ریسکیو 1122کلرسیداں کی ایمبولینس کی کہوٹہ منتقلی

کلرسیداں کی سیاست میں گزشتہ دو ہفتوں سے زبردست گرمی دیکھنے و سننے کو مل رہی کہ ایم این اے صداقت علی عباسی نے ریسکیو 1122 کلرسیداں کے دفتر سے ایک عدد ایمبولینس کہوٹہ بھجوا دی ہے جو کہ کلرسیداں کے عوام کے ساتھ زیادتی برتی گئی ہے اس حوالے سے مختلف افراد کی مختلف رائے ہے زیادہ تر لوگ صداقت علی عباسی کے خلاف بول رہے ہیں لیکن دفاع میں بہت کم افراد بولتے سنائی دے رہے ہیں اس وقت کلرسیداں کی سیاسی فضاء صداقت علی عباسی کے خلاف جا رہی ہے تا حال ان کی طرف سے بھی کوئی خاص وضاحت جاری نہیں کی جا رہی ہے جس وجہ سے زیادہ تر عوام ان کی ہی قصور وار سمجھ رہے ہیں ان کی طرف سے اس حوالے سے مکمل خاموشی بھی ان کے خلاف چلنے والی مہم کو مزید ہوا دے رہی ہے انہیں سامنے آنے چاہیئے اور اصل بات عوام کے سامنے لا کر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرنی چاہیئے بصورت دیگر وہ ملزم سے مجرم بنتے چلے جائیں گئے جہاں تک میں نے اس حوالے سے اپنی ریسرچ کی ہے ریسکیو 1122کے افسران سے بھی بات ہوئی ہے ان کے علاوہ بھی بہت سے متعلقہ افراد سے بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ریسکیو1122کہوٹہ کے قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں پر ایمبولینس اور دیگر سٹاف و دیگر ضروریات اشیاء کی شدید قلت تھی تو محکمہ کے اعلی حکام نے کلرسیداں سمیت پنجاب کے دیگر ریسکیو 1122کے دفاتر سے فالتو چیزیں کہٹہ دفتر میں ٹرانسفر کروا لی ہیں تا کہ وقتی طور پر اس نئے بننے والے دفتر کو چلایا جا سکے اس میں ایم این اے صداقت علی عباسی کا کوئی زرہ برابر بھی کردار نظر نہیں آ رہا ہے سرکاری اداروں کو چلانا ایم این اے یا ایم پی اے کا کام نہیں ہوتا ہے ان کو چلانے کیلیئے گوورنمنٹ نے بھاری تنخواہوں پر آفیسرز بھرتی کر رکھے ہیں محکموں کو کس طرح سے چلانا ہے یہ صرف متعلقہ افسران کی زمہ داری ہوتی ہے انہوں نے جہاں سے ضروری سمجھا جس دفتر میں کوئی سامان ضرورت سے زائد پایا گیا ہے انہوں نے کہوٹہ دفتر میں شفٹ کروا دیا ہے تا کہ وقت طور پر کام چلایا جا سکے کسی بھی سرکاری دفتر سے کسی قسم کا سامان بھی دیگر دفاتر میں شفٹ کرتے وقت اس حلقے کے ایم این اے یا ایم پی اے سے کہیں بھی کوئی زرہ برابر بھی مشورہ نہیں لیا جاتا ہے متعلقہ افسران کو اس حوالے سے مکمل اختیار حاصل ہوتے ہیں کہ وہ کام چلانے کیلیئے کسی بھی سرکاری ادارے سے بوقت ضرورت کوئی بھی سامان یا دیگر ضرورت کی چیز کہیں بھی شفٹ کروا سکتے ہیں 2007میں جب کلرسیداں تحصیل کہوٹہ سے الگ ہوئی تو اس وقت تحصیل کہٹہ میں کل 22یونین کونسلز شامل تھیں جن میں سے کہوٹہ اور 11کلرسیداں میں شامل کر دی گئی تھیں تو کیا اسوقت کہوٹہ کے رہنے والے سیاسدان یا عوام یہ مطالبہ کرتے کہ کلرسیداں میں جانے والی یو سیز کا سامان تو کہوٹہ کے کھاتے سے خریدا گیا تھا اور اس سمان کو ادھر ہی رہنا چاہیئے کلرسیداں والے اپنا نیا سامان خرید لیں ایسا مطالبہ بلکل کہیں سے بھی سامنے نہیں آیا تھا کہوٹہ میں جتنے بھی سرکاری ادارے تھے جب ان کو کلرسیداں میں تقسیم کیا گیا تو سٹاف اور دیگر سامان بھی ساتھ ہی کلرسیداں