میرا جگر کا ٹکڑا چلا گیا

انسا ن کو پیش آنے والے ہر ہر حادثہ میں اسلامی تعلیمات اس کے فطری دین ہونے پہ مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔ اسلام نے تعزیت کو عظیم ثواب گردانا ہے۔ اگر رشتہ دار اور قریبی احباب تعزیت نہ کرے، تسلی کے دو بول نہ بولے، اپنے کام کاج چھوڑکر غم خوار کا غم غلط کرنے نہ آئے تو وہ اپنے غم میں گھٹ گھٹ کر جان گنوا بیٹھے۔

محمد علی پیدائشی طور پہ بالکل تندرست تھا، صحت مند صحیح سالم۔ ولادت کے چند روز بعد اماں نے کہا مجھے یہ تھوڑا کم زور دکھائی دیتا ہے، احتیاطاً اسے انھیں ڈاکٹر کو دکھا آئیں جہاں سے تم امل کا علاج کراچکے ہو۔کوئی بیماری نہ ہوئی تو الحمدﷲ، ہوئی تو سو بسم اﷲ بروقت علاج ممکن ہوسکے۔میرا جی نہیں چاہ رہا تھا ڈاکٹر کو دکھانے کا۔ مجھے یقین تھا کہ بچہ نارمل ہے، بالکل ٹھیک ہے۔لیکن والدہ کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔

کراچی بورڈآفس میں واقع حنیف ہسپتال کے چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر شمس العارفین نے چیک کرکے ہم پہ بم گرادیا کہ آپ کے اس بچے میں بھی وہی جراثیم ہیں جو آپ کی بیٹی میں تھے بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں۔ Ehler danlos بیماری کا علاج دوا سے زیادہ دعا پہ چلتا ہے۔ یہ سنتے ہی ہمارے جسم سے سانس نکل گئی۔ مایوسی کے عالم میں ہسپتال سے نکل آئے۔ بیگم رو پڑی کہ اب کیا ہوگا۔ کیا محمد علی مر جائے گا؟ میں اسے ڈانٹا۔ایسا نہیں بولا کرتے۔ یہ ڈاکٹر لوگ تو جو منہ میں آئے بک دیتے ہیں، انھیں دوسروں کے احساسات کا کوئی پاس نہیں۔ ہمارا بچہ صحیح سالم ہے، تم دیکھتی نہیں اس کی صحت کو۔بہرحال ڈاکٹر شمس العارفین سے وقتا فوقتا علاج چلتا رہا۔ بچہ بڑا ہوتا گیا۔ وہ اپنی دونوں بہنوں امل اور ملیکہ کی طرح ذہین تھا، چہرے جلد شناخت کرلیتا، جو شخص بھی بات کرتا رخ اسی کی طرف موڑ لیتا۔ اماں گاؤں گئیں تھیں، وہاں سے کال کی، وہ رورہا تھا، ہم نے اماں کی آواز سنائی، اپنی دادی کی آواز سنتے ہی وہ چونک پڑا، ادھر ادھر اماں کوتلاش کرنے لگا۔ان دنوں میں اسے اپنے ساتھ دکان بھی لانے لگا تھا۔ گھر کے ساتھ ہی متصل دکان ہے۔گھر میں اس کا جی اکتاتا، رونے لگتا، کسی طور خاموش نہ ہوتا، میں اسے دکان لے آتا، یہاں آتے ہی اس کا موڈ خوش گوار ہوجاتا، کھیلنے کودنے لگتا، ٹیبل پہ ترتیب سے رکھی اشیاء ایک ایک کرکے فرش پہ گرادیتا۔ پڑوسی دکان دار یا کوئی کسٹمر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا، میں اس بندے کا تعارف اس سے کراتا’’یہ اکبرشاہ استاذ ہیں، ہمارے پڑوسی، گاڑیوں کے مکینک، بہت اچھے انسان ہیں‘‘۔ میری بات ختم ہوتے ہی وہ یوں مسکرا اٹھتا جیسے سب کچھ سمجھ رہا ہو۔

