دنیوی زندگی کی بنیاد ہی موت وحیات کی کشمکش ہے۔ بہت سے
بڑے بڑے حقائق ایسے ہیں کہ سارے انسان انہیں ماننے پر متفق نہیں۔ لیکن موت
ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہر ذی شعور شخص نہ صرف اسے مانتا ہے کہ اس پر پختہ
یقین رکھتا ہے۔ جو مذہب بیزار ہے وہ بھی موت کو مانتا ہے۔ البتہ اس ماننے
میں یہ فرق ضرور ہے کہ اہل ایمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد پھر
اٹھائے جائیں گے۔ دنیوی زندگی کےاپنے ایک ایک قول و عمل پر احکم الحاکمین
کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ سزا و جزا کے فیصلے ہوں گے۔ اسی عقیدے کی بنیاد
پر وہ کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی زندگی کی حقیقت کو جان کے شب و روز گزاریں۔
جس مالک و رازق نے نہیں تخلیق فرمایا، ان کی ہداہت و راہبری کیلئے انبیاء و
رسل علیہم السلام کو بھیجا، اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں۔
لیکن جو لوگ اس فکر سے آزاد ہو کر خدا بیزار یا ملحد ہو جاتے ہیں، ان کے
نزدیک دنیا کی چہل پہل اور رنگینیاں ہی سب کچھ ہیں۔ وہ ذہنی آسودگی اورجسم
کی آسائش کیلئے نفس پرستی میں مبتلا ہو کر آخری حدیں بھی پھلانگ جاتے ہیں۔
یہ سلسلہ روز اول سے چل رہا ہے اور ہمیشہ چلتا ہی رہے گا۔ لیکن دین اسلام
کا بغور مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں موت وحیات کا فلسفہ مادی
زاویۂ نگاہ سے بہت حد تک مختلف ہے۔ تعلیمات اسلامیہ کی روشنی میں بعض ایسے
افراد ہیں جو طبعی اعتبار سے تو زندہ ہیں مگر حقیقتاً ان کا شمار مردوں میں
ہوتا ہے... اسی کے برعکس کچھ ایسے بھی ہیں جو ظاہراً تو مردوں کی فہرست میں
ہیں لیکن در حقیقت وہ زندہ جاوید ہیں، ان کا نام نامی، شخصیت و کردار، اور
امتیازات و خصوصیات بنی نوع انسان کے کیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔اس حوالے سے
مادی اور معنوی دونوں زاویۂ نگاہ کے اختلاف کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ مادی
اعتبار سے صرف وجود کی حرکت کو حیات تسلیم کیا گیا ہے، چاہے اس میں ذرہ
برابر اچھائی ہو یانہ ہو... لیکن معنوی اعتبار سے اسلام اور قوانین اسلام
کا نظریہ اس لئے مختلف ہے کہ اس میں انسانی زندگی اور اس کی شخصیت روحانی
اقدار پر منحصر ہے یعنی اگر وجود فائدہ مند ہے تو حیات اور اگر بے فائدہ ہے
تو عدم حیات یعنی موت ہے۔آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ اور کورونا کا دور ہے۔
جب کبھی فیس بک یا وٹسایپ کھولو تو زیادہ خبریں اموات کی ہی نظر آتی ہیں۔
ایسے ۔محسوس ہوتا ہے کہ موت سر پر منڈلا رہی ہے۔ بڑی بڑی علمی، فکری،
روحانی اور کاروباری شخصیات آنکھوں کے سامنے آسودہ خاک ہو رہی ہیں۔ یہ
مناظر ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہیں کہ ہم آخرت کی تیاری کرلیں۔ باقی سارے
معاملات کی فکر بجا لیکن یہ بھی تو یاد رکھیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ اگر
صرف پچھلے دو ہفتوں کی بات کریں تو کئی ہستیاں داغ مفارقت دے گئیں۔ ہم سب
کے عزیز و اقارب اور جاننے والے کئی احباب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ سب کی
مغفرت اور بلندی درجات کیلئے دعا گو ہیں۔ ان میں معروف روحانی شخصیت
اورآستانہ چورہ شریف کےسجادہ نشین پیرسیدمحمدکبیرعلی شاہ گیلانی مختصر
علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے ۔ پیر صاحب ملک بھر میں روحانی حوالے
سے اپنی الگ پہچان رکھتے تھے اور تمام مکاتب فکر میں انہیں انتہائی احترام
کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی نے خواتین میں
حجاب اور پردے کی اہمیت کو اجاگر کرنےکےلئے ""عالمی چادر اوڑھ تحریک""کی
بنیادرکھی اورخواتین میں پردےکاشعوراجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ایک اور فکری شخصیت مولانا غلام محمد سیالوی بھی پچھلے ہفتے کورونا کا شکار
ہو کر کراچی میں وفات پاگئے۔آپ ایک طویل عرصہ تنظیم المدارس میں اپنی خدمات
سرانجام دیتے رہے، انہوں نے شعبہ امتحانات میں اپنی تنظیمی صلاحیتوں کو
بروئے کار لا کر اس کو ایک منظم شعبہ بنایا، علاوہ ازیں ملی و دینی خدمات
میں وہ ایک معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، چیئرمین بیت المال کے طور
پر طویل عرصہ ذمہ داریاں نبھائیں۔ چیئرمین پنجاب قرآن بورڈ اور ممبر اسلامی
نظریاتی کونسل پاکستان بھی رہے۔ عظیم علمی شخصیت، استاذ العلماء، مفسر
قراٰن، شیخ الحدیث والتفسیر، مصنف ومحقق کتبِ کثیرہ حضرت علامہ مولانا عبد
الرزاق بھترالوی صاحب 10 جون کو اسلام آباد میں رضائے الٰہی سے انتقال
کرگئے۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو فکر آخرنصیب فرمائے
آمین
|