سلطان محمود غزنوی ‘ افغانستان
کے بادشاہ سبکتگین کا بیٹا تھا، وہ ایک بہادر سپاہی، تجربہ کار جرنیل،
انصاف پسند بادشاہ اور سچا مسلمان تھا۔ وہ عالموں کا بہت بڑا قدر دان تھا۔
بڑے بڑے اہل علم ودانش اس کے دربار میں جمع ہوتے تھے۔
محمود ابھی چھوٹی عمر ہی کا تھا کہ ایک رات وہ کسی کام سے محل سے باہر گیا۔
اس زمانے میں سڑکوں اور گلیوں میں روشنی کا انتظام نہیں ہوتا تھا، صرف بڑے
بڑے چوراہوں پر کھمبوں کے ساتھ چراغ لٹکا دیے جاتے تھے۔ محمود محل سے باہر
نکلا تو شاہی خادم چراغ اُٹھائے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
ایک جگہ وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک کھمبے میں ایک چراغ لٹک رہا ہے اور اس
چراغ کے نیچے ایک لڑکا کتاب پڑھ رہا ہے۔محمود اس کے پاس آکر رک گیا اور اس
سے پوچھنے لگا: تم کون ہو؟۔
لڑکے نے ادب سے جواب دیا: حضور! میں ایک طالب علم ہوں۔
محمود نے پوچھا: اس وقت یہاں کیوں کھڑے ہو؟۔
لڑکے نے جواب دیا: حضور! میرے ماں باپ بہت غریب ہیں، میرے لیے چراغ کا خرچ
برداشت نہیں کرسکتے؛ اس لیے میں یہاں آجاتا ہوں اور سرکاری چراغ کے نیچے
کھڑے ہوکر سبق یاد کرتا ہوں۔
محمود نے یہ سن کر اپنے ایک خادم کی طرف دیکھا اور اس سے کہا: تم اس لڑکے
کے ساتھ جاؤ اور یہ چراغ اور ایک سال کے لیے تیل کا خرچ اس کے گھر دے آؤ۔
خادم چراغ لے کر لڑکے کے ساتھ اس کے گھر گیا اور چراغ اور اس کے ساتھ ایک
سال کے لیے تیل کا خرچ دے آیا۔
اس رات محمود جب بستر پر لیٹا تو اسے خواب میں ایک بزرگ نظر آئے، انھوں نے
فرمایا : محمود! تم نے ایک غریب طالب علم کے گھر میں جس طرح علم کی شمع
روشن کی ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارا نام روشن کرے گا۔
چنانچہ جب محمود غزنوی بادشاہ ہوا تو اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور
یہاں اسلام کا بول بالا کیا۔
اسی وجہ سے مسلمان اسے غازی اور مجاہد سمجھتے ہیں اور اسلام کی تاریخ میں
اس کا نام شمع کی طرح روشن ہے۔
پیارے بچوں! تم نے دیکھا کہ ایک غریب کی مددنے محمودغزنوی کو کہاں سے کہاں
پہنچا دیا۔کیا خوب فرمایا ہے ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے :
’’جو کسی تنگ دست کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ دنیا اور آخرت میں اس پر
آسانی کے راستے کھول دیتا ہے‘‘۔
مَنْ یَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِي الدُّنْیَا وَ
الآخِرَۃِ
(صحیح مسلم: ۱۳؍ ۲۱۲حدیث: ۴۸۶۷) |