یکم جولائی کی رات وہ بہت بے چین تھا۔ ڈاکٹر سعود ہمارے فیملی ڈاکٹر ہیں، انتہائی قابل۔ انھیں دکھایا، انہوں نے چیک اپ کرکے معمول کے مطابق دوا دی، کوئی افاقہ نہیں ہوا، پوری رات بے خوابی میں کٹی۔ بچے عموماً ایسا کرتے ہیں، پوری رات ہلکا پھلکا رونا جاری رہتا ہے، پھر دن چڑھے لمبی تان کے سوئے پڑے رہتے ہیں۔ آج مگر یوں نہیں ہوا، فجر کے بعد بھی اس کی بے قراری بر قرار رہی۔ میں اسے ٹہلانے گھر سے باہر نکال لایا، باہر کتے اٹھکیلیاں کر رہے تھے، انھیں دیکھ کے وہ بھی طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگا۔ یہ اس کی طرف سے گرین سگنل تھاکہ میں خیریت سے ہوں،ٹینشن کی کوئی بات نہیں، بس گھر کے اندر جی اکتا رہا تھا، اگر اندرونی تکلیف ہوتی تو گھر سے باہر بھی ہوتی۔ کچھ دیر باہر کی تازہ ہوا خوری کے بعد میں اسے گھر بیگم کے پاس چھوڑ دکان کھولنے چلا گیا۔

یہ صبح تقریبا دس بجے کا وقت تھا۔ بیگم نے کال کی کہ محمد علی کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی، دھڑکن بہت تیز چل رہی ہے۔ میں گھر گیا، دکان والد صاحب کے حوالے کی۔بیگم سے کہا چلو پہلے مشہور روحانی معالج مولانا ادریس کو دکھا آئیں گے، راستہ میں ہی سعود ہاسپٹل پڑتا ہے، اس کے پاس بھی لے جائیں گے کہ رات کی دوا سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ جامعہ ربانیہ قصبہ کالونی کے نائب رئیس مولانا ادریس نے خصوصی توجہ سے نوازا، ان کو دکھانے کے بعد گاڑی سعود ہاسپٹل کی طرف موڑی۔ ڈاکٹر صاحب تاحال تشریف نہیں لائے تھے۔ بیگم سے کہا، کافی رش ہے، جبکہ ڈاکٹر صاحب بھی موجود نہیں، ان شاء اﷲ مولانا کے علاج سے افاقہ ہوجائے گا، ڈاکٹر صاحب کی دوا بھی ختم نہیں ہوئی، اگر فرق نہیں پڑا تو پھر دکھانے لے آئیں گے اس وقت تک رش بھی چھٹ چکا ہوگا۔ ہم مطمئن ہوکر گھر لوٹ آئے۔ دکان سے گھر کو راستہ جاتاہے، گھڑی گھڑی گھر کا چکر لگتا رہتا ہے، کسی کام سے گھر گیا، وہ تولیہ میں لپٹا بیڈ پہ بیٹھا ہوا تھا،میں اسے پیار سے ’’کاکی‘‘ بلایا کرتا تھا، میں نے آواز دی کاکی!۔۔۔۔۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھ کر نظریں جھکائیں اور منہ موڑلیا۔ جیسے بزبان حال کہہ رہاہو، تمہارا کاکی تو بس چند گھنٹوں کا مہمان ہے، ہمیشہ کے لیے اس درد بھری دنیا سے وہ کوچ کر جائے گا۔ جیسے جدائی کو یاد کرکے مجھ پہ آنے والی تکلیف کو وہ محسوس کر رہاہو۔میں مسکراتا ہوا دکان چلا آیا۔ اتفاقاً چند ساعات بعد پھر گھر گیا، وہ اماں کے کمرہ میں جھولے میں تھا،اماں جھولا جھول کے اسے سلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اچانک اس کی تیز تیز رونے کی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا، اماں نے اسے جھولے سے نکالا،میں یہ منظر دیکھ رہا تھا، اماں کی گود میں اس کے ہاتھ پیر مڑ گئے، رنگ پیلا پڑگیا، گھر میں کہرام مچ گیا، میں نے اماں کے ہاتھ سے اسے چھین کر باہر کی طرف دوڑ لگادی، باہر گاڑیوں کے الیکٹریشن فہیم استاذ اپنے کام میں مصروف تھے، میں نے انھیں جلدی موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے کو کہا، ہم بھاگم بھاگ ڈاکٹر سعود کے پاس پہنچے، انہوں نے چیک کرکے مایوسی کے عالم میں کہا اسے قطر یا عباسی ہسپتال لے جاؤ، ہم نے وہی سے عباسی شہید ہسپتال کی طرف گاڑی دوڑادی۔ راستہ میں میں نے اسے بہت آوازیں دیں، کاکی۔۔۔۔کاکی، محمد علی، اس نے میری ایک بھی پکار کا جواب نہیں دیا تو میری ہچکیاں بندھ گئیں۔

