حضرت جنید بغدادی ایک بہت بڑے
بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے بہت سے مرید اور شاگرد تھے۔ ان میں ایک شاگرد ایسا
تھا جس کے ساتھ آپ بہت مہربانی سے پیش آتے تھے۔ حضرت جنید کے دوسرے شاگردوں
کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی۔ انھوں نے ایک روز ان سے شکایت کرتے ہوئے کہا
کہ آخر وہ بھی ہماری ہی طرح آپ کا شاگرد ہے، پھر آپ اس کے ساتھ ہم سے زیادہ
اچھا سلوک کیوں کرتے ہیں؟۔
حضرت جنید بغدادی نے جواب دیا: میرا یہ شاگرد اَخلاق واَدب اور علم ودانش
میں تم سے بہت بڑھا ہوا ہے اسی وجہ سے میں اسے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔تمہاری
تسلی کے لیے ایک روز اس کا امتحان بھی ہوجائے گا۔
اس کے چند روز بعد حضرت جنید بغدادی نے اپنے شاگردوں کو جمع کر کے انھیں
ایک ایک مرغی اور ایک ایک چھری دی اور کہنے لگے :جاؤ اِن مرغیوں کو ایسی
جگہ ذبح کرو جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔
سب شاگرد گئے اور اپنی اپنی مرغی کو ایسی جگہ پر ذبح کر کے لے آئے جہاں
کوئی آدمی نہ تھا۔ مگر وہ شاگردِ رشید اسی طرح زندہ مرغی واپس لے آیا۔حضرت
جنید بغدادی نے اسے پوچھا:کیوں بھئی! تم نے مرغی کو ذبح کیوں نہیں کیا؟۔
شاگرد نے نیازمندی سے عرض کیا:حضور! مجھے ایسی کوئی جگہ نہیں مل سکی جہاں
کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔ میں جس جگہ بھی گیا وہاں اللہ تعالیٰ کو موجود
پایا؛ اس لیے مجبور ہوکر مرغی واپس لے آیا ہوں۔
یہ سن کر حضرت جنید بغدادی نے اپنے دیگر شاگردوں سے فرمایا : تم نے دیکھ
لیا کہ جتنی عقل و بصیرت اس میں ہے تم میں کسی کے اندر نہیں۔بس یہی بات
مجھے اسے زیادہ عزت دینے پر مجبور کرتی ہے۔
پیارے بچوں!حضرت جنید بغدادی کا یہ عمل ہمارے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کی اس حدیث کے عین مطابق تھا : ’’لوگوں کے ساتھ ان کی عقل ودانش کے مطابق
سلوک کیا کرو‘‘۔
أنْزِلُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُولِہِمْ
(المقاصد الحسنۃ:۱؍۵۲) |