کامیاب وہ لوگ ہیں جو اپنے علم، اخلاق ، کردار اور
انسانیت کیلئے خدمات دیکر اس فانی جہان سے آخرت کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ایسے
عظیم لوگ مشکلات اور مسائل کو زندگی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے بلکہ
یکسوئی کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔یہ لوگ ایک مقصد کے تحت
زندگی کے شب و روز گذارتے ہیں اور وقت کا کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر اُس
مقصد کی تکمیل کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ کسی کی تنقید یا تحقیر کو قطعاً
خاطر میں نہیں لاتے اور مخلوق ِ خدا کی ہمہ جہت خدمت ہمیشہ جاری رکھتے ہیں۔
ایسے چنیدہ لوگ اس حقیقت کو بھی جانتے ہیں کہ منزل جتنی بڑی ہوتی ہے توجہ،
انہماک اور محنت بھی اتنی ہی زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ یوں یہ بڑی منزلوں کے
مسافر کبھی بھی چھوٹے جھگڑوں میں پڑ کر وقت اور زندگی ضائع نہیں کرتے بلکہ
ہمیشہ اپنے مقصد کی تکمیل میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ان میں ایک شخصیت میرے
استاد ومربی مولانا حافظ نذیر احمد جلالی رحمۃ اﷲ علیہ تھے جنہوں نے اپنی
پوری زندگی خدمتِ دین اور اصلاحِ احوال کیلئے وقف کئے رکھی اور کسی مشکل
اور مخالفت کو اپنے اس عظیم مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ حافظ شمس
الرحمٰن آسی کہتے ہے کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے زندگی کے پانچ سال
زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے ان کے ساتھ گذارے اور محسوس کیا کہ ان کی زندگی
کا لمحہ لمحہ خدمت دین کیلئے وقف رہا۔ آپ ؒ اکثر اپنی اس خواہش و تمنا کا
اظہار کرتے رہتے کہ میں اپنی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اﷲ اور قرآنِ پاک کی
خدمت میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی زبان پر اکثر یہ شعر ہوا کرتا تھا:
٭یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہو جائے ، ہر اِک پرچم سے اونچا ، پرچمِ
اسلام ہو جائے ۔!
استاذی المکرم ؒ کی پیدائش5نومبر1955ء کو گاؤں نصیر پور کلاں میں ہوئی جو
ضلع سرگودھا ، تحصیل کوٹ مومن میں واقع ہے۔ آپؒ کے والد گرامی حاجی نور
محمد ؒ چونکہ خود حافظِ قرآن تھے اور ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس
لئے انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو حافظِ قرآن بنانے کیلئے محنت اور حوصلہ
افزائی کی۔ یوں آپؒ نے اپنے آبائی گاؤں میں، والدِ گرامی کی معیت میں ہی
قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ میرے کلاس فیلو اور حافظ شمس الرحمٰن
آسی جو کہ شاگرد خاص ہے بتاتے ہے کہ مولاناحافظ نذیر احمد جلالی رحمۃ اﷲ
علیہ صاحبؒؒ کو بچپن سے ہی دینی تعلیم کے ساتھ رغبت تھی جسے محسوس کرتے
ہوئے ان کے والدین نے انہیں درسِ نظامی کی تعلیم کیلئے بھکھی شریف داخل
کروا دیا۔ جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف میں آپ ؒ نے حضرت حافظ
الحدیث مولانا جلال الدین ؒ کی سرپرستی میں دینی علوم کے حصول کا آغاز
کیا۔پھر دورۂ حدیث کی تکمیل تک بھکھی شریف جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ میں ہی
رہے۔جامعہ ہٰذا میں 10سال کا طویل عرصہ انتہائی محنت، لگن اور اخلاصِ نیت
کے ساتھ درسِ نظامی کا عالم کورس مکمل کیا اور اچھے نمبروں کے ساتھ تمام
امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے باقاعدہ عالمِ دین بننے کی سعادت حاصل کی۔
خدمتِ دین کا جذبہ شروع دن سے ہی آپ ؒ کے دل میں موجزن تھا ۔ یہی وجہ تھی
کہ دورانِ تعلیم ہی ایک مسجد میں حفظ کلاس میں تدریس کا آغاز کر دیا اور
