تنکا تنکا

نام کتاب : تنکا تنکا
مصنف : خادم حسین خاکسار
ضخامت : 192صفحات
قیمت : 150 روپے
پبلشرز : اشرف بُک ڈپو، اقبال روڈ،کمیٹی چوک راولپنڈی
اور
بہزاد قمر پبلی کیشنزنزد رمضان فلور ملز جی ٹی روڈچیچہ وطنی
تبصرہ نگار : حافظ منصور

کتاب پڑھنے کے شوق کے باوجود کارہائے زندگی اور غم ِروزگارکے بکھیڑوں سے وقت نکالنا انتہائی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تیز رفتاری،مادہ پرستی،جائز اور ناجائز طریقے سے خواہشات کا حصول،پاکستان کا نظام تعلیم اور کتاب کے متعلق ناقص حکومتی پالیسی سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔کتاب پڑھنے کے لیے وقت نہ نکالنے کا شکوہ اپنی جگہ مگر انسانی دماغ کی تخلیق کردہ معلوماتی ایجادات سے دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔جس سے صدیوں کے فاصلے سمٹ کر لمحوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ادب اور تخلیق کا میدان بھی ان جدید انقلابی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔آج ادبی محفلوں اور مشاعروں کا انعقادریڈیو،ٹی وی اورانٹرنیٹ کے ذریعے بیک وقت دنیا کے کونے کونے میں کیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُردو کے علاوہ علاقائی زبانوں پنجابی، پوٹھوہاری اور پہاڑی ادب پاک و ہند کی سرحدوں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کتاب آج بھی اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔

اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کا بہترین ذریعہ شاعری ہے۔ شاعری لطیف جذبوں کو بیدار کرتی ہے۔ انسان میںوسعتِ نظر، فراخدلی، ہمدردی، پیار و محبت، فہم و فراست،جرات و استقلال، صبروتحمل جیسے اوصاف پیداکرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں سے ہٹ کر شاعر بڑے حساس ہوتے ہیں۔پردیس میں عموماًلوگوں کو صرف دھن کمانے کی فکر رہتی ہے،جبکہ شاعر فکر معاش کے ساتھ اپنوں سے دوری، مٹی کی محبت اور ان حالات سے نمو پذیر ہونے والے خیالات کو شعر کے قالب میں سمو کر بات کو بات کے مقام سے اٹھا کر الہام کے درجے پر پہنچا دیتا ہے۔ جس طرح ایک اچھا مصوراپنے قلم سے رنگوں کو استعمال میں لاکر کوئی فن پارہ تخلیق کرتا ہے تو تصویر کاغذی پیرہن میں بھی بولنے لگتی ہے۔اسی طرح ایک شاعر اپنے مشاہدہ،مطالعہ،نظر، وسعت خیال اور سب سے بڑی بات دل کی کسک کو شعروں کی صورت میں بیان کرتا ہے۔

میں اس تمہید کے بعدآپ کوخادم حسین خاکسارکی کتاب ”تنکا تنکا“سے متعارف کراتا ہوں ۔زیرِ نظر شاعر نے اپنی ادبی کمائی کا تنکا تنکااکٹھا کر کے سپنوں کا ایک محل تعمیر کیا ہے۔اس مشقِ سخن میں انہوں نے اپنی کئی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں۔زیرِ نظر کتاب تنکا تنکا میںوہ تمام رنگ شامل ہیں جو زندگی کی بہاروخزاں میں نمایاں ہوتے ہیں۔ خادم حسین خاکسار 1960ءکو دارالحکومت اسلام آباد کے مضافاتی موضع جگیوٹ میں پیدا ہوئے۔علاقے کے لوگوں کا ذریعہ آمدنی ملکی اور غیر ملکی ملازمت، زراعت،تجارت اور تعلیم ہے۔ذریعہ معاش کے لیے موصوف نے غیر ملکی ملازمت اختیار کی۔پردیس پہنچ کر انہیں ایک نیا ہی تجربہ ہوا کہ لوگ اپنے پیاروں کی جدائی میں اُداس،یادوں کی چبھن لیے روزگارِزندگی میں مصروف تو ہیں مگر ذہنی اذیت اور تنہائی کا شکار ہیں۔ یادوں کی گٹھڑی میں بندھی پردیس کی روداد کو تنکا تنکا کر کے موصوف نے اُردو شاعری کی زینت بنا ڈالا۔خادم حسین خاکسارکو شعری ذوق کے ساتھ نثر سے بھی شغف ہے۔ متعدد اخبارات و رسائل میں لکھتے رہے ہیں۔جن میں روزنامہ”نوائے وقت“،ماہنامہ”اوور سیز انٹرنیشنل“، ماہنامہ”شاعر“بمبئی، ماہنامہ”پیش رفت“دہلی، ماہنامہ”ماہ نو“ لاہور، ماہنامہ”رابطہ“کراچی شامل ہیں۔
 
