چند روز قبل کراچی کی مصروف ترین آئی آئی چندریگر روڈ پر
واقع پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر 29 جون 2020 کو چار حملہ آوروں نے
حملہ کیا تھا . اس حملے کے نتیجے میں چار سکیورٹی گارڈز نے جام شہادت نوش
کیا تھا . لیکن سندھ ریپڈ فورس کے اہلکاروں نے اس حملے کو محظ 8 منٹ کے
اندر اندر ناکام بنا دیا تھا. بعدازاں پاک فوج اور رینجرز کے اہلکاروں نے
علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا.
صبح 10 بجے کیے جانے والے اس حملے کی ذمہ داری بعد میں کالعدم شدت پسند
تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مخصوص گروپ فدا ین مجید بریگیڈ
نے قبول کی تھی . اس تنظیم کی جانب سے دو سال قبل چینی قونصلیٹ پر بھی حملہ
کیا گیا تھا.
پاکستان اسٹاک ایکسچینج حملے کی تحقیقات جاری و ساری ہیں. اس سب میں پس
پردہ بھارت کا ملوث ہونا بے نقاب ہوگیا ہے. یقیناً وزیراعظم پاکستان عمران
خان کا قومی اسمبلی میں دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو اس حملے کا منصوبہ ساز
اور سہولت کار قرار دینا، پاکستان کے بیانیے کی ترجمانی کرتا ہے. لیکن
دوسری جانب ایک ماں کی کہانی ہے جس نے سلمان حمل کو ایدھی سردخانے سے موصول
کرنے کے بعد آبائی گاؤں مند میں جو کہ بلوچستان کے ضلع کیچ میں واقع ہے
سلمان کو سپرد خاک کیا تھا.
انڈپینڈنٹ اردو نے پیر (6 جولائی) کو حملے میں شامل چار افراد میں سے سلمان
حمل کی 21 سالہ بہن سائرہ سے بذریعہ فون گفتگو کی. جنھوں نے بتایا کہ 1993
میں پیدا ہونے والے سلمان حمل کی عمر حملے کے وقت 27 سال تھی.
اس کے نام کے ساتھ ایک لقب 'حمل' بھی لگتا تھا. جو کہ مکران بیلٹ میں رہنے
والے بلوچ عموماً اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں. سائرہ نے مزید بتایا
کہ سلمان کے چار بھائی ہیں . جن میں سے سب سے بڑا بھائی دبئی میں ہے، جبکہ
باقی دو بھائی تیسری اور پانچویں جماعت کے طالب علم ہیں. اس کے علاوہ دو
بہنیں اور ایک بیوہ ماں سلمان کا کل خاندان ہیں. جبکہ اس کے والد کا انتقال
2012 میں ہوگیا تھا.
سائرہ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سلمان نے میٹرک کی تعلیم بلوچستان کے
ضلع کیچ کے شہر تربت میں واقع زبیدہ جلال خان سکول سے حاصل کی تھی. سائرہ
کے مطابق سلمان نے لورالئی میں واقع بلوچستان ریزیڈ نشل کالج (بی آر سی)
میں داخلہ لیا تھا. لیکن بعد میں پھر تعلیم ادھوری چھوڑ دی. اس دوران ہی اس
کے والد کا انتقال ہوا جس کے دوران ان کا بھائی سلمان گھر چھوڑ کر چلا گیا
تھا.
اس حوالے سے سائرہ نے بتایا کہ میں اپنے بھائی سے 6 سال چھوٹی ہوں. مجھے
یاد نہیں کہ وہ بظاہر کیسا دکھائی دیتا تھا یا اسے کس چیز کا شوق تھا.
کیونکہ سلمان 8 سال پہلے گھر چھوڑ گیا تھا اور میں اس وقت کافی چھوٹی تھی.
سائرہ نے کالعدم شدت پسند تنظیم میں سلمان کی شمولیت کے متعلق سوال کا جواب
دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو خود 2015 یا 16 کو اس کارنامے( بی ایل اے میں
شمولیت) کے بارے میں محلے داروں سے علم ہوا تھا.
سائرہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا کبھی سلمان کو روکنے کی کوشش نہیں کی؟
اس سوال کے جواب میں سائرہ نے بتایا کہ جب بھی ہم اس بارے بات کرتے تھے وہ
ہماری کال کاٹ دیتا تھا اور کئی دن تک رابطہ منقطع رکھتا تھا . وہ ملنے بھی
صرف ایک دفعہ آیا تھا، لیکن اس نے ہمیں اس متعلق کچھ نہیں بتایا تھا.
بہرحال وہ چلا گیا اور پھر کبھی نہیں آیا. سائرہ کے مطابق انہیں اپنے بھائی
سلمان کی ہلاکت کی خبر بھی ٹی وی کے ذریعے ہوئی تھی. 29 جون 2020 کو اسٹاک
ایکسچینج حملے میں ہلاک دہشتگردوں کے نام بھی نشر کیے گئے تھے. سائرہ نے
بتایا ہمیں حملے اور ہلاکت کا ٹی وی سے معلوم ہوا تھا. یہ دیکھ کر ہمیں
بالکل یقین نہیں آیا کہ بھائی سلمان نے ایسا کیا. ہمیں اگر معلوم ہوتا کہ
وہ ایسا کرے گا تو ہم یہ اس کو کبھی نہ کرنے دیتے بلکہ سخت مزاحمت کرتے.
سلمان کی بہن سائرہ نے بتایا کہ میری والدہ کی خواہش کے تحت ہم نے کراچی
آکر ایدھی سردخانے سے اس کی لاش وصول کی. بنیادی طور پر میری ماں بھائی
سلمان کا آخری دیدار کرنا چاہتی تھی. بیشک کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ماں تو
آخر ماں ہوتی ہے چاہے اس کا بیٹا دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو ماں کی ممتا کم
نہیں ہوتی. وہ بیٹا جس نے اپنی ماں اپنی دھرتی میں ہی دہشت گردی کی، جس نے
غیروں کے ہاتھوں استعمال ہوکر اپنی ماں اپنی دھرتی کو نقصان پہنچانا چاہا،
جس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی والدہ کا کیا حال ہوگا؟ اس کے دو بھائی جو
کہ بہت چھوٹے ہیں بڑے ہوکر اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ اس نے تو یہاں تک
بھی نہ سوچا کہ ایک دہشتگرد کے خاندان کو لوگوں کے نفرت آمیز رویوں کو
برداشت کرنا ہوگا؟ خیر اس نے تو یہ سب نظرانداز کردیا. لیکن اس کی بیوہ ماں
نے اس کا آخری دیدار تک نظرانداز نہ کیا، اور کراچی سے بلوچستان لاکر دفنا
دیا. بیشک سلمان اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے اور یقیناً اس کے خاندان والے
معصوم ہیں. ریاست پاکستان کو چاہیے کہ اس ماں اور دوسری ایسی ہی معصوم ماؤں
کو تحفظ فراہم کریں. نیز یہ کہ ان کے خاندان سے بھی اچھا برتاؤ ہی رکھیں
تاکہ پھر کبھی کسی ماں کا دوسرا بیٹا اس سے یوں فرار اختیار نہ کرے. ریاست
بھی ماں کی طرح ہی ہوتی ہے. اس لئے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام ناراض بچوں
کو گھر سے باہر نہ نکلنے دے تاکہ ان بچوں کا کوئی غلط استعمال نہ کرے، بلکہ
ان کو پیار سے سمجھائے . نیز یہ کہ اگر بچوں کے کچھ تحفظات ہیں تو ہر صورت
ان کے تحفظات دور کرے. بلکہ جو بچے واپس گھر آنا چاہتے ہیں ان کے لئے گھر
کے دروازے بھی کھول دے . لیکن جو بچے زیادہ شرارت کریں یا ماں کو تکلیف
پہنچائے، ان کو پھر ڈنڈے کی طاقت سے سیدھا کردے تاکہ باقی بچے اس کو دیکھ
کر نصیحت حاصل کریں. |