اپنی درسِ نظامی کی تعلیم مکمل ہونے تک ، تین طلباء کو حفظ مکمل کروا چکے
تھے۔
ایک عرصہ تک جامع مسجد حنفیہ رضویہ پوران شریف میں خدمات انجام دینے کے بعد
دعوتِ دین کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر، اہلِ علاقہ
کی باہمی مشاورت سے5رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک1398ھ بمطابق
11اگست1978ء کو دینی درس گاہ دارالعلوم منظر اسلام کا آغاز کیا۔ درس گاہ
پوران شریف کا سنگِ بنیاد رکھنے کیلئے شیخ المحدثین، جنید زماں، ولیٔ کامل
حضرت حافظ الحدیث پیر سید محمد جلال الدین شاہ نقشبندی، قادری ؒ خصوصی طور
پر تشریف لائے۔ بعد ازاں23اگست 1982ء کو سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء
الحق شہید جب پوران شریف میں تشریف لائے تو انہوں نے مولانا صاحبؒؒ کی
اقتداء میں نماز ادا کی، ان سے ملاقات کی اور اس دینی درس گاہ کیلئے 35ہزار
روپے عطیہ پیش کیا۔سابق صدر، دارالعلوم کے ذریعے کی جانے والی مولانا صاحبؒ
کی خدمات کو دیکھ اور جان کر انتہائی خوش ہوئے اور انہیں خراجِ تحسین پیش
کیا۔ اِس دارالعلوم منظر اسلام سے آج تک سینکڑوں طلباء و طالبات نے قرآن
مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور ہزاروں لوگوں نے ناظرہ قرآن مجید
پڑھا ہے……یہ مولانا صاحبؒ کے خدمتِ دین کا پرخلوص جذبہ ہی تھا کہ اتنی بڑی
درس گاہ بھی تنگ دامنی کی شکایت کرنے لگی تو بیٹیوں کیلئے الگ درس گاہ
بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر جنوری 1991ء میں مدرستۃ البنات کا قیام عمل
میں لایا گیا۔ دخترانِ اسلام کیلئے قائم کردہ اس درس گاہ میں حفظِ قرآن،
مکمل عالمہ کورس……بی اے تک بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ سلائی سکول کا بھی
انتظام کیا گیا تا کہ ہماری بیٹیاں عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہو سکیں۔
مدرسۃ البنات سے بھی اہل ِعلاقہ کیلئے دینی کلاسز کے ساتھ ساتھ ماہانہ اور
سالانہ اجتماعات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تاکہ علم و آگہی کے چراغ کو ہر
گھر میں روشن کیا جا سکے۔ بیٹیوں کیلئے قائم کردہ اِس درس گاہ سے بھی
سینکڑوں طالبات نے حفظِ قرآن اور عالمہ بننے کی سعادت حاصل کی اور یہ سلسلہ
اپنی تمام تر کامیابیوں کے ساتھ جاری وساری ہے۔
شروع دن سے ہی دارالعلوم منظر اسلام اور مدرستہ البنات، دونوں میں علم کی
چاہت و طلب رکھنے والا ہر شخص داخلہ لے سکتا ہے لیکن یہاں غریب اور یتیم
بچوں کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور ان کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔
یتیم اورمستحق طلباء و طالبات کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ خوراک و
پوشاک کے اخراجات بھی مولانا صاحبؒؒ نے اہلِ علاقہ کے تعاون سے درس گاہ کے
ذمہ لے رکھے تھے۔وجہ یہ تھی کہ وہ یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا اعزاز
سمجھتے تھے اور ان کی ضروریات کی کفالت کر کے روحانی تسکین کا سامان کرتے
تھے۔ درس گاہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء و طالبات کی تربیت کا بھی ایک
خوبصورت انتظام مولانا صاحبؒ نے رائج کیا جس میں عبادات اور معاملات پر
خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ ان کی محنت شاقہ کا ہی ثمر ہے کہ اہلِ علاقہ کی
اکثر مساجد میں اسی درس گاہ کے فارغ التحصیل طلباء امامت و خطابت کے فرائض
سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر دینی محافل کے انتظام و انصرام
میں بھی آپ ؒ کے تلامذہ کا ہمیشہ مرکزی کردار ہوتا ہے۔
اسی طرح مولانا صاحبؒ کے کئی شاگرد اندرون اور بیرونِ ملک مختلف مساجد اور
