جنگل میں منگل کا سماں تھا ۔
درختوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور غباروں سے سجایا گیا تھا ۔ جنگل کے داخلی
راستے میں مختلف اقسام کے پھولوں سے راہداری بنائی گئی تھی جبکہ کئی طرح کے
دلکش رنگوں والے برقی قمقمے بھی لگائے گئے تھے ۔ ہر چرند ، پرند اور جانور
خوش خوش نظر آرہا تھا ۔ سب نے کل شام کی تقریب کے لئے بہت خوبصورت لباس
تیار کروائے تھے ۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہی سب سے زیادہ خوبصورت اور
نمایاں نظر آئے جبکہ سب نے قیمتی اور پیارے پیارے تحفے بھی خریدے تھے ۔
دراصل یہ سب اہتمام جنگل کے بادشاہ شیر کی سالگرہ کے سلسلے میں تھا ۔ یوں
تو جنگل کے تمام باسی اپنے بادشاہ سے محبت کرتے تھے کیونکہ شیر بادشاہ
رحمدل اور انصاف پسند تھا جبکہ ظالموں اور بدتمیزوں کو سخت سزائیں بھی دیتا
تھا ۔ اس لئے سب اس سے خوش تھے مگر گیدڑ دل ہی دل میں منصوبے بنارہا تھا کہ
کچھ ایسا ہوجائے کہ بادشاہ سلامت اس سے خوش ہوجائیں اور اس تقریب میں اپنے
بعد اسے بادشاہ بنانے کا اعلان کردیں کیونکہ بادشاہ کی کوئی اولاد نہیں تھی
جو اس کے بعد جنگل کا نظام سنبھالتی لیکن گیدڑ تو بزدل تھا اس لئے براہ
راست اپنا نام بادشاہت کئے لیے پیش کر کے سب کی دشمنی مول لینے کی ہمت نہیں
کرسکتا تھا چنانچہ وہ سوچ رہا تھا کہ کس طرح چالاکی سے بادشاہ کی نظر میں
اچھا بن جائے تاکہ وہ خود ہی خوش ہوکر اسے بادشاہ بنا دے ۔
رات بھر سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں ایک طریقہ آہی گیا ۔ صبح وہ بہت خوش خوش
تھا ۔ شام کو اس نے سالگرہ کی تقریب کے لئے خصوصی طور تیار کروایا ہوا
خوبصورت پینٹ شرٹ ،قیمتی اور چمکدار جوتے پہن کر بال سلیقے سے بنائے اور
پرفیوم چھڑک کر کلائی میں چمکدار ڈائل والی گھڑی باندھی اور پھر خود کو
شیشے میں دیکھا تو بہت خوش ہوا کہ وہ بہت اچھا لگ رہا ہے ۔ اب وہ تحفہ اٹھا
کر سالگرہ میں جانے کے لئے نکل گیا ۔ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ سب
جانور جمع ہوچکے ہیں ۔
بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ (شیرنی) جب پنڈال میں داخل ہوئے تو سب نے کھڑے
ہوکر تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا ۔ پھر سب نے سلام کیا ۔ بادشاہ سلامت
اور ملکہ عالیہ نے مسکرا کر سلام کا جواب دیا اور پھر اپنی اپنی کرسیوں پر
جا بیٹھے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک بڑا سا کیک کاٹا تو سب نے ملکر “ ہپی برتھ ڈے
ٹو یو“ کا گیت گایا ۔
کیک اور مزیدار کھانا کھانے کے بعد شیر بادشاہ کی مشیر لومڑی نے بادشاہ سے
کہا “جہاں پناہ ! جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں“؟ آج تو شیر بادشاہ کا
موڈ بہت خوشگوار تھا ۔ مسکرا کر بولے “ کہو مشیر خاص!“
“جہاں پناہ ! آپ کی سالگرہ کا مبارک دن ہے ۔ اللہ آپ کو ہزاروں سال کی عمر
عطا فرمائے۔“ سب حاضرین نے لومڑی کے ساتھ یک زبان ہوکر کہا “آمین-“
“تو پھر کچھ مزے دار کھیل وغیرہ بھی ہونے چاہئیں۔“ لومڑی نے بات مکمل کی تو
بادشاہ سلامت بولے -“ تم ہی کوئی مشورہ دو-“
“جہاں پناہ! میں نے اور مٹھو طوطے نے مل کر پارسل گیم کی تیاری کی ہے ۔ اس
میں جس کے پاس جو پرچی آئے گی تو اس پر جو لکھا ہوگا اسے وہی کرنا ہوگا -“
لومڑی نے کہہ کر جواب طلب نظروں سے بادشاہ کی طرف دیکھا ۔ شیر بادشاہ نے سب