عباسی شہید ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے کارروائی شروع کی۔ چار افراد پہ مشتمل میل فی میل عملہ نے پانچ دس منٹ کارروائی جاری رکھی، سینئر ڈاکٹر میرے پاس آیا، تفصیلات پوچھیں، کیا بیماری تھی، کتنی دیر میں یہاں تک لے کے آئے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ میرے جوابات سننے کے بعد انہوں نے کہا آپ جب اسے یہاں لائے تو یہ اپنی سانسیں پوریں کرچکاتھا، پھر بھی ہم نے اپنی بساط بھر کوشش کی، اس کی ساتھ مزیدچھیڑ چھاڑ کرنا اسے تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ یہ سنتے ہی میری آنکھوں سے سیل رواں جاری ہوگیا، ڈاکٹر نے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے تسلی دی۔میر ا جگر کا ٹکڑا ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کے چاچکا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد اس کی نعش اٹھائے میں ہسپتال کے مرکزی دروازہ کی طرف بڑھ رہا تھا، فہیم جان بے چارہ میرا انتظار کر رہاتھا، اس کی زندگی کا بھی شاید یہ پہلا تجربہ تھا، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے مجھے سنبھالا دیا جائے، اپنی سی کوشش وہ بھرپور کر رہا تھا۔ والدین گھر سے ہسپتال کے لیے روانہ ہوچکے تھے، بھائیوں کو اطلاع دی چاچکی تھی۔ اماں نے آتے ہی بچہ مجھ سے لیا، بچے کو گود میں لیے زار وقطار رونی لگ گئیں، میں اپنا غم بھلاکر اماں کو تسلی دینے لگا۔

گھر پہنچے، بچے کی نعش دیکھتے ہی بیگم کی حالت غیر ہوگئی۔ مجھے خوف دامن گیر ہوگیا کہ یا اﷲ کرم، حادثہ درحادثہ نہ ہوجائے۔ برادر کبیر مفتی حبیب حسین تشریف لاچکے تھے، انہوں نے بہت اچھے الفاظ میں سب کو صبر کی تلقین کی۔ بھائی نے مجھ سے تفصیل جاننا چاہی، اپنے ’’کاکی‘‘ کا تذکرہ شروع کرتے ہی میرے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا،ہچکیاں بندھ گئیں، بھائی نے شفقت سے سمجھایاکہ ابراہیم! حوصلہ سے کام لو، تم مرد ہو، تمہارا کام تو گھر کی خواتین کوتسلی دینا ہے، تم ہی صبر کا دامن ہاتھ سے جانے دیدوگے تو ان کا کیا ہوگا۔ بعد میں استاذ مکرم شیخ ولی خان المظفر نے بھی یہی کہاکہ یہ لمحات بڑے نازک ہیں، یقینا بچے کی جدائی کا صدمہ بہت بڑا ہے لیکن تمہیں ہوش سے کام لینے ہوگا۔ والدہ اور بیگم کی نظریں تم پر ہوں گیں، تم حوصلہ ہار بیٹھے تو نصیب دشمناں مزید حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔

انسا ن کو پیش آنے والے ہر ہر حادثہ میں اسلامی تعلیمات اس کے فطری دین ہونے پہ مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔اسلام نے نابالغ بچے کی موت پہ صبر کو انتہائی عظیم قرار دیاہے، صابر والدین کے لیے جنت کا پروانہ جاری کیاہے۔ متعدد احادیث سے یہ مضمون ثابت ہے۔ یہ بچہ روز قیامت باقاعدہ لڑ جھگڑ کر اپنے والدین کو جنت میں داخل کروائے گا۔ یہ سوچ کر بے قررار دل کو قررار آتا ہے کہ میراابیٹا، میرا جگر کا ٹکڑا،میرا کاکی محمد علی جنت میں مزے کر رہاہوگا، ہمارے لیے ان شاء اﷲ جنت کو سجائے ہمارا انتظار کر رہاہوگا۔
 

Ibrahim Hussain Abdi
About the Author: Ibrahim Hussain Abdi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abdi: 60 Articles with 57773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.