اور مسلک کی عینک اتار کر سیرت کا مطالعہ کیجیے‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے. آپؐ نے پوری زندگی کمزور تلوار خریدی اورنہ ہی بیمار گھوڑے اور لاغر اونٹ پر سفر کیا‘ آپؐ نے لباس بھی ہمیشہ صاف‘ ستھرا اور بے داغ پہنا اور رہائش کے لیے شہر بھی معتدل‘ پر فضا اور مرکزی پسند کیا‘ آپؐ نے زندگی بھر عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال رکھا‘ اچھا کھانا کھایا‘ اچھا پھل پسند فرمایا‘ اچھی جگہ اور اچھے لوگ پسند کیے‘آپ غور کیجیے عرب حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے شہروں سے زیادہ دور نہیں جاتے تھے لیکن آپؐ جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے 156 کلو میٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہو ئے‘ آپؐ غزوہ احد کے موقع پر بھی احد کے پہاڑ پر چلے گئے۔
آپؐ نے عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کے گرد خندق بھی کھودی اور آپؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے یہودیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے‘ یہ کیا تھا؟ یہ عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں ہیں‘ نبی اکرمؐ چند سیکنڈ میں معراج سے مستفید ہو گئے‘ وہ واپس آئے تو دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی‘ آپؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے بھی کر دیے لیکن آپؐ جب عالم اسباب میں واپس آئے تو آپؐ کا دندان مبارک بھی شہید ہوا‘ آپؐ طائف میں زخمی بھی ہوئے‘آپ کو بھوک‘ پیاس‘ گرمی‘ سردی اور خوف بھی محسوس ہوتا رہا‘ آپؐ کی چھت بھی ٹپکتی رہی‘ آپؐ بیمار بھی ہوئے‘ آپؐ پر زہرکا اثربھی ہوا۔ آپؐ جادو کے اثر سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے اورآپؐ غربت اور بیماری سے پناہ بھی مانگتے رہے‘ یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی ذی روح آزاد نہیں ہو سکتا. آپ اگر وجود رکھتے ہیں‘ آپ کی گردن پر اگر سر موجود ہے اور آپ اگر سانس لے رہے ہیں تو پھر آپ نبی ہوں‘ ولی ہوں یا پھر عام انسان ہوں آپ عالم اسباب کے تمام اسباب کے محتاج ہیں۔

آپ پھر والدہ کی قبر پر آنسو بھی بہائیں گے اور آپ کو پھر اچھی تلواروں‘ اچھے گھوڑوں‘ اچھے اونٹوں اور ٹرینڈ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی‘ آپ کو پھر شفاف پانی‘ اچھی خوراک‘ طاقتور قانون‘ تیز رفتار انصاف‘ ماہر ڈاکٹرز‘ معیاری تعلیم‘ رواں سڑک کی ضرورت بھی ہو گی اور آپ کو پھر سردی‘ گرمی اور وباء تینوں کا مناسب بندوبست بھی کرنا پڑے گا. ہم اگر عالم اسباب میں ہیں تو پھر ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہوگا‘ پھر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی طرح سبب کو ’’اسٹیٹ آف آرٹ‘‘ بنانا ہو گا.

ایسی دوائیں بھی ایجاد کرنا ہوں گے جو امت مسلماں کو صحت مند رکھ سکیں‘ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی بھی ایجاد کرنا ہوگی جو سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی پیدا کر سکے‘ ہمیں انسانوں کے سکون اور آرام کا بندوبست بھی کرنا ہوگا‘ ہمیں کرہ ارض پر دم توڑتی حیات کا خیال بھی رکھنا ہوگا‘ہمیں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچانا ہوگا ‘ ہمیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے تحفظ بھی دینا ہوگا اور ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا مومن اسباب کی دنیا میں بھی دنیا کو اپنے برابر نہیں آنے دیتا. ہم محمدی ہیں اور قینچی ہو یا راکٹ ہو ہم کسی بھی فیلڈ میں دنیا کو آگے نہیں نکلنے دیں گے۔

ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسباب کی دنیا میں بھیجا لیکن ہم اسباب ہی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے‘ *اس امت کو کون بتائے گا انسان اس عالم اسباب میں سبب کے بغیر بے سبب ہو جاتا ہے اور بے سبب لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مار کھا جاتے ہیں*‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کشمیر،انڈیا اور برما کے مسلمانوں کو دیکھ لیجیے‘یہ لوگ اگرعالم اسباب میں اسباب کے مالک ہوتے تو کیا دنیا ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتی؟خدا کے لیے! آپ مسلمان ہوتوآپ عالم اسباب کو عالم اسباب مان کر اسباب کا بندوبست کرو‘ ورنہ دنیا آپ سے جینے کا حق تک چھین لے گی۔ اسی عالم اسباب میں امت اور قوم و گروہ کی امامت اور لیڈر شپ بھی ہے اور محنت و کوشش برائے رزق بھی ہے, مبتذلات سے دوری بھی کامیابی کا ایک سبب ہے, لہو لعب سے دور بھی یعنی بے وقت و بے جگہ کوئی کام انجام دینا جیسے فجر کے وقت ظہر پڑھنا یا قیام وقت سجدہ کرنا یا باتھ روم میں کھانا کھانا وغیرہ عمل کو ضایع کرنے وقت اور جگہ کے غلط استعمال کرنے میں آئیں گے اور منزل پر پہنچنے میں ناکامی کا بھی سبب ہیں نیز اسباب کی فراہمی کیلئے جدوجہد کوشش کے ساتھ توکل علی اللہ, دعا, توسل کی نفسیاتی قوت, دانش اور طاقت کی محدود قوت سے آگے عالم غیب کو بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو ہاتھ پیر ہلانے کی ہے۔۔۔۔ اس ہاتھ پیر دماغ ہلانے کی حد کیا اور کہاں تک ہے؟
اس حد و سرحد کی شناخت کیلئے, اپنے کسی بھی عمل کیلئے اپنی ہمت و طاقت کو ناپنے کا صرف ایک ہی وسیلہ ہے اور وہ یہ کہ اپنی ہمتوں اور قوتوں کو کم از کم تین سے چار دفعہ اپنی آخری انتہا تک تجربہ کرنا چاہیے۔

استعداد و ہمت کی انتہا (EXTREME POTENTIAL) کو ناپنے کا اس کے علاوہ کوئی آلہ ووسیلہ نہیں کیونکہ ہر انسان کے حالات و امکانات مختلف ہوتے ہیں لہذا کسی دوسرے کے تجربہ کو ہردفعہ کسی دوسرے کیلئے قیاس کرنا اور دوسرے پر منطبق کرنا درست نہیں ہوتا۔ فلاں نے ایسے کرلیا تھا، فلاں تو یوں کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ

نئے اصول ابتداء میں سخت لگتے ہیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ سہل ہوجاتے ہیں اور "عادت" بن جاتے ہیں لہذا حدودِ عافیت (COMFORT ZONE) کو وقت کے ساتھ ساتھ وسعت دیتے رہنا چاہیے۔ ممکن تو یہ ہے کہ پرانی مثالوں سے آگے جایا جائے اور انسان پرانے اصولوں اور تجربوں کو نئے انداز میں نئے طریق سے انجام دے اور تجربہ کرے۔ پرانا اصول فائدہ نہیں دے رہا تو کیوں نہیں دے رہا لہذا نئے وسائل اور نئی امنگ کے ساتھ نیا تجربہ کریں اور نئے اصول تخلیق کریں۔

کائنات میں کچھ اصول مستقل یعنی غیر متغیر تبدیل نہ ہونے والے ہوتےہیں اور کچھ اصول غیر متغیر ہوتے ہیں۔ یہاں فطرت کا کوئی جبر نہیں ہوتا بلکہ انسان مکمل مختار ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کو جہنم میں جھونک دے یا ہمت و حوصلہ سے مشکلات پریشانیوں اور گناہوں کے اثرات سے نکل جائے۔

یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہم اُس وقت تک یہ نہیں جانچ سکتے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں، کیا ہمارے بس میں ہے اور کیا نہیں جب تک ہم اپنی حدود عافیت سے نکل کر اپنی ہمتوں کو آخری انتہا تک تجربہ نہ کرلیں۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں تمام مسلمانوں سے گزارش کروں گا کہ موجودہ کروونا وائرس نامی بیماری سے بچنے کےلیے بھی اور ہر طرح کی بلا, مشکل, مصیبت, پریشانی, آزمائش سے نکلنے کیلئے ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہوگا جو کہ عین سنت بھی ہے اور ہمارے باشعور ہونے کی دلیل بھی!!!
خدا پسند زندگی میں خدا پسند اہداف کے حصول اور کامیابی کے سفر میں۔۔۔
مشکلات، پریشانیاں، مصیبتیں، بلائیں۔۔۔
مادّی اور روحانی (نفسیاتی) شعبوں میں تین طرح کی ہوتی ہیں:
1۔ خدا کی طرف سے ارتقائی مراحل کا لازمی جزءہیں جو ہر نئے مرحلے میں انسان کیلئے موجود ہوتی ہیں، نیز بعض اوقات اور بعض جگہیں یا بعض ذہنی ساختیں فطری اور قدرتی طور پر مشکلات آور ہوتی ہیں۔جیسے کربلا کی سرزمین جس پر ہر نبی ؑ اور ہر ولی ؑ کو صعوبتوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔
2۔ افراط و تفریط، کاہلی، سستی، آرام طلبی، عیش کوشی، راحت طلبی، عافیت طلبی، حد سے نکل جانے، توازن برقرار نہ رکھنے کے نتیجے میں ہمارے اپنے ہاتھوں/اعمال کی پیدا کردہ۔
3۔مومن کی خدا کے عطا کردہ وسائل سے غفلت اور بے بصیرتی/ اپنے اور دشمن کے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہمی, بدگمانی یا پھر دوستوں, خیرخواہوں سے تعصب اور حسد اور بدگمانی یاخوش فہمی کے نتیجے میں مشترکہ دشمنوں، حاسدوں کی طرف سے منصوبہ بندی کے تحت پیدا کی گئی مصیبتیں و مسائل۔
ان مصیبتوں کے حل کیلئے ہمیں۔۔۔
1۔ عظیم صبر و استقامت، کثرت سے دعا و توسل, کثرت سے گریہ و استغفار
2۔ ہوشیاری اور زیرکی ،متوازن عمل
3۔ کثرت حصول علم کی کوشش، علماء اور دانشمندوں سے مشورہ، محنت، ہمت، جانفشانی، تدبیر، تفکر و تعقل، نہ تھکنے والا بھرپور بروقت و فوری عمل و جدوجہد۔
انجام دینا چاہیے۔۔۔۔
یہ سب عالم اسباب کے لوازمات ہیں۔۔۔
▪️مشکلات کی پہلی قسم دراصل مشکل نہیں بلکہ یہ کائنات کے الہٰی قوانین کے تحت پیش آنے والے واقعات ہوتے ہیں جس سے انسان آشنا نہ ہو تو اسے یہ مشکل لگتی ہے عذاب لگتا ہے۔ جبکہ آزمائش کے اس مرحلے پر صرف صبر و برداشت اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے ،اور دعا و توسل کی ۔اپنے وقت پر یہ خود بخود خداوند تعالیٰ کے لطف و کرم کے قانون کے تحت آسانی میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
▪️ البتہ بقیہ دو مشکلات حقیقتاً مشکل ہوتی ہیں جس میں سراسر قصور خود ہمارااپنا ہوتا ہے لہذا اس میں اگر فرد تنہا گرفتار ہے تو سب سے پہلے خود اُس کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ کثرت سے گریہ و استغفار کرے اور مشکلات سے نکلنے کی عملی کوشش و تدابیر اختیار کرے۔ البتہ ارد گرد کے افراد پر بھی لازم ہے کہ اپنے دینی بھائی کے ساتھ مشکل سے نکلنے میں تعاون کریں اور اگر مشترکہ الہی اور خدائی اہداف رکھنے والا کوئی ایک گروہ یا طبقہ یا پورا معاشرہ گرفتار ہے تو سب ایک دوسرے کی مدد و تعاون سے جدوجہد کریں۔

پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہماری مشکلات و پریشانیوں اور آزمائشوں میں ہماری کمر ہمت و قوت کو مضبوط بنادے اور ہمیں اسلام پر عمل کرنے کے توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ ہمارے مولا و آقا حضرت امام ِ زمانہ (عج) کی نصرت کیلئے ہمیں اُس زندگی سے آشنا فرما دے جس کی ہمیں اپنے مولا کے ساتھ ضرورت ہو۔ آمین یا رب العالمین
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.