کی طرف دیکھا اور بولے -“ بھئی اگر آپ سب اس کھیل میں حصہ لینا چاہتے ہیں
تو بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا -“
سب جانور بولے -“جی بادشاہ سلامت! ہم سب تیار ہیں-“ تب میوزک شروع ہوا اور
سب سے پہلے بادشاہ سلامت نے پارسل آگے بڑھایا ۔اس دوران گیدڑ سوچ رہا تھا
کہ لومڑی نے یہ کھیل بتا کر اپنے نمبر بنالئے اور پھر چالاک لومڑی نے چپکے
سے مٹھو طوطے کو ساتھ ملا کر پرچیاں بھی بنالیں کہیں بادشاہ سلامت اسی کو
اپنے بعد ملکہ نہ بنا دیں - ویسے بھی یہ بادشاہ سلامت کی مشیر خاص تو ہے ہی
-
ابھی وہ خیالات میں گم ہی تھا کہ اس کی باری آگئی ۔ اسے شعر سنانا تھا ۔ اب
تو وہ بڑا سٹپٹایا لیکن شعر تو لازمی سنانا تھا ورنہ وہ گیم سے نکل جاتا ۔
سب نے گنتی گننا شروع کیا ۔ تب ایک شعر اس کے دماغ میں آہی گیا ۔ جو اس نے
جلدی سے سنانا شروع کردیا-
ع: اک شعر سناتا ہوں ذرا غور سے سنئے
جاؤ میں نہیں سناتا کسی اور سے سنئے
سب نے خوب ہنستے ہوئے “واہ واہ“! کہا ۔ جب گیم ختم ہوگیا تو گیدڑ نے بھی
بادشاہ سلامت سے ایک اور گیم کی درخواست کی ۔ اجازت ملنے پر بولا-“ ہر
جانور اپنا اپنا پسندیدہ گانا سنائے“
سب سے پہلے لومڑی نے گانا گایا جسے سب نے پسند کیا - اسی طرح ہر ایک اپنی
اپنی باری پر گانا سناتا رہا ۔ جب گیدڑ کی باری آئی تو اس نے خوش ہو کر
گانا شروع کیا-
میں گیدڑ ہوں یارو ! آہا میں گیدڑ ہوں
تم سب سے حسین لیڈر ہوں
میرے حسن کی تعریف کیا کرے کوئی
میں جانتا ہوں کہ میں حسین ایکٹر ہوں
میں گیدڑ ہوں یارو ! آہا میں گیدڑ ہوں
تم سب سے حسین لیڈر ہوں
ابھی اس نے چلا چلا کر اتنا ہی گایا تھا کہ سب نے شور مچادیا۔
“خاموش ہوجاؤ - اللہ کے واسطے چپ ہوجاؤ - یہ تمہاری آواز ہے یا پھٹا ہوا
ڈھول - سب کے سر میں درد کردیا“
اب جناب وہ بڑا خوش خوش جوشیلے انداز میں گا رہا تھا اور چالاکی سے گانے کے
بولوں میں ہی جتا بھی رہا تھا کہ جنگل کے تمام جانوروں سے زیادہ ذہین لیڈر
ثابت ہوں گا جبکہ خوبصورتی کے حساب سے بھی خود کو بہت حسین سمجھ رہا تھا
اور جھوم جھوم کے گانا گانے کی وجہ سے خود کو بہت بڑا اداکار کہہ رہا تھا
لیکن حقیقت میں اس کی آواز بہت کرخت اور بھونڈی تھی جو کانوں کو بہت بری لگ
رہی تھی ۔
اب اس کا بادشاہ بننے کا پیغام تو کوئی کیا سمجھتا - سب کے شور مچانے پر
بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ کا بھی قہقہہ نکل گیا ۔ یہ دیکھ کر وہ شرمندہ
ہوکر خاموش ہوگیا ۔ بزدل تو تھا بھلا کیا کہتا ۔
خیر تقریب کے اختتام پر شیر بادشاہ نے اپنے بھتیجے شیرو کو اپنے بعد بادشاہ
مقرر کرنے کا اعلان کیا لیکن پہلے سب سے رائے لی گئی ۔ سب نے اس فیصلے کی
بھرپور حمایت کی اور خوشی میں اسے کندھوں پر اٹھا لیا ۔ شیرو بادشاہ سلامت
کے بڑے بھائی کا بیٹا تھا ۔
اس کے والدین کا انتقال ہوچکا تھا ۔ اس لئے وہ اپنے چچا ، چچی کے پاس رہتا
تھا ۔ وہ تھا تو ابھی چھوٹا لیکن اپنے چچا کی طرح رحمدل اور انصاف پسند تھا
۔ اس بچے کو جنگل کے چھوٹے بڑے تمام جانور بہت پسند کرتے تھے کیونکہ وہ
بڑوں کا ادب کرتا تھا اور چھوٹوں سے محبت سے پیش آتا جبکہ اپنے ہم عمروں کا
بہترین دوست تھا ۔ سو، بڑا ہوکر اب وہی بادشاہ بنے گا ۔
یہ سننا تھا کہ گیدڑ کا تو منہ ہی اتر گیا -
رات ہورہی تھی چنانچہ سب خوشی خوشی اور وہ بہت اداس گھر کو لوٹ گیا-
( میری یہ کہانی اس ماہ مئی کے ماہنامہ ساتھی میں شائع ہوئی ہے) |