ہندوستان کے بادشاہوں میں سے ایک
نصیر الدین بادشاہ بھی گزرا ہے، وہ بہت ہی نیک اور سادہ دل انسان تھا۔
سرکاری خزانے سے اپنے لیے ایک پیسہ بھی نہ لیتا تھا۔ گزر اوقات کے لیے اس
نے خوش نویسی اختیار کی، کلام پاک اور دوسری کتابیں لکھ کر ان کی آمدنی سے
اپنے اخراجات پورے کیا کرتا تھا۔
ایک دفعہ کا ذکرہے کہ کوئی رئیس نصیرالدین بادشاہ سے ملنے آیا۔ آپ نے اسے
اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک کلام پاک دِکھایا۔ رئیس اسے دیکھ کر بہت خوش
ہوا،پھر غور سے ملاحظہ کر کے بولا:اس میں کچھ غلطیاں ہیں ان کو درست فرما
لیجیے گا۔
رئیس کی نکالی ہوئی غلطیاں حقیقت میں غلطیاں نہ تھیں، پھر بھی نصیر الدین
نے بالکل برا نہ مانا بلکہ مسکرا کر اس کا بہت شکریہ اَدا کیا۔ جن غلطیوں
کی اس نے نشان دہی کی تھی ان کے گرد حلقہ لگا بنا دیا تاکہ بعد میں ان کی
اصلاح کردی جائے۔
اس وقت جو لوگ موجود تھے بادشاہ کی خوش اخلاقی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ رئیس کے
چلے جانے کے بعد بادشاہ نے سب حلقے مٹا دیے۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو بادشاہ
نے فرمایا : مجھے معلوم تھا کہ غلطی کوئی نہیں ہے مگر میں اپنے مہمان کو
شرمندہ کرنا یا اس کا دل دکھانا نہیں چاہتا تھا؛ اسی لیے اپنی غلطیوں کا
اقرار کر کے ان کے گرد حلقہ بنا لیا اور اب وہ حلقے مٹا دیے۔
بادشاہ کی خوش اخلاقی سے درباری بہت متاثر ہوئے،وہ حیران تھے کہ اتنے بڑے
بادشاہ نے ایک معمولی سے رئیس کی دل جوئی کے لیے اتنے زبردست اخلاق کا
مظاہرہ کیا!۔
پیارے بچوں! بادشاہ کا یہ اعلیٰ اخلاق دراصل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس فرمان کی اتباع میں تھا : ’’جوشخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا
ہے ،اسے چاہیے کہ خوب اچھی طرح اپنے مہمان کی عزت وتکریم کرے‘‘۔
مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ
(صحیح بخاری: ۱۸؍ ۴۳۷حدیث: ۵۵۵۹) |