ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی المعروف البیرونی 5
ستمبر 973ء میں خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، بیرون میں پیدا ہوئے اور
اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ وہ ایک بہت بڑے محقق اور سائنس دان تھے۔
البرونی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ خوارزم میں البرونی کے سرپرستوں یعنی
آلِ عراق کی حکومت ختم ہوئی تو اُس نے ”جریان“ کی جانب رخت سفر باندھا اور
اپنی عظیم کتاب ”آثار الباقیہ عن القرون الخالیہ“ مکمل کی۔ حالات سازگار
ہونے پر البیرونی دوبارہ وطن لوٹا اور وہیں دربار میں عظیم بوعلی سینا سے
ملاقات ہوئی۔
کاث شہر دریائے جیحون (دریائے آمو) کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ اس کے
اردگرد کئی مضافاتی بستییاں تھیں جن میں ایک بستی کا نام بیرون تھا۔ اس
مضافاتی بستی میں ایک یتیم بچہ پرورش پا رہا تھا جس کا نام محمد بن احمد
تھا جو دنیا میں البیرونی کے نام سے مشہور ہوا۔ البیرونی شروع ہی سے قدرتی
مناظر کے دلدادہ تھے۔ پھول پودے جمع کرنا ان کا مشغلہ تھا، اسی لئے ان کی
والدہ انہیں ابو ریحان کہہ کر پکارتی تھیں۔ البیرونی کے والد ایک چھوٹا سا
کاروبار کرتے تھے لیکن ان کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے
لیے اور اپنے بیٹے کے لیے جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے روزی کمانے پر مجبور ہو
گئیں۔ اس کام میں البیرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ البیرونی نے 14برس
کی عمر میں یونانی اور سریانی زبانوں پر مہارت حاصل کرلی اور یونانی علم سے
پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کے بارے میں ان کا
شوق اور بڑھ گیا۔ یونانی عالم، اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلے البیرونی کو
فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور علی کی خدمت میں (جو خوارزمی خاندان
کا شہزادہ تھا) لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لیے الگ گھر تعمیر کرایا
اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز البیرونی کو فلکیات اور ریاضی کے
علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبد
الصمد کی شاگردی میں دے دیا۔
ایک روز البرونی کی نباتات کے ایک یونانی عالم سے ملاقات ہو گئی۔ البرونی
نے اسے ایک باغ میں پھول توڑنے اور جنگل کے درختوں کے نیچے پودوں کو کاٹتے
دیکھا تو اس یونانی علم کے پاس پہنچ کر احتجاج کرتے ہوئے کہنے لگا: ”جناب
آپ ان بھولوں کو کیوں توڑ رہے ہیں اور پودوں کو کیوں کاٹ رہے ہیں؟ کیا آپ
میری طرح ان کو کاٹے بغیر اور انہیں زندگی سے محروم کیے بغیر ان کی تصویریں
نہیں بنا سکتے ہیں؟“ یہ سن کر یونانی علم ہنس پڑا اور کہنے لگا: بیٹے میں
ان بھولوں اور پودوں کا علم کی خاطر جمع کر رہا ہوں، ان پودوں اور پھولوں
سے ہم بیماریوں کے علاج کے لیے دوائیں تیار کر تے ہیں۔ یہ سن کر البیرونی
خوشی سے طلایا: تو آپ نباتات کے عالم ہیں؟ یونانی علم نے پیا رسے کہا: ہاں
میرے بیٹے، میرا خیال ہے تمہیں پھولوں اور پودوں سے بہت محبت ہے۔ البیرونی
نے کہا میں تو تمام قدرتی مناظر سے محبت کرتا ہوں۔ ستاروں، درخت، پودے،
پھول، پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں سب ہی مجھے پسند ہیں۔یہ یونانی عالم البیرونی
کو روزانہ تعلیم دیتا رہا اور نباتات کا علم سکھاتا رہا۔ اس وقت البیرونی
کی عمر گیارہ سال تھی۔ تین سال گزر گئے اور ابو ریحان چودہ برس کا ہو گیا،
اس عرصے میں اس نے یونانی اور سریانی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی اور
یونانی علم سے پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کے
بارے میں اس کا شوق اور بڑھ گیا۔ یونانی علم اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلے
البیرونی کو فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور علی کے خدمت میں جو
خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لیے الگ گھر
تعمیر کرایا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز فلکیات اور ریاضی کے
علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبد
الصمد کی شاگردی میں دے دیا۔
البیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں
لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں ”کتاب الہند“ ہے جس میں البیرونی نے
ہندوؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی
حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس کتاب سے ہندوؤں کی تاریخ سے متعلق جو
معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل
نہیں ہوسکتیں۔ اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن
اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سال ہندوستان
میں رہ کر سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوؤں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ
برہمن تعجب کرنے لگے۔ البیرونی کی ایک مشہور کتاب ”قانون مسعودی“ ہے جو اس
