بھارت جنوبی ایشیاء میں واقع ایک قدیم تاریخی ثقافت ، تہذیبیں اور تمدن
رکھنے والا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔اس لحاظ سے یہ دنیا کی دوسری
بڑی جمہوریت ہے۔بھارت کے ایک ارب پینتیس کروڑ سے زائد باشندے ایک سو سے
زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار ہیں، شمال
میں بھوٹان، چین اور نیپال ہیں جبکہ مغرب میں پاکستان ہے ۔ اس کے علاوہ
بھارت کے جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ یہ ملک سری لنکا
اور مالدیپ کے قریب ترین ہے۔ بھارت کے نکو بار اور اندامان جزیرے تھائی
لینڈ اور انڈونیشیا کی سمندری حدود سے جڑے ہیں۔بھارت کے کچھ مغربی علاقے
زمانہ قدیم میں وادی سندھ کے مراکز میں شامل تھے جو تجارے اور نفع بخش
سلطنت کیلئے دنیا میں مشہور تھی۔ یہاں تک رسائی کیلئے چنگیز خان اور اس کے
پوتے ہلاکو خان نے انتھک کوششیں کی لیکن وہ ناکام رہے۔چار مشہور مذاہب جن
میں ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے اسی ملک میں جنم لیا جبکہ جودھا
مت، مسیحیت اور اسلام اپنے ابتدائی دور میں ہی یہاں پہنچ گئے تھے جنہوں نے
اس علاقے کی تہذیب و ثقافت پر انمٹ نقوش مرتب چھوڑے ہیں۔اس علاقے پر ایسٹ
انڈیا کمپنی کا تسلط اٹھارہویں صدی سے شروع ہوا جبکہ 1857 کی جنگ آزادی کے
بعد یہاں براہ راست برطانیہ کی حکومت قائم ہوئی۔ بھارت کی معیشت کو 1991 کی
معاشی اصلاحات نے دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں لاکھڑا کیا اور
یہ تقریباََ صنعتی ملک کے درجے تک پہنچنے کی راہ پر گامزن ہوا تھا۔ لیکن اس
کے باوجود یہ ملک غربت، بدعنوانی، خوراک ، صحت ، پانی اور تعلیم جیسے
بنیادی مسائل سے بر سر پیکار رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ملک فوج کے
لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی قوت جبکہ دفاعی خرچ کے لحاظ سے یہ دنیا کی چھٹی
بڑی فوج ہے۔ بھارت ایک وفاقی جمہوری ملک ہے جو پارلیمانی نظام کے تحت 29
ریاستوں اور 7 وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔بھارت ایک کثیر لسانی، مذہبی ،
ثقافتی اور نسلی معاشرہ ہے۔بھارت میں کرپشن اور مذہبی، لسانی و ثقافتی تعصب
موجودہ دور میں عروج پر چل رہا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے ان تعصبات کو کم کرنے
کی کوشش کی مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی دوبار منتخب ہونے والی حکومت نے اس
سلسلے کو مزید ہوا دی ہے۔بھارت میں حالیہ منتخب حکومت کے پہلے دورانیے میں
بی جے پی کو مضبوط کرنے والے کاروباری طبقے کو اس حد تک مضبوط کر دیا گیا
کہ آج ملک کے زرمبادلہ کے ذخائرکے طور پر انہی کے نجی بنکوں میں پڑی دولت
کو دکھا یا جا رہا ہے۔ بھارت کی جی ڈی پی اس وقت منفی تین اشاریہ دو تک
پہنچ چکی ہے ۔ بھارت اپنی خارجی و داخلی پالیسیوں کی وجہ سے پورے خطے میں
اکیلا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دور کو بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دور قرار
دیا جا رہا ہے۔ جس میں برہمنوں کو چھوڑ کر نہ صرف ہر مذہبی طبقے کو نشانہ
بنایا گیا ہے، بلکہ بھارت کی سرحدیں بھی محفوظ نہیں رہیں ۔ ایک طرف کشمیر
میں بھارتی فوج کی جارحیت،مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ مسلسل
متعصبانہ خارجہ پالیسی، شمال میں چین اور نیپال کے ساتھ لڑائی، مغرب میں
پاکستان کی سرحدوں پر مسلسل کشیدگی اور سیز فائر کے قانون کی جگ ہنسائی
۔یہی نہیں بلکہ مودی کی موذیت نے اپنے ہی ملک کے باشندوں کا چین چھین لیا
ہے۔ غربت، افلاس اور بدعنوانی نے تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں
۔مقبوضہ کشمیر کا جنیوا کنونشن میں طے پانے والے معاہدے کے خلاف جا کر
انضمام، کشمیر میں مسلم آؓبادی کے تناسب کو جعلی ڈومیسائل کے اجراء سے
بگاڑکی کوشش، سرچ آپریشنوں کی آڑ میں کشمیری نوجوانوں کا بہیمانہ قتل، اور
ان کی گرفتاریاں، نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری، جائیدادوں پر قبضے، کشمیری
سیاسی، مذہبی و سماجی راہ نماؤں کی بہیمانہ نظر بندی،قومی سلامتی کے نام پر
کشمیر میں تین-چار جی خدمات بحال کرنے، سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے جمہوری
سرگرمیوں کی اجازت دینے، سرکار کی منشاء کے مطابق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے
بعد بھی سلامتی وجوہات کا علاج ثابت نہ ہونا (جیسا مودی اور شاہ نے دعویٰ
کیا تھا)، اپنے ہی ملک میں مسلم کش قوانین کا اطلاق، شہریت بل میں ترامیم،
سکھوں سمیت دلت، جین ،بدھ مت ، جودھا مت وغیرہ کے ساتھ متعصبانہ رویہ، بنک
رن ، نیز معاشرتی، سماجی اور معاشی ہر کس سطح پر بھارت نے تنزلی کی جانب
سفر کیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی اس حد تک عورتوں کے ساتھ ظلم نہیں کیا
گیا تھا جتنے کشمیر میں بھارتی فوج نے بربریت کے ریکارڈ توڑے ہیں۔موجودہ
وبائی صورتحال میں مودی کے حامی جمہوریت کا استحصال اور مسلمانوں میں بڑھتے
ہوئے عدم تحفظ کو اپنے رہنما کے چھٹے سال کی بڑی کامیابی کے طور پر منا چکے
ہیں ۔ مودی کے پہلے دور کے دوران ارن شوری نے مذاق میں کہا تھا کہ بی جے پی
سرکار ـ’’منموہن سنگھ پلس گائے ہے‘‘۔ آج یہ دیکھتے ہوئے کہ مودی نے کس طرح
سے وبا کا استعمال سینٹرلائزیشن کیلئے بڑے کاروباری گھرانوں کے مفاد میں ،
بھارتی عوام کے جمہوری حقوق کو روندنے اور عدلیہ کو اپنے موافق بنانے کیلئے
کیا ہے۔ ان کا اقتدار ہر گز رے دن کے ساتھ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی جیسا
لگنے لگا ہے۔ مودی سرکار کا ہمیشہ سے ارادہ مذہب کا استعمال پولرائزیشن
کیلئے کرنا تھا۔ امیت شاہ کے مقبول کرونالوجی والے بیان نے یہ صاف کر دیا
تھا کہ سرکار شہریوں کے کل ہند شہری رجسٹر کی تشکیل کی سمت میں آگے بڑھنا
چاہتی ہے۔ سرکار کا منصوبہ دہلی کے فرقہ وارانہ تشدد کا استعمال سی اے اے
مخالف مظاہرین کے ٹھوس ارادوں کو توڑنے کا تھا۔ اس مد میں بہت سے مسلمانوں
پر بی جے پی کے غنڈوں نے تشدد اور درجنوں کو ہتھیاروں کے ذریعے زخمی وشہید
کیاہے۔ ایسا اس سچائی کے باجود کیا گیا کہ اس تشدد کا نشانہ بنیادی طور پر
مسلمان ہیں۔ اور پھر یہ بیان دینا کہ اپنے گھروں اور ذریعہ معاش کو برباد
کرنے کی سازش مسلمانوں نے خود کی ہے ویسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ
’’مقبوضہ کشمیر کی عوام نے بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ خود کیا
ہے‘‘۔اگر ہم مودی حکومت کے طرز حکمرانی کا جائزہ لیں تو ان کی وزارت اعلیٰ
سے وزارت عظمیٰ تک پہنچنے اور اقتدار ی اقدار میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن یہاں
ایک بات قابل توجہ ہے کہ بھارت میں چند کاروباری اشراف معاشی طور پرمودی کی
حکومت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں ۔ ٹویوٹا جیسی بڑی کمپنیاں نقصان
اٹھانے کے بعد بھارت سے چلی گئیں ہیں۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کی طرف سے
بھارتی پالیسیوں پر صرف بیانات تک ہی اکتفا کیا گیا ہے۔بھارت کا یورینیم
بارہا مرتبہ چوری ہوا، بارہا ہتھیاروں کے تجربے ناکام ہوئے،اور کئی بار
افواہیں پھیلائی گئیں۔اس سب کے باوجود امریکہ کی جانب سے بھارت کی امداد
کرنا اور بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوتے جانااس بات کی طرف
مبینہ اشارہ ہے کہ بھارت میں اس وقت نہ صرف حکومت بلکہ بھارتی تھنک ٹینک پر
بھی یہودی پالیسیوں کا سایہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارت ،اسرائیل گٹھ جوڑ
صرف بھگوا دیش بنانے پر بھارت کو آمادہ کرنے والا لالی پاپ ہے تو شاید بے
جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بیس سے زائد ریاستوں میں تین سو سے
زائد علیحدگی پسند تحریکیں متحرک ہیں جو ایک آزاد ریاست کے قیام کے دعویدار
ہیں۔ جن میں سے دو ریاستیں اپنا پرچم، قومی ترانے اور الگ ریاست کا اعلان
بھی کرچکی ہیں۔اس کے علاوہ شہریت ترمیمی بل کی وجہ سے مزید پانچ ریاستوں
مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، کیرالہ ، پنجاب اور چھتیس گڑھ میں علیحدگی پسند
شورش نے جنم لے لیا ہے۔ حال ہی میں آندھر پردیش کو تقسیم کر کے لسانی بنیاد
پر تمل ناڈو،پنجاب، کرناٹک اور کیرالہ کی طرح تیلنگانہ ریاست وجود میں آئی
ہے۔ ملک کی معاشی، اقتصادی، سرحدی، خارجی و داخلی حالت زار کو دیکھتے ہوئے
یوں ہی لگتا ہے کہ مودی کے پاس اب اپنی حکومت کو بچانے کیلئے کشمیر کے بعد
صرف پاکستان کی سرحدوں پر محاذ ہی باقی رہ گیا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ چاہے
تیرہ کروڑ لوگ کھڑے ہیں مگر ایک ارب بارہ کروڑ لوگ بے جے پی مخالف ہیں
جنہیں مطمئن کر نے اور استعماری قوتوں سے لئے گئے بھاری فنڈز کو حلال کرنے
کیلئے مودی ، موذیت کی ہر حد تک گرے گا۔
|