اسلامک سنٹرز میں درس و تدریس کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں جو
بلاشبہ مرحوم و مغفور کیلئے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا حافظ
نذیر احمد جلالی رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی پر لکھنا میرے لئے ناممکن تھا اگر
حافظ شمس الرحمٰن آسی اور حافظ جمیل احمد قادری کی رہنمائی میرے ساتھ شامل
نہ ہوتی۔ دعا ہے اﷲ پاک مولانا حافظ نذیر احمد جلالی رحمۃ اﷲ علیہ کی ’’
دین اسلام ‘‘ کی خدمات کو قبول و منظور فرماتے ہوئے ہم گناہگاروں پر نبی
کریم ﷺ کے صدقے اپنا فضل فرمائے آمین بات ہو رہی تھی مولانا حافظ نذیر احمد
جلالی رحمۃ اﷲ علیہ آپؒ محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول کو اپنی زندگی کا حاصل
جانتے اور مانتے تھے۔اگر ایک طرف محفلِ ذکر اور اوراد و وظائف کے ذریعے
اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کرتے تو دوسری طرف محافلِ میلاد اور ہدیہ ٔ درود
و سلام پیش کرنا، آپ ؒ کی زندگی کا طرۂ امتیاز رہا……آپؒ کی ہر تحریر و
تقریر سے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہی جھلکتی تھی اور وہ اسی کو زندگی کا
حاصل جانتے تھے۔
آپ ؒ کو دو مرتبہ حج بیت اﷲ کی سعادت نصیب ہوئی اور کئی بار عمرہ شریف کی
غرض سے زیارتَ حرمین شریفین کیلئے تشریف لے گئے…… صوم و صلٰوۃ اور قرآن
کریم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ 53مرتبہ لگاتار، نمازِتراویح میں قرآن مجید
سنانے کی عظیم سعادت آپؒ کے حصے میں آئی اورساتھ ہی ہر سال رمضان المبارک
میں ایک قرآن مجید تہجد کے نوافل میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ نمازِ پنجگانہ اور
دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ وظائفِ نقشبندیہ کی پابندی فرماتے……بالخصوص درود
ِخضری کا نمازِ تہجد کے بعد اہتمام ہمیشہ فرماتے رہے۔ ایمان داری، محبتِ
دین، کام سے لگن اور استقامت کا عالم یہ تھا کہ جامع مسجد غوثیہ پوران میں
مسلسل 45سال امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دئیے اور اس تمام عرصہ میں
اسلام کا اخوت و محبت کا پیغام عام کرتے اور ہر طرح کی نفرت کا قلع قمع
کرتے رہے۔ بلاشبہ مولانا صاحبؒنے اپنی پوری زندگی دینِ متین کی خدمت کے
عظیم مقصد کے تحت گذاری اور خالق کو راضی کرنے، مخلوق کی خدمت کرنے کے
سلسلہ میں اپنے حصے کا کام کر نے کے بعد اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف
کوچ فرمایا۔ اس حیاتِ مستعار میں انہوں نے وہ گراں قدر خدمات سر انجام دیں
جن کو مدتوں یاد رکھا جائے گا……علم و عمل اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے مزین
یہ عظیم ہستی 5جولائی 2019ء کو نمازِ تہجد کی ادائیگی کے بعد درود خضری
پڑھتے ہوئے 63سال 8ماہ کی عمر میں اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر
داعیٔ اجل کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئی۔٭تا حشر
تیری دید کو ترسیں گی نگاہیں ۔اس دل کو وہم تک نہ تھا تیری جدائی گا ۔!
حافظ نذیر احمد جلالی رحمۃ اﷲ علیہ کیختمِ قل کے موقع پر جانشینِ حضرت حافظ
الحدیث مفتی پیر سید محمد نوید الحسن شاہ صاحب سجادہ نشین آستانہ عالیہ
بھکھی شریف نے مولانا حافظ نذیر احمد جلالی ؒ کے بڑے بیٹے حافظ جمیل احمد
قادری کے سر پر دستارِ فضیلت رکھی اور انہیں دارالعلوم منظر اسلام کے تمام
انتظام و انصرام کو بحسن و خوبی چلانے کا حکم ارشاد فرمایا۔ دعا ہے کہ
مولانا صاحبؒؒ کے شروع کئے گئے خدمتِ دین کے عظیم مشن کے فروغ کیلئے ان کے
صاحبزادگان اور اہل علاقہ کو اخلاصِ نیت کے ساتھ کاوشیں کرتے رہنے کی توفیق
عطا فرمائے……آمین یا رب العالمین……!!
|