نے محمود کے لڑکے ”سلطان مسعود“ کے نام پر لکھی۔ یہ علم فلکیات اور ریاضی
کی بڑی اہم کتاب ہے۔ اس کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور
ریاضی دان سمجھا جاتا ہے۔ البیرونی نے پنجاب بھر کی سیر کی اور ”کتاب
الہند“ تالیف کی، علم ہیئت و ریاضی میں البیرونی کو مہارت حاصل تھی۔ انہوں
نے ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور
جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے
کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام ”البیرونی گریٹر“ رکھا گیا
ہے۔
ان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے، انہوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا
طریقہ دریافت کیا، زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا، نظری اور عملی
طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر ریسرچ کی، انہوں نے بتایا کہ
فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ
ایک دوسرے سے متصل مختلف الاشکال برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار
رکھتا ہے، انہوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اور متنبہ کیا کہ
زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔
البیرونی وہ عظیم مفکر تھے، جنہوں نے جدید آلات اور کمپیوٹر کے بغیر
کارہائے نمایاں انجام دیے اور زمین سے متعلق تقریباً درست پیمائشیں، کیمیا
گری کے فارمولے اور ریاضی کے اصول وضع کیے، جن کی بنیاد پر آج سائنس کی
عمارت کھڑی ہے۔ حیرت کی بات ہے آج ناسا اپنے خلائی سیارے اور جدید ترین
ٹیکنالوجی سے زمین کا ”رداس“ یعنی ریڈیئس6371 کلومیٹر بتاتا ہے، جو
ابوریحان البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل حیرت انگیز درستگی
کیساتھ ناپ لیا تھا، جو کہ 6335 کلومیٹر بنتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے
کہ البیرونی نے یہ پیمائش کیسے کی؟ البیرونی سے پہلے مامون الرشید نے
ماہرین کے دو گروپوں کو زمین کی پیمائش کا کام سونپا۔ ان ماہرین نے صحرا
میں شمال اور جنوب کی طرف سفر کیا اور دوپہر کے وقت سورج کے زاویے کی بار
بار پیمائش کر کے زمین کا ریڈیئس معلوم کیا۔
البیرونی بھی ان ماہرین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا اور زمین کی پیمائس
مزید صحت اور درستگی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن سرمایے کی کمی اور صحرا
میں سفر جیسے مشکل اور خطرناک کام کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ تب
الیبرونی نے الجبرا اور جیومیٹری کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی پیمائش کی
اور ایک ایسے طریقے کا کھوج لگایا جو نسبتاً آسان اور نتائج کے حوالے سے
انتہائی کارگر تھا۔
البیرونی نے افق کا زاویہ ناپنے کے لیبارٹری کا انتخاب کیا۔ پہاڑی کے
انتخاب کے بعد دوسرا مرحلہ پہاڑی کی بلندی ناپنے کا تھا۔ اس کے لیے
البیرونی نے پہاڑی سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر زمین سے پہاڑی کی چوٹی کا
پہلا زاویہ (ڈگری 1) معلوم کیا، پھر فاصلہ d طئے کیا اور دوسرا زاویہ (ڈگری
2) معلوم کیا، پھر ان دونوں معلوم شدہ زاویوں اور ان کے درمیان طے شدہ
فاصلے d کی قیمت متعلقہ فارمولے میں دے کر پہاڑی کی بلندی معلوم کر لی۔
زاویے معلوم کر نے کے لیے البیرونی نے اسطرلاب (Astrolabe) نامی آلہ
استعمال کیا۔
اسطرلاب ایک بڑے سے ڈائل والا آلہ ہے، جس کے درمیان گھڑی کی سوئی جیسی ناب
لگی ہوئی ہوتی ہے۔ زمین سے پہاڑی کی چوٹی کا زاویہ معلوم کرنے کے لیے
البیرونی نے سوئی نما ناب کے دونوں سروں اور پہاڑی کی چوٹی کو ایک سیدھ میں
کر کے دیکھا۔ جس طرح بندوق کی شست دیکھ کر نشانہ لیا جاتا ہے، جب تینوں ایک
سیدھ میں نظر آنے لگے تو ڈائل پر لکھے درجے دیکھ کر زاویہ نوٹ کر لیا۔
پہاڑی کی بلندی معلوم کرنے کے بعد البیرونی نے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر آلے
کی مدد سے دور نظر آنے والے افق (وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر
آتے ہیں) کا زاویہ معلوم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پیمائش کے لیے البیرونی
کافی عرصہ تک نندنہ کے قلعے (نندنہ کے قلعے کے کھنڈرات پنڈ دادنخاں سے 22
کلومیٹر دور اب بھی موجود ہیں) میں قیام پذیر رہا اور جب اسے لگتا کہ فضا
صاف ہے تو وہ پہاڑی پر چڑھ کر یہ پیمائش کرتا۔ درست نتائج کے لیے اس نے کئی
بار یہ عمل دہرایا۔ افق کا زاویہ معلوم کر لینے کے بعد البیرونی نے حساب
کتاب کیا اور اسے زمین کا رداس یا ریڈیئس معلوم ہو گیا۔ اس سارے عمل میں
البیرونی نے کل چار قیمتیں معلوم کیں، اسطرلاب کا استعمال کر کے تین زاویے،
اور ایک فاصلہ۔ دو زاویے اور ایک فاصلہ پہاڑی کی بلندی معلوم کرنے کے لیے
اور پھر افق کا زاویہ آخری نتیجہ حاصل کرنے کے لیے۔
ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی المعروف البیرونی13 دسمبر 1048ء میں 75
سال کی عمر میں افغانستان کے شہر غزنی میں وفات پاگئے۔
حوالہ جات: وکی پیڈیا، Mathshistory، مسلم سیاسی افکار: اعظم چوہدری)
|