*ائینہ ۲ :- تاریخ کا ایک سبق۔۔۔۔انسانیت موت کے دروازے
پر۔۔۔۔بعثت محمؐدﷺ سے پہلے یثرب (مدینہ منورہ) میں عبداللہ بن اُبئ (جو بعد
میں رئیس المنافقین کہلایا ) کی تاج پوشی کی تیاریاں عروج پر تھی,لیکن اسی
زمانے میں حضورﷺ کلمہ توحید حق کی آواز کے ساتھ ھجرت کر کے مدینہ منورہ
پہنچ جاتے ہیں تو ماحول یکسر بدلنا شروع ہو جاتا ہے،اور عبداللہ بن اُبئ کی
تاج پوشی کٹھائ میں پڑ جاتی ہے،اس پر عبداللہ بن اُبئ ( رئیس المنافقین )اندر
ہی اندر گھٹا رہا اور حسد کی آگ میں جلتا سلگتا رہا،اور اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف طرح طرح کی اسکمیں، منصوبے بناتا رہا،لیکن چونکہ وہی الہی کا سلسلہ
جاری تھا،اسلئے اس کی ایک چال بھی کامیاب نہ ہو سکی،آخر کار برے ارادے و
عزائم کو لئے مجبور اپنے سازشی ذہن اور تین سو لوگوں کو ساتھ لے کر مسلمان
ہو گیا،مگر اپنے اندر کی منافقت کو پروان چڑاھتا رہا،یہاں تک کہ حضورﷺ اس
دنیا سے پردہ فرمایا،تو وحی الہی کا سلسلہ بند ہوگیا،اور اس ظالم کی
اسکیمیں،منصوبے پروان چڑھنے لگے،اور سینے میں لگی آگ شعلہ بننے لگی،یہاں تک
کہ دور صدیقیؓ کے ابتداء ایام میں اس صبائ گروہ نے ہی سب سے پہلے حکم الہی"
زکوة" جيسے مقدس فریضہ کی آدائیگی سے انکار کیا تھا،بعد خلیفہ سوم و چہارم
حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت علیؓ بن ابی طالب کی شہادت یہاں تک واقعہ
کربلہ نواسہ رسولﷺ کی درد ناک شہادت بھی اسی عبداللہ بن اُبئ رئیس المنافین
کے گروہ کی ہوئ ہوئ فصل کا نتیجہ تھیں،(و اللہ عالم)کیااب ہم اپنی حالات
زار اور ہمارے موجودہ منظر نامہ کو اس تناظر میں نہیں دیکھ سکتے ؟اور اسی
پس منظر میں ہم اپنے اندر پنپنے والی منافقت،یا دوگلہ پنے کو دیکھ کرقوم و
ملت کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کا اندازہ نہیں لگا سکتے؟مولانا
ابوالکلام آزاد ؒ کی کتاب " انسانیت موت کے دروازے پر" گہرائی سے مطالعہ
کرنا والا کوئ مرد مؤمن اپنے آنسوؤں کو نہیں روک پائے گا*،مختار احمد
|