image

تنکا تنکا جمع کر کے آشیانہ بنانا واقعی بے حد مشکل اور محنت طلب کا م ہے ۔غزل کا ایک ایک شعر تخلیق کرنا ایک جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔ تنکا تنکا کی شاعری پر ایک نظر ڈالیں تو جگہ جگہ ندرت بیان،انفرادی لب و لہجہ اورموضوعات کی انفرادیت کا احساس ہوتا ہے۔روایتی انداز میں اس مجموعے کا آغاز بھی حمد و نعت سے کیا گیا ہے اوراس میں غزلوں کے علاوہ نظمیں، گیت اور قطعات بھی شامل ہیں،مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ خادم حسین خاکسارکے اصل جوہر غزل میں ہی کھلتے ہیں۔غزل ہی ان کے تخلیقی اظہار کی اصل جہت ہے۔بلاشبہ خادم حسین خاکسارکی شاعری میں وہ تمام اوصاف موجود ہیںجو اچھی غزل کے لیے ناگزیر ہیں۔رواں بحریں،سادہ و شیریں الفاظ، آسان و دلکش زبان،ردیف و قافیہ کی خوبصورت بندش،جذبے کی حدت اور لہجے کی جدت یہ تمام خصوصیات موصوف کی شاعری میں موجود ہیں۔جسطرح بادلوں کی گرج، بارش کی رم جھم اور بارش کے پہلے قطروں سے اٹھنے والی مٹی کی خوشبو دل میں ہلچل سی مچا دیتی ہے اسی طرح تنکا تنکاکو پڑھ کر انسان یادوں میں ڈوب کر خود کو بھول جاتا ہے۔پردیس میں رہتے ہوئے زندگی کی حقیقتوںسے لبریز،انسانی اقدار اور رویّوں کو جدت کی ڈگر پر رہتے ہوئے شعروں کوجس انداز میں تحریر کی لڑیوں میں پرویا گیا ہے وہ یقینا قابل ِتحسین ہے۔

خادم حسین خاکسارکا مجموعہ کلام تنکا تنکا مشکِ کستوری کا ایسا جھونکا ہے جس میں عزیزوں،دوستوں کے غم کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی درد بھی نمایاں ہے۔ موصوف عرصہ دراز تک سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار قیام پذیر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پردیس کے کٹھن رستوں اور وطن سے دوری کا گھاؤ ان کے قلم سے جا بجا رستا ہے۔مگر ساتھ ہی شاعر کو یہ بھی معلوم ہے کہ ایامِ زندگی اسی قرب اور الجھن میں پوشیدہ اورسبھی راحتیں، چاہتیں، تخت و تاج بھی کٹھن اور دشوار رستوں میں مضمر ہیں۔المختصر خادم حسین خاکساروطن کی محبت کے جذبے سے سرشار اور اس کے لیے امر ہونے کی حسرت رکھتے ہیں۔
جان جاتی ہے جس کی وطن کے لیے
درحقیقت وہ انسان مرتا نہیں
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 17 Articles with 18225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.