اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے

امریکہ کی جانب سے ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی شہادت کے مبینہ دعوؤں اور اس کے بعد کی عدم اطمینان بخش صورتحال خصوصاً پاکستان کی خودمختاری اور سا لمیت کے حوالے سے چیف ا ٓف آرمی سٹاف کی موجودگی میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی جانب سے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس کو بند کمرہ بریفنگ اور آرمی چیف کے چلے جانے کے بعد سوال و جواب کی نشست نے کہیں کہیں دھند کا خاتمہ کردیا ہے تو بہت سے دوسرے سوالات کو بھی جنم دیدیا ہے۔ شجاع پاشا کی جانب سے برملا کہا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کو صدر اور وزیر اعظم کے حکم پر چھوڑا گیا تھا، پاکستانیوں کی اکثریت کو پہلے سے اس کا یقین تھا اور اب شجاع پاشا نے اس پر تصدیق کی مہر ثبت کردی، ڈپٹی ائر چیف کی جانب سے بھی کہا گیا کہ اگر حکومت حکم دے تو ہم ڈرون طیارے گرانا شروع کردیں گے، شجاع پاشا کے ”سرنڈر“ کرنے کی خبر وزیر اطلاعات نے خود میڈیا کو فراہم کی۔ پاکستان کے لوگ ابھی 71 ءمیں ”سرنڈر“ کو نہیں بھول سکے اور شائد قیامت تک نہ بھول سکیں، شجاع پاشا کی جانب سے اپنے آپ کو ”سرنڈر“ کرنا اور استعفٰی کا جذباتی ”پتہ“ کھیلنا کسی اور کو بچانے کی کوشش ہے یا ایسا اخلاص کے ساتھ اور ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کیا گیا ہے؟ اگر وہ امریکی خفیہ آپریشن کی اطلاع تک نہ ہونے کا ذمہ دار اپنے آپ اور خفیہ اداروں کو سمجھتے ہیں تو انہیں پہلے ہی مستعفی ہوجانا چاہئے تھا نہ کہ 12 روز انتظار کرنا چاہئے تھا، اس سے لگتا ہے کہ ابھی بھی قوم کے ”منتخب“ نمائندوں کو پورے سچ سے کماحقہ آگاہی نہیں ہوسکی۔ کیا کبھی یہ سوچا جائے گا اور غور و فکر کیا جائے گا کہ پاکستان کے عوام اب بطور ادارہ فوج پر بھی اعتماد کرنے کو کیوں تیار نہیں ہیں؟وہی فوج جس نے سول حکومتوں پر شب خون مارتے وقت یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس سے پاکستان کس قدر تباہی سے ہمکنار ہوگا، پاکستان کے ادارے جو پہلے ہی اپنی کرپشن اور دوسرے کرتوتوں کی وجہ سے عوام کے اعتماد سے عاری ہیں ان اداروں کا فوج کے آنے کے بعد کیا حال ہوگا؟ کیا کسی بھی آرمی چیف نے اپنے ادارے کی تطہیر ضروری سمجھی، فوج ہمیشہ ملک و قوم کے نام پر حکومت میں آئی لیکن حکومت کے حصول کے بعد جرنیلوں نے ملک اور قوم کا مفاد پس پشت ڈال کر اپنے اقتدار کو طول دینے اور خفیہ ایجنسیوں کو سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ اور ان کی بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا۔

کیا پاکستان کی فوج وہی فوج ہے جو کبھی اس ملک کے عوام کی آنکھوں کا تارا ہوا کرتی تھی۔ ایک وقت ہوا کرتا تھا جب اگر کوئی فوجی اپنی وردی میں کسی جگہ چلا جاتا تھا تو لوگ اس سے ہاتھ ملانا اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے تھے، بچے بچے کی زبان پر پاک فوج زندہ باد کے نعرے ہوا کرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کالج کے زمانے میں این سی سی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد میں این سی سی کی یونیفارم میں انارکلی چلا گیا، وہاں چند بچے تھے جو فوجی وردی اور این سی سی کی وردی میں فرق نہ کرسکے اور انہوں نے مجھے دیکھ کر پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کردئے اور میرے ساتھ ہاتھ ملانا شروع کردئے۔ یہ وہ دور تھا جب پاک فوج کے سپاہی پاکستان کے نہیں بلکہ اللہ کے سپاہی ہوا کرتے تھے، اس وقت ان کے دلوں میں جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت موجزن تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، جرنیلوں کی کارستانیوں نے آج فوج کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بہت سے لوگ اسے سر عام گالیاں دینے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ میاں نواز شریف نے شائد ٹھیک کہا کہ 99 ءکا مارشل بھی فوج نے بحیثیت ادارہ نہیں لگایا تھا بلکہ اس میں چند جرنیل ملوث تھے اور اکثر لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ مارشل لاءآناً فاناً نہیں لگا تھا بلکہ اس کے لئے بھی پوری پلاننگ کی گئی تھی جس میں یقیناً مسلم لیگ (ن) کے کچھ لیڈروں اور میاں نواز شریف کے مشیروں کو بھی استعمال کیا گیا تھا تاکہ فضاء بنائی جاسکے، قاف لیگ کا بننا اسی بات کا مظہر تھا۔ پاکستان کی فوج اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، ہم ایک ایٹمی ملک ہیں، ہمارے پاس میزائل ٹیکنالوجی بھی موجود ہے، فوجی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمیں ایک مضبوط، مستحکم اور خودمختار ملک ہونا چاہئے، لیکن ایسا کیوں نہیں ہے؟ میں خدانخواستہ فوج کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی تمام مسائل کا ذمہ دار فوج کو سمجھتا ہوں لیکن پاکستان کے تمام موجودہ مسائل کے پیچھے فوج کے کسی نہ کسی جرنیل کا ہاتھ نظر آئے تو کیا کہا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے سیاستدانوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کیا، ٹاپ کی لیڈر شپ پر بھی کرپشن، اقربا پروری، ملک دشمنی وغیرہ کے الزامات لگتے رہے ہیں اور شائد لگتے رہیں گے، میرا یہ سوال ہے کہ اگر آج تک فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے کبھی بھی سول حکومت کو گراتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام کا نہیں سوچا تو پاکستان کی سا لمیت اور اس کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے وہ کسی اجازت کے مرہون کیوں ہوگئے ؟ اگر آرمی چیف عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ایوان صدراور وزیر اعظم ہاﺅس کا دورہ کرسکتے ہیں، حکومت سے عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ منوا سکتے ہیں تو پاکستان کے عوام جو روز ہی کسی نہ کسی ڈرون حملے کا نشانہ بنتے ہیں ان کی داد رسی کیوں نہیں کرسکتے۔ کیا ہماری فوج اور آرمی چیف کو معلوم نہیں کہ جب بھی ڈرون حملے سے شہادتیں ہوتی ہیں تو اس کا قصور وار فوج کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور ان حملوں کے رد عمل میں کتنے ہی معصوم اور نوعمر خود کش حملوں کے ماسٹر مائنڈز کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، کیا ڈرون حملوں کی وجہ سے خود کش بمباروں کی فیکٹریاں قائم نہیں ہوچکیں، انہی ڈرون حملوں کے رد عمل نے پاکستان کا کوئی کو نہ محفوظ و مامون نہیں رہنے دیا۔ اگر اس بات میں صداقت ہے کہ پاکستان کے پاس ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت موجود ہے تو اسے کب استعمال میں لایا جائے گا؟ صرف اسلام آباد کے ”ریڈ ایریا“ اور پنڈی کے ”جی ایچ کیو“ کو بچانے کے لئے؟ کیا جو لوگ روز ان حملوں میں جام شہادت نوش کرتے ہیں وہ پاکستانی اور مسلمان نہیں؟ کیا ان کا خون سرخ رنگ کا نہیں؟ کیا ان کے کوئی لواحقین نہیں ہوتے؟ کیا کوئی ان کا والی وارث نہیں ہوتا؟ کیا وہ معصوم، نہتے اور کمزور لوگ یوں ہی بھیڑ بکروں کی طرح مرتے رہیں گے؟ بھیڑ بکریوں کا بھی کوئی رکھوالا ہوتا ہے، ان کا تو شائد کوئی بھی نہیں....!

اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت آپس کے اختلافات بھول کر، انہیں ملک و قوم کے لئے ختم کر کے نئے میثاق پاکستان کی بنیاد رکھے، پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کا تحفظ کیا جائے کہ جس کا عہد سبھی نے کر رکھا ہے اور جس کا حلف بھی سبھی نے اٹھا رکھا ہے۔ یہ وقت یقینا ایک دوسرے پر اور افواج پاکستان نیز آئی ایس آئی پر حملے کرنے اور انہیں طعنے دینے کا نہیں، یہ وقت ان کی اخلاقی حمائت کا ہے، پوری قوم کو یکسو ہوکر اپنی افواج اور خفیہ اداروں کا پشتیبان بننا چاہئے، افواج اور خفیہ اداروں کو بھی یقیناً ایسی ہی سوچ رکھنی چاہئے اور ان کے نزدیک بھی سب سے بڑا اور اولین کام پاکستان کی خودمختاری اور سا لمیت کا تحفظ ہونا چاہئے۔ خفیہ اداروں کے توسط سے سیاستدانوں کے خلاف ہونے والی کاروائیاں بھی ختم ہونی چاہئیں ورنہ ان کی ساکھ جس پر پہلے ہی بے شمار سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور بھی خراب ہوجائے گی۔ حکومت، اپوزیشن اور تمام سیاسی قیادت کو یک زبان ہوکر امریکہ کو بتا دینا چاہئے کہ ہم اپنے ملک اور قوم کے مفاد کے لئے اکٹھے اور متحد ہیں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیں، دنیا کی کوئی طاقت نہ تو ہمیں خرید سکتی ہے نہ جھکا سکتی ہے اور اس کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ فوجی و سیاسی قیادت کے دامن داغدار نہ ہوں۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، اس کی بابت انکوائری کمیٹی یا کمشن بھی قائم ہوسکتا ہے لیکن اب ہمیں آگے دیکھنا ہے، اگر ہمیں بطور قوم بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام حاصل کرنا ہے تو آپس کے اختلافات بھی بھلانے ہوں گے اور سب سے پہلے اور سب سے آگے اپنے ملک کو رکھنا ہوگا، اپنے اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالنا پڑے گا۔ ایک اور بات جو اس ضمن میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جتنے بھی سیاستدان اور عسکری حیثیت کے حامل لوگ پاکستان میں موجود ہیں ان کو اپنے اثاثے ڈیکلیر کرنے چاہئیں اور انہیں فوری طور پر پاکستان میں بھی لانا چاہئے، اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو غیرملکی سرمایہ داروں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ سابقہ کرتوتوں کی معافی مانگی جائے اور مستقبل کی فکر کی جائے تبھی ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہوسکیں گے۔ اگر اب بھی ہم نہ سنبھل پائے تو قدرت بھی ہم پر کیسے رحم کرے گی؟اگر ایسا نہ کیا گیا، عام آدمی کی حالت نہ سنبھل سکی تو اس ملک کی سالمیت کا تحفظ صرف حکومت اور ایلیٹ کلاس کا مضمون رہ جائے گا، عام آدمی اگر مزید مایوس ہوگیا تو ملک کی سالمیت اور خودمختاری کا تحفظ اس کا درد سر نہیں رہ جائے گا، ہماری حکومت اور تمام قیادتوں کو عوام کی اشک شوئی کرنا پڑے گی ورنہ اب ہمارے پاس غلطی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207437 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.