میں شفٹ کیا گیا تھا تو یہاں اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا ہے ریسکیو 1122کا دفتر صرف کلرسیداں میں موجود تھا جب کوٹہ میں اس کا قیم عمل میں لایا گیا تو وہاں پر ضرورت کے پیش نظر سامان دیگر دفاتر سے کہوٹہ شفٹ کروایا گیا ہے تا کہ کلرسیداں اور کہوٹہ دونوں جہگوں پر کان چلایا جا سکے میرے خیال میں صداقت علی عباسی کو اس متعلق کوئی اختیار ھاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری ادارے سے ایک عدد یموٹر سائیکل بھی کسی دوسرے دارے میں منتقل کروا سکیں اور نہ ہی سرکاری اداروں کے سربراہ کسی ایم این اے کی اپنے اداروں میں مداخلت برداشت کرتے ہیں متعلقہ حکام نے کلرسیداں دفتر سے روزانہ کے حساب سے رونما ہونے والے حادثات کی رپورٹ طلب کی رپورٹ کے مطابق تحصیل کلرسیداں میں اس طرح کے ایمرجنسی واقعات کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر صرف دو یا تین ہے جن سے نمٹنے کیلیئے دو عدد ایمبولینس کافی ہیں لہذا کلرسیداں دفتر میں موجود تسیری ایمبولینس کو ضرورت سے زیادہ قرار دے کر کہوٹہ شفٹ کیا گیا ہے اور یہ کلرسیداں والوں کی طرف سے کہوٹہ والوں پر احسان ہی سمجھ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا ہم نے کہوٹہ والوں سے کچھ لیا نہیں بلکہ دیا ہے اﷲ نہ کرے کلرسیداں میں کوئی بڑا حادثہ درپیش آئے جن بھی ضرورت پڑی کہوٹہ سمیت دیگر ریسیکو 1122کے دفاتر سے بھی گاڑیاں کلرسیداں پہنچ جائیں گی کلرسیداں سے ایک عدد ایمبولینس کہوٹہ منتقلی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کہوٹہ والے مشکل وقت میں کلرسیداں کی مدد نہیں کریں گئے میں یہ بات یہاں پر بلکل واضح کرتا چلوں کی صداقت علی عباسی کی اتنی جرآت ہی نہیں ہے کہ وہ اتنا بڑا قدم اٹھا سکیں کہ ایمبولینس کلرسیداں سے کہوٹہ منتقل کروا سکیں ہر کام کا ایک طریقہ کار ہوتا کچھ کام ایم این ایز یا ایم پی ایز کے کرنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو صرف سرکاری اداروں کے سربراہان ہی انجام دے سکتے ہیں موجودہ حکومت کے قیام کے وقت سے سرکاری ادارے تو ویسے بھی سیاسی نمائندوں کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں اب ان کی سرکاری محکموں میں مداخلت نہ ہونے کے برابر ہی رہ چکی ہے لہذا کلرسیداں والوں کو اپنے دل بڑے کرنے ہوں گے اور اس بات پر مکمل اکتفا کرنا ہو گا کہ اﷲ پاک نے ہمیں کسی کو کچھ دینے کی توفیق دی ہے ریسکیو 1122 کی ایمبولینس کا کہوٹہ شفٹ ہونا کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے جن افسران نے گاڑی شفٹ کی ہے کل وہی بوقٹ ضرورت ہمیں گاڑی مہیا بھی کریں گئے ہمارے بلیئے خوشی کی بات ہے کہ ریسکیو 1122کلرسیداں کے دفتر میں عنقریب بہت سا نیا سامان آنے والا ہے اور انشاء اﷲ موٹر سائیکل ایمبولینس بھی ملنے کی توقع کی جا رہی ہے اس کے باوجود بھی ہمارے ایم این اے صداقت علی عباسی کو اپنے عوام کے سامنے آ کر اپنی صفائی پیش کرنی چاہیئے اس میں ان کی بہتری ہو گی گھبرانے سے کام نہیں چلے گا